اثاثہ جات ریفرنس:اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد، وزیر خزانہ کا صحت جرم سے انکار
اسلام آباد: احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کردی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا جس کے بعد عدالت نے استغاثہ کے گواہان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے اور کیس میں سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔
نیب ریفرنس پر اسحاق ڈار 25 ستمبر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں عدالت نے مختصر سماعت کے بعد ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے آج طلب کیا تھا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت میں آج اسحاق ڈار کے خلاف کیس کی چوتھی سماعت ہوئی جس میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ملزم پر عائد الزامات پڑھ کر سنائے اور فرد جرم عائد کی۔
عدالت نے اسحاق ڈار سے الزامات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’میرے تمام اثاثے آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں، مجھ پر عائد الزامات بے بنیاد ہیں جنہیں عدالت میں ثبوتوں کے ذریعے ثابت کروں گا‘۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’میں بے گناہ ہوں، عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کروں گا اور الزامات کا دفاع کروں گا‘۔
عدالت نے ملزم پر فرد جرم عائد کرنے کے بعد ضابطے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے نیب کو الزامات ثابت کرنے کا حکم دیا جس پر نیب حکام نے 28 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرادی تاہم ان گواہان کے نام سامنے نہیں آسکے جو عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
فرد جرم عائد ہونے کے بعد اسحاق ڈار کے وکلا نے ان کی حاضری سے استثنا کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے اس لیے اب ان کا عدالت آنا ضروری نہیں ہے اس لیے انہیں حاضری سے استثنا دیا جائے، ان کے روزانہ عدالت آنے سے معمولات متاثر ہوں گے جب کہ عدالت آنے سے دیگر مسائل کا سامنا بھی ہے تاہم عدالت جب طلب کرے گی وہ پیش ہوں گے۔
نیب نے اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنا کی مخالفت کردی تاہم عدالت نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہ سناتے ہوئے استغاثہ کے 2 گواہان بینک افسران کو طلب کرنے کے لیے طلبی کے نوٹس جاری کردیئے اور کیس کی مزید سماعت 4 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
احتساب عدالت نے پاناما کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے آغاز کے بعد 6 ماہ کے اندر مقدمات پر فیصلہ کرنا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کی آج عدالت میں پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس اور اس کے اطراف سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔
سخت سیکیورٹی کے باعث میڈیا نمائندوں اور سائلین کو باہر روک لیا گیا جب کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور اسپیشل پراسیکیوٹر کوبھی روکا گیا تاہم انہیں تھوڑی دیر بعد جانے کی اجازت دے دی گئی۔
عدالت کے باہر رش کے باعث پولیس نے عدالت کے گیٹ بند کررکھے تھے، عدالت کے باہر دھکم پیل کے بعد اسحاق ڈار احاطہ عدالت میں داخل نہ ہوسکے جس کے باعث وہ واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے تاہم عدالت کے باہر بدنظمی کی وجہ سے اسحاق ڈار عقبی راستے سے احتساب عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے اور عقبی دروازے سے ہی واپس روانہ ہوئے۔
پولیس کی جانب سے وکلااور صحافیوں کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر عدالت کے باہر شدید بدنظمی ہوئی اور بعض وکلا عدالت کا گیٹ پھلانگ کر احاطہ عدالت میں داخل ہوگئے۔
صحافیوں کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر صحافی عدالت میں ہونے والی کارروائی سے لاعلم رہے اور عدالت میں موجود وکلا سے معلومات حاصل کرتے رہے۔
اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس پر پہلی سماعت 14 اور دوسری 20 ستمبر کو ہوئی جس روز ملزم کی عدم پیشی پر عدالت نے قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے۔
25 ستمبر کو کیس کی تیسری اور گزشتہ سماعت پر اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے ریفرنس کے جائزے کے لیے کم از کم 7 دن دینے کی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔
عدالت نے ملزم کو 23 جلدوں پر مشتمل ریفرنس کی نقول فراہم کر کے وصولی کی رسید پر دستخط کرائے تھے اور فرد جرم عائد کرنے کے لیے آج کی تاریخ مقرر کی تھی۔
واضح رہے کہ نیب نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کی روشنی میں شریف خاندان اور اسحاق ڈار پر ریفرنس بنائے ہیں جب کہ شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے ہیں جس میں میاں نوازشریف پر فرد جرم کے لیے 2 اکتوبر کی تاریخ مقرر ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے کیس میں گزشتہ روز پیش نہ ہونے پر نوازشریف کے بچوں اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔