خبرنامہ

نیسکول سے متعلق دستاویزات پر دستخط جعلی ہیں،مریم نواز

اسلام آباد: (ملت+آئی این پی )پاناما لیکس کیس میں وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا جس میں انہوں نے لندن فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کی ملکیت کا الزام مسترد کردکرتے ہوئے موقف اپنایاکہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق میں ٹرسٹی ہوں اور صرف دستخط کرنے کی مجاز ہوں۔جمعہ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر اسحاق ڈار اور مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کے روبرو مریم نواز کی آمدنی، جائیداد اور ٹیکس کی تفصیلات جمع کروائیں۔ جس میں جس میں انہوں نے لندن فلیٹس اور آف شور کمپنیوں کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن فلیٹس حسین نواز کی ملکیت ہیں ،ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں کی بینیفشل مالک نہیں ہوں۔انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کے شیئرز حسین نواز کو 4جولائی 2006کو جاری ہوئے۔مریم نواز نے اپنے جواب میں کہا کہ نیسکول کمپنی سے متعلق مجھ سے منسوب دستاویزات جعلی ہیں ،نیسکول کمپنی سے متعلق دستاویزات پر میرے دستخط بھی جعلی ہیں۔انہوں نے کہا کہ الثانی خاندان سیکمپنیوں سے متعلق سیٹلمنٹ جون 2016میں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ 2012میں میری زرعی آمدن 21لاکھ 68ہزار 428روپے تھی جو 2016میں بڑھ کر ایک کروڑ 16لاکھ 38ہزار سے زائد رہی۔ مریم نواز نے کہا کہ جون 2010کو والد سے 22لاکھ روپے قرض لیا۔اپنے جواب میں مریم نواز نے مزید کہا کہ جاتی امرا میں 5خاندان الگ الگ رہتے ہیں۔ شمیم ایگری فارم المعروف رائے ونڈ اسٹیٹ میں پانچ گھر ہیں جن میں سے ایک گھر میں میری دادی شمیم اختر رہائش پذیر ہیں ،دوسرے گھر میں میرے والدین رہائش پذیر ہیں ،تیسرے گھر میں میرے مرحوم چچا عباس کی فیملی رہائش پذیر ہے او ر چوتھے گھر میں چچا شہباز شریف کی فیملی رہائش پذیر ہیں جبکہ پانچویں گھر میں میں خود رہتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ شمیم ایگری فارم کی بیشتر زمین میری دادی کی ہے۔ شاہد حامد نے موقف اختیار کیا کہ وزیر اعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں 4 ریفرنسز زیر سماعت ہیں، اس کے علاوہ الیکشن کمیشن میں اسحاق ڈار اور کیپٹن صفدر کے خلاف بھی درخواست زیر التوا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم کیخلاف الیکشن کمیشن میں بھی یہی معاملہ زیر سماعت ہے اور الیکشن کمیشن میں درخواستیں سپریم کورٹ کے بعد میں دائر ہوئیں یا پہلے۔ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے روبرو بھی وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ ہے اور الیکشن کمیشن میں درخوستیں پہلے سے دائر تھیں۔عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مریم نواز کے نام سے1993 سے 1996 کے درمیان بے نامی فلیٹس خریدے گئے، جب فلیٹ خریدے گئے ۔اس وقت مریم نواز کم عمر تھیں اور ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا، دنیا کو دکھانے کے لیے مریم صفدر کو بینیفشری ظاہر کیا گیا، ان کے اصل مالک نواز شریف ہیں، اسی طرح دبئی میں بھی بے نامی اسٹیل مل لگائی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفیشل مالک ہیں لیکن ان کے پاس جائیداد کے لئے رقم نہیں تھی، 2011 میں مریم نواز نے چوہدری شوگر مل سے 4 کروڑ 23لاکھ جب کہ 2012 میں اپنے بھائی حسن نواز سے 2 کروڑ 89 لاکھ روپے قرض لیا۔ 2013 میں پھر والد نے 3 کروڑ سے زائد کی رقم بطور تحفہ دیئے۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آپ کی بات سے مریم کے زیر کفالت ہونے کا معاملہ واضع نہیں ہوتا،التوفیق کیس میں مریم نواز کا نام نہیں تھا، اس میاں شریف، عباس شریف اور شہباز شریف کا نام ہے۔ لندن فلیٹس مریم نواز کو کب اور کیسے منتقل ہوئے۔ کیا مریم کو جائیداد منتقلی کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے،کوئی ایسی دستاویز ہے جس سے ثابت ہو کہ 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ غلط ہے۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جائیداد کی تفصیل سے متعلق کوئی دستاویز نہیں تاہم مریم نواز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فراہم کردہ دستاویز درست ثابت کریں، ایک دستاویز میں مریم نواز سامبا بنک اور منروا کمپنی سے تعلق ظاہر کرتی ہیں، تحقیقاتی ادارے نے موزیک فرم سے آف شور کمپنیوں کی تفصیلات مانگیں اور کمپنیوں کی ملکیت اور دیگر امور سے متعلق دریافت کیا، تحقیقاتی ادارے کو بتایا گیا کہ لندن فلیٹس کرائے پر نہیں دیئے گئے، ان میں مریم اور ان کی فیملی رہائش پذیر ہے۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ بے نامی جائدادوں سے متعلق قانون موجود ہے، کیا تحفے میں دی گئی رقم بے نامی ہو جاتی ہے، تنازع صرف ٹرسٹی اور بینیفیشل مالک کا ہے، مریم اور حسین نواز کے ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط ہیں اور دونوں ٹرسٹی اس ڈیڈ کو تسلیم بھی کرتے ہیں، فلیٹس کی آمدن نہیں تھی تو ٹرسٹ ڈیڈ کی کیا ضرورت تھی۔ موزیک فرم کو ٹرسٹ ڈیڈ کا نہیں بتایا گیا۔ عدالت کوشریف فیملی کی طرف سے نامکمل ریکارڈ دیا گیا، شریف فیملی دستاویزات نہیں دیتی تو نعیم بخاری کی بات ماننا پڑے گی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اصل سوال ریکارڈ کا ہے، بار ثبوت اس پر ہوتا ہے جس کے قبضے میں چیز ہوتی ہے، معلوماتی خط میں مریم نواز کے ذرائع آمدنفیملی بزنس لکھا ہے، اس بات سے کس حد تک خاندان کے دوسرے لوگوں سے تعلق بنتا ہے، دوسرا فریق بتائے کمپنیاں کب بنی ،کس نے بنائی اور پیسہ کہاں سے آیا، دوسرے فریق کا موقف سن کر حکم دے سکتے ہیں کہ دستاویز پیش کریں، عدالت کا اختیار ہے کہ دستاویز طلب کرے۔ سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے ۔جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے اپنے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے پتے ظاہر کریں۔بخاری صاحب آپ کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس سماعت پیر تک ملتوی کردی،عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ میں پیر تک اپنے دلائل مکمل کرلوں گا ۔ (ن غ)