خبرنامہ

نواز شریف کے لئے مفت مشورہ، سخت رویہ اپنائیں۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ… میں ان کی مجلس مشاورت کا حصہ نہیں ہوں، ہفتے کے روز انہوں نے ملک بھر سے چیدہ چیدہ میڈیا پرسنز کو اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں مدعو کیا۔ وہ وزیر اعلی پنجاب کے بڑے بھائی ہیں ، اس لئے پنجاب حکومت کی سہولتوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں، وزیر اعلی پنجاب یہاں کسی کو بھی اپنا مہمان بنا سکتے ہیں، تو بڑے بھائی کے لئے یہ جگہ کیوں نہ فراہم کریں۔، میرے جیسے صحافی بھی مری کے پنجاب ہاؤس میں مہمان کے طور پر قیام کر چکے ہیں، مگر یہ اچھے وقتوں کی بات ہے یعنی انیس سو پچاسی ، چھیاسی کی۔
اس مشاورت میں شرکت کے لئے بعض ایڈیٹر صاحبان کو خود وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب نے فون کیا، یہ فون انہوں نے مسلم لیگ ن کی لیڈر کے طور پر کئے ہوں گے، بہر حال یہ بات طے ہے کہ اس اجتماع سے وفاقی وزارت اطلاعات کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں نے اپنے آپ کو نظر انداز کئے جانے پر وزارت اطلاعات کے ایک سینیئر افسر سے گلہ کیا تو مجھے یہی وضاحت پیش کی گئی جسے میں نے قبول کر لیا۔ ویسے بھی ایک تو نواز شریف نے بطور وزیر اعظم شاید ہی کوئی میڈیا بر یفنگ منعقد کی ہو، وہ ہر کہ و مہ سے مشورہ کرنا پسند نہیں کرتے، پھر یہ بھی انہیں علم نہیں ہوتا کہ جن کو بلائیں گے وہ انہیں کیا کچھ نہیں سنائیں گے، چنانچہ وہ میڈیا سے پرہیز کو بہتر سمجھتے ہیں، میری معلومات کے مطابق بعض سینیئر میڈیا پرسنزنے نواز شریف سے یہی شکائت کی کہ انہوں نے میل جول بند کر رکھا ہے، وزیر اعظم کے طور پر انہیں جس صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کی ایک بڑی وجہ مشاورت کی کمی اور نادان دوستوں سے مشاورت ہے۔بھٹو کو بھی یہی مشیر لے بیٹھے تھے، ویسے ہی چہرے نواز شریف کے گرد جمع ہیں۔ چودھری نثار جیسے سینیئر مسلم لیگیوں کو گلہ پید اہو اکہ انہیں مشاورت کے لئے نہیں بلایا جاتا تو اس سے یہ بات طے ہے کہ آئندہ کے لئے نواز شریف کو اپنا دائرہ مشاورت ایک تو وسیع کرنا چاہئے ، دوسرے ان لوگوں سے مشورہ کریں جو محض قصیدہ گو نہ ہو ں اور صائب مشورہ دے سکیں، مشورہ ایک امانت کے مترادف ہے جس میں خیانت بھی نہیں کرنی چاہئے، یہ بات میں مشورے میں خیانت کرنے والے ان کے اور اپنے مشترکہ دوستوں کے لئے کہہ رہا ہوں۔
نواز شریف نے آخری مرتبہ مجھے مشاورت کے لئے اسوقت بلایا تھا جب وہ عراق جنگ پر تقریر کرنا چاہتے تھے ، میاں شہباز مجھے لینے کے لئے تھرو پراپر چینل آئے تھے، انہوں نے میرے مرشد مجید نظامی صاحب سے درخواست کی تھی کہ یہ تقریر میں لکھوں مگر میں نے ماڈل ٹاؤن جا کر وزیر اعظم سے تین باتیں کیں کہ ایک تو جنگ شروع ہونے کے پانچ دن بعد رد عمل جچتا نہیں۔ دوسرے ان کے پاس ایک سینیئر دوست تقریر لکھنے کے لئے پہلے سے موجود تھے۔، اور تیسرے میں نے کہا کہ اگر اس وقت بھٹو صاحب ہوتے تووہ ایک جہا زپکڑتے اور بغداد کے ارد گرد جو ہوائی ا ڈہ میسر آتا، اپنا جہاز وہاں اتارتے اور امن مشن شروع کر دیتے۔ وزیر اعظم نے تقریر تو کرنا ہی تھی، وہ میں نے نہیں لکھی،البتہ انہوں نے میرا تیسرا مشورہ مان لیا اور ایک بار نہیں دو بار جہاز پکڑ کر مڈل ایسٹ نکل گئے، ایک بار تو فضا میں انہیں ایک عراقی اسکڈ میزائل بھی دکھایا گیا جوتل ابیب کی طرف محو پرواز تھا، اس طرح کی ڈھمکیریاں حکمرانوں کی خوشنودی یا ضیافت طبع کے لئے بعض درباری صحافی ایجاد کرنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ ایک مشاورت مجھے اور یاد�آ رہی ہے، ہم بنگلہ دیش میں سارک کانفرنمس سے واپس آ رہے تھے توانہوں نے مجھے اپنی سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بٹھاکر پوچھا کہ کیا حالات دیکھ رہا ہوں، میں نے بے تکلفی کے انداز میں کہا کہ �آپ کی حکومت ہفتہ دس دن اور چل سکتی ہے، انہوں نے میرے تجزیئے کی بنیاد پوچھی تو میں نے دو تین واضح اشارے کر دیئے،۔ ہمارا جہاز پنڈی اترا تو اس کی سیڑھیوں پر ہی یہ خبر ملی کہ جنرل آصف نواز کی بیوہ نے ایک پریس کانفرنس میں نواز اور شہباز کو ان کی موت کا ذمے دار قرار دیا ہے، بہر حال؂؂ چند روز بعد ان کی حکومت ختم ہو گئی۔
ایک مشاورت اور بھی ہا د آتی ہے، ایک بار صبح سویرے منیر صاحب کا فون آیا کہ دفتر آنے سے پہلے صاحب کے گھر جائیں، میں سوچتا رہا یا اللہ خیر تو ہے، صاحب کے پاس پہنچا تو انہوں نے حکم دیا کہ آج شام کو نواز شریف نے قوم سے خطاب کرنا ہے، میں ان کے لئے تقریر لکھوں،، اس میں شائستگی تو ہو مگر بات بڑے محکم لہجے میں کی جائے۔ میں نے تقریر کا مسودہ صاحب کو بھجوا دیا۔ شام کو ایک شادی کے انتظامات کے لئے اندرون شہر کسی دکان پر تھا کہ ریڈیو پر یہ تقریر سنی مگر یہ تو اس سے بالکل الٹ تھی جو کچھ میں نے لکھا تھا۔ میں نے صاحب کو فون کیا کہ آپ تو شائستگی والی تقریر کہہ رہے تھے مگر یہ تقریر تو دھماکہ خیز ہے، صاحب قہقہے لگاتے رہے کہ مزا تو آیا ہے ناں، میں صاحب کے گھر پہنچا، رات کے گیارہ بجے تھے، وہ کبھی نو بجے کے بعد فون نہیں سنتے مگر مجھے انہوں نے اندر بلا لیا، میں نے پھر احتجاج کیا کہ ایسی تقریر لکھوانا تھی تو مجھے اجازت دیتے ، میں وزیر اعظم کے مخالفین کے پرخچے اڑا دیتا مگر صاحبو! اس تقریر نے بھی میاں صاحب کے دشمنوں کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی کیونکہ انہوں نے تقریر کا آغاز ہی یہ کہہ کر کیا کہ نہ جھکوں، نہ ڈکٹیشن لوں گا۔ اس تقریر سے ایک نیا نواز شریف عوام کے سامنے آیا جو ڈٹ سکتا تھا، میدان میں جم کے لڑ سکتا تھااور حریفوں کو چت کر سکتا تھا ۔میاں صاحب اپنے منصب سے تو چلے گئے مگر سازشی صدر اسحق خان کو بھی ساتھ لے گئے۔ہم تو ڈوبے ہیں صنم ، تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے۔
نواز شریف نے مشرف کے جرنیلوں کے پستول تاننے کے باوجود استعفے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا، ٹھیک ہے وہ جیلوں میں گئے، قلعوں میں گئے، جلا وطن کر دیئے گئے ، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ یہ انہوں نے ثابت کر دکھایا۔ اس کے بعد تو میاں صاحب ہمیشہ ایک فائٹر کے طور پر کردار ادا کرتے رہے اور لوگوں کے دل اور ووٹ جیتتے رہے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ محمد علی کلے اگر صحیح فائٹر نہ ہوتا تو وہ محمد علی کلے کے طور پر تاریخ میں نام نہ پید اکرتا، کتنے باکسروں کے نام آپ کو اور یاد ہیں ، عامر خان جو طلا ق دینے میں شیر ہیں مگر رنگ میں چاروں شانے چت گرے ہوتے ہیں۔ ویسے ان کی آؤ بھگت جنرل راحیل شریف نے بہت کی، پتہ نہیں انہیں عامر خان کی کیا خوبی بھا گئی تھی۔
میاں نوازشریف کو میں محمد علی کلے سے مماثلت دیتا ہوں۔ وہ فائٹر بنتے ہیں تو جیت جاتے ہیں ۔ کوئی ان کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا، کوئی ان کو جھکا نہیں سکتا۔ کوئی ان کو خرید نہیں سکتا۔
میں حیران ہوں کہ حالیہ عدالتی جنگ میں ان کے مجاوروں نے یہی تاثرد یا کہ وہ سخت فائٹ کریں گے، خود وزیر اعظم نے کہا کہ عوام کے منڈیٹ کی توہین قبول نہیں کروں گا مگر یہ کیا کہ انہوں نے یک بارگی سب کچھ چھوڑد یا، کونسی بلا تھی جو ان کے سر پہ تلوار تانے کھڑی تھی،۔ مجھے تو کوئی ایسی بلا نظر نہیں آئی ، البتہ چودھری نثار نے بعض خطرات یا خدشات کا ذکر کیا تھا مگر بھائی یہ انیس سوستر نہیں کہ بھٹو صاحب تاشقند کے رازوں کی پٹاری نہ کھولیں، اب میڈیا کا دور ہے، پل پل کی خبریں اڑ رہی ہیں اور جو خبریں نہیں، وہ بھی چل رہی ہیں۔ چودھری نثار ٹھیک کہتے ہوں گے مگر نواز شریف کا فرض ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کی توہین نہ ہونے دیں، ان پر کرپشن کے ایک دھیلے کا الزام ثابت نہیں ہوا، بس ایک طوطا مینا کی کہانی ہے ، ایک الف لیلی ہے جس کے سہارے انہیں منصب سے ہٹا دیا گیا ہے، میں عدالتی فیصلے پر تبصرہ نہیں کر سکتا کہ قانون دان نہیں ہوں لیکن میرا تجزیہ ہے کہ اگر عمران خان متواتر تین چار سال سے ڈھٹائی کے ساتھ میدان میں ڈٹا ہوا ہے، وہ کئی کئی ماہ کا دھرنا دیتا ہے تو میاں صاحب کوکئی سال کا دھرنا دینے کا حق حاصل ہے۔عمران خان اگر اسلام �آباد کو لاک داؤن کرنے کی کوشش کرسکتا تھا اورا س پر کوئی حد جاری نہیں کی گئی تو میاں صاحب کو بھی ا یسا کر گزرنا چاہیئے، عمران خان اگر لوگوں کو گیس ، بجلی ، فون کے بل ادا نہ کرنے کا مشورہ دے سکتا تھا ، اوور سیز پاکستانیوں کو ترسیلات بند کرنے کی ہدائت دے سکتا تھا تو میاں صاحب اس سے بڑی قیامتیں ڈھا سکتے ہیں اور انہیں ایساکرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ، اس لئے کہ ا ن کے حریف یہی ہتھکنڈے استعمال کر چکے ہیں۔ میاں صاحب بھی عدالتوں میں ایسے ایسے الزامات لے جائیں کہ مخالفین کی نیندیں حرام ہو جائیں اور زمین پھٹ پڑے اور آسمان ٹوٹ گرے ۔ وہ ایساکیوں نہ کریں جبکہ ان کے حریف اعظم یہ سب کچھ کر چکے ہیں اور اس حریف اعظم کا کسی نے کچھ نہیں بگاڑا۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں جو میاں صاحب سے کہیں کہ وہ عوام کو ٹینکوں کے سامنے لیٹ جانے کے لے تیار کریں ، اس لئے نہیں کہوں گا کہ یہ ترکی نہیں ہے اور یہاں کے ٹینکوں کو سڑکوں پر آنے کی عادت نہیں ہے۔ اور یہ کبھی سڑکوں پر نہیں آئیں گے، یہ چونڈہ کے میدان میں بھارت کونشانہ بنانے کے لئے ہیں۔ میاں صاحب کے پاس عوام ہیں، وہی عوام جو نیلسن منڈیلا کے پاس تھے۔وہی عوام جو ماؤزے تنگ کے پاس تھے، وہی عوام جو ہو چی منہ کے پاس تھے۔ وہی عوام جو قائد اعظم کے پاس تھے، عوام کی طاقت ساتھ ہو تو پھر ڈر کاہے کا۔