خبرنامہ

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اڈیالہ جیل سے رہا

نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر اڈیالہ جیل سے رہا

اسلام آباد: (ملت آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے تینوں کو 5،5 لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔

پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما آصف کرمانی، چودھری تنویر اور ڈاکٹر فضل چودھری نے سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ضمانتی مچلکے جمع کرا دیئے۔ تحریری فیصلہ جج احتساب عدالت کو بھیجا جائے گا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ کے روبرو نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا گلف اسٹیل کے 25 فیصد شیئرز فروخت کا معاہدہ جعلی ہے، مجرمان کا دعویٰ ہے کہ 1978ء میں گلف سٹیل ملز کے 75 فیصد شئیر فروخت کیے اور 1980ء میں بقیہ 25 فیصد شئیر 12 ملین درہم میں فروخت کیے، مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی رقم کی بنیاد یہی 12 ملین درہم ہیں، 12 ملین درہم کی منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے، 12 ملین درہم میں شئیرز فروخت کے معاہدے کی یو اے ای حکام نے تصدیق نہیں کی۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا مجرمان کا یہ موقف کہاں پر آیا ؟ جس پر اکرم قریشی نے کہا سپریم کورٹ میں مجرموں نے یہ موقف دیا کہ فلیٹس گلف سٹیل کی فروخت سے آئے، جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا سپریم کورٹ کی درخواستوں پر موقف ٹرائل کورٹ میں موقف کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا ہمارے پاس بھی یہی موقف اپنایا گیا کہ لندن فلیٹس کی رقم گلف سٹیل ملز سے آئی، جے آئی ٹی میں مجرموں کا یہ موقف تھا، مریم نواز نے کہا کہ وہ نواز شریف کی زیر کفالت ہیں اور ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ قطری شہزادے کو ایک سے زائد خطوط لکھے گئے کہ آپ آ کر اپنا بیان قلمبند کرائیں، قطری کو یہاں تک کہا گیا کہ اگر یہاں نہیں آتے تو وہاں آ کر بیان قلم بند کر لیں گے، 2012 تک مریم نواز ان فلیٹس کی بینفشل اونر تھی، بعد میں ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر ٹرسٹی بنیں، مریم نواز کا ایک بیان ہے کہ وہ اپنے والد کی زیر کفالت ہیں اور والد کے گھر میں رہتی ہیں، مریم نواز جب زیر کفالت تھیں تو نواز شریف پر بوجھ پڑ رہا تھا، کہ زیر کفالت بچی مالک کیسے ہے۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا 1993 میں مریم نواز کی عمر کیا تھا، جس پر اکرم قریشی نے کہا 1993 میں مریم نواز 20 سال کی تھیں۔ عدالت نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993 میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے، مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ فرض کر لیں کہ فلیٹس نواز شریف کے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا یہ میں نہیں کہتا یہ قانون کہتا ہے کہ آپ فرض کریں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کئے گئے چارٹ پر نیب پراسیکیوٹر جہانیزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈز کہیں بھی رجسٹر نہیں کروائی گئی تھیں، جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ نے سوالنامہ دیا تھا، ایک ایم ایل اے کے جواب میں پتہ چلا بینیفشل مالک مریم نواز ہیں، ہم نے دلائل کے آغاز میں ہی کمپنیوں کا ایک چارٹ پیش کیا تھا، اس چارٹ کے مطابق ایک کمپنی کے چئیرمین میاں نواز شریف ہیں، اس کمپنی کا نام کیپٹل ایف زیڈ ای ہے، یہ کمپنی نیلسن، نیسکول اور کومبر سے ڈیل کرتی تھی، نیلسن، نیسکول اور کومبر کا ذکر ٹرسٹ ڈیڈز میں موجود ہے، ٹرسٹ ڈیڈز میں فلیٹس کے نمبر بھی دیئے گئے ہیں، یہ لنک بنتا ہے نواز شریف کا لندن فلیٹس کے درمیان۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس کیس میں شک کا فائدہ ملزم کو نہیں دیا جانا چاہیے، جس پر جہانزیب بھروانہ نے کہا جی بالکل، اس کیس میں شک کا فائدہ ملزم کو نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے جس شخص نے چارٹ پیش کیا وہ کہتا ہے مجھے نہیں معلوم کس نے بنایا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا ریکارڈ ایف بی آر اور الیکشن کمیشن سے لیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جہانزیب بھروانہ سے استفسار کیا کیا نواز شریف نے اثاثے بنائے اور مریم نواز نے ان کی مدد کی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی بالکل، مریم نواز نے اثاثے بنانے میں مدد کی۔ جسٹس میاں گل حسن نے کہا تو پھر مریم نواز کو سیکشن 9 اے 5 کے تحت سزا کیسے ہوئی، کیا پراپرٹیز بنانے میں مریم نواز کا کوئی تعلق نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا اثاثے بنانے میں مدد کرنے والے پر سیکشن 9 اے 5 کے ذریعے 9 اے 12 لگائی جاتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے لیکن فیصلے میں 9 اے 5 اور 9 اے 12 دونوں لکھی گئی ہیں، پھر شاید یہ ٹائپنگ کی غلطی ہو گی۔

سماعت سے پہلے ہی کمرہ عدالت کچھا کچھ بھر ہوا تھا، پراسیکیوشن ٹیم اور درخواست گزاروں کے وکلاء اور لیگی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

یاد رے سلام آباد کی احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سابق وزیرِاعظم نواز شریف کو دس سال قید، ایک ارب انتیس کروڑ روپے جرمانہ، مریم نواز کو سات سال قید، 32 کروڑ روپے جرمانہ، شریف فیملی کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بحقِ سرکار ضبط کرنے کا حکم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی