ن لیگ پاؤں پہ کلہاڑی نہ مارے، شہباز کو وزیر اعظم لائے۔۔۔اسداللہ غالب
پہلے فیصلے بڑی تیزی سے ہوئے،کابینہ بنانے میں بہر حال ایک دو روز لگ گئے جو کوئی غیر معمولی بات نہیں ، مگر اب یوں لگتا ہے کہ پارٹی کسی مخمصے کا شکار ہے، یا جان بوجھ کر پتے سینے کے قریب کر لئے گئے ہیں ، مسلم لیگ ن اندر کی کوئی بات آزاد صحافیوں سے شیئر نہیں کرتی، البتہ جو لوگ ان کے پے رول پر ہیں، وہ ساری کہانی سے واقف ہوتے ہیں۔
عبوری سیٹ اپ تو بن چکا اور حکومتی فنکشن اپنے معمول کے مطابق چل پڑا ہے۔مگر اگلے مرحلے میں لاہور کے ضمنی الیکشن اور مستقل وزیر اعظم کے بارے میں بہت ابہام پید اہو چکا ہے، اندازہ تو یہی تھا اور فیصلہ بھی یہی سامنے �آیا کہ لاہور سے شہباز شریف الیکشن لڑیں گے اور پھر قومی اسمبلی کا حلف لینے کے بعد مستقل وزیر اعظم بھی بنیں گے۔مگر ا س مسئلے پر مختلف اور متضاد اشارے سامنے آ رہے ہیں، رانا ثنا اللہ سے منسوب بیان کے مطابق شہباز شریف کو پنجاب نہیں چھوڑنا چاہئے۔تو پھر وفاقی سطح پر مسلم لیگ ن کے مفادات کی نگرانی کون کرے گا اور پارٹی کو چلانے کے لئے کسے زحمت دی جائے گی۔
ابہام ، مخمصے اور گو مگو کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پوری شریف فیملی کے سر پر نیب کی ننگی تلوار لٹکی ہوئی ہے، اس ادارے کو چھ ہفتوں میں نئے ریفرنس دائر کرنے ہیں اور پھر چھ ماہ میں ان کے فیصلے بھی کرنے ہیں، غیر معمولی بات یہ ہے کہ نیب کی اس کاروائی کی نگرانی سپر یم کورٹ کے ایک جج کو سونپ دی گئی ہے۔سپریم کورٹ کا رویہ سب کے سامنے ہے ا ور�آج آرمی چیف کا یہ بیان بھی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو، یہ ایک عمومی بات بھی ہو سکتی ہے ۔ اور مشرف کے احتساب کے مطالبے کا جواب بھی ہو سکتی ہے کہ تسلی رکھیں یہ بھی ہو سکتا ہے، ، مگر ملک کے موجودہ حالات میں لوگ فوج سے غیر جانبداری کی توقع کرتے ہیں آئین کے تحت فوج کاکوئی سیاسی کردار نہیں مگر مشرف صاحب اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ آئین کو ایک طرف بھی کرناپڑے تو اس میں ہرج نہیں ،۔ ملک کو بچانا ضروری ہے، سوال یہ ہے کہ ملک کو خطرات کابل میں بیٹھی امریکی اور نیٹو افواج سے لاحق ہیں یا بھارتی فوج کی روزانہ کی گولہ باری ہمارے لئے خطرہ ہے یا ایران ممکنہ طور پر فوجی دخل اندازی کر سکتا ہے یا پھرملک کے اندرونی مسائل، پارٹیاں یا اشخاص ملک کے لئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ ایک زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو سیکورٹی رسک سمجھا جاتا تھا، زرداری کے بارے میں بھی یہی تصور عام ہوا خاص طور پر میمو گیٹ کے سامنے �آنے کے بعد۔
میں نے ریٹائرڈ جرنیلوں سے جو مکالمہ کیا ہے،ا س کے مطابق محدودبیرونی فوجی مداخلت ملک کے لئے خطرہ نہیں بن سکتی، اس کے لئے ریٹائرڈ فوجی تجزیۂ کار سلالہ اور ایبٹ آباد آپریشن کی مثال دیتے ہیں ، یہ ایک مقامی سطح کی کاروائی تھی۔ کئی برسوں سے امریکی ڈرون طیارے پاکستان کے اندر حملے کر رہے ہیں، ان کی وجہ سے پاکستان ا ور امریکہ کے مابین وسیع پیمانے کی جنگ نہیں چھڑی۔اسی طرح بھارت بھی اپنے ایجنٹو ں کے ذریعے کامرہ پر دو حملے کر چکا ہے، کراچی میں نیوی کے اڈاے پر بھی حملہ ہو چکا ہے، کامرہ میں سیب یعنی اواکس طیارہ تباہ ہوا اور کراچی میں اورین طیارہ تباہ ہوا جس سے بری فوج اور بحریہ کی نگرانی کی صلاحیت متاثرہوئی،ورکنگ باؤبڈری اورکنٹرول لائن پر بھی بھارت روزانہ شرارت کر رہا ہے مگر ان واقعات نے پاک بھارت جنگ نہیں چھیڑی، پاکستان کشمیر کو اپنی شہہ رگ سمجھتا ہے اوریہ شہہ رگ لہو لہان ہے ، مگر اس کی وجہ سے بھی پاکستان کی سیکورٹی کو خطرہ پیش نہیں آیا۔
تو پھر پاکستان کو کیا خطرات در پیش ہیں، ان پر قوم کو ضرور غور کرنا چا ہیئے، کیا ایک منتخب حکومت ملک کی سیکورٹی کے لئے خطرہ ہے، کیا کرپشن کے الزامات ملک کے لئے خطرہ ہیں، کیا غیر اخلاقی ا ور بدکرادری کے الزامات ملک کے لئے خطرہ ہیں، میرے خیال میں اس مسئلے پر قومی مباحثہ ہونا ضروری ہے۔
مگر�آیئے روز مرہ کے امور کی طرف جن کے فیصلے سامنے �آ جانے چاہیءں۔ کہ لاہور میں الیکشن کون لڑے گا، کیا مسلم لیہگ ن یہ سمجھتی ہے کہ ا س کے خلاف ملک کی ساری سیاسی پارٹیااں متحد ہو جائیں گے اور وہ مسلم لیگ ن کے امیدوا ر کو کامیاب نہں ہونے دیں گے، کیا یہ اندیشہ شہباز شریف کو اس رن میں اتارنے میں رکاوٹ ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلم لیگ ن شہباز شریف کی شکست کی متحمل نہیں ہو سکتی، مگر یہاں سے کسی کو تو الیکشن لڑنا ہے اور اسے وہی چیلنج درپیش ہوں گے جو شہباز شریف کو ہو سکتے ہیں،اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ مسلم لیگ اس مقابلے کے لئے میدان میں ہی نہ اترے، ویسے یہ اندیشہ بہت زیادہ خرابی کا باعث ہے کہ وزیر اعظم کی خالی کردہ سیٹ کو واپس نہ لیا جاسکے۔ یہ بہت بڑا سیٹ بیک ہے، مگر مسلم لیگ کو شیر بننا چاہئے اور ہر صورت میں میاں شہباز کو یہاں سے الیکشن لڑواناچاہئے، ان کے سوا باقی ہر امید وار کمزور ثابت ہو گا۔اس الیکشن سے مسلم لیگ ن کو اندازہ ہوجائے گا کہ اگلے الیکشن کی ہوا کدھر کو چل رہی ہے۔
میرے نزدیک شہباز شریف کو عبوری عرصے کے بعد وزیر اعظم کی سیٹ سنبھالنی چاہئے۔آج تک میاں نوازشریف ہی ملک بھر میں پارٹی امور کو آگے بڑھاتے رہے، اب ان کی جگہ یہ فریضہ صرف شہباز میاں ہی انجام دے سکتے ہیں،وہ حکومت اور پارٹی کے مفادات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور ان کی نگہ داشت بھی وہی کر سکتے ہیں۔
میں شہباز شریف کا لابسٹ نہیں مگر میرا تجزیہ ہے کہ ان کو مدارلمہام بنائے بغیر مسلم لیگ ن کے لئے اگلے الیکشن میں بہتر نتائج حاصل کرن امشکل ہو سکتا ہے، اس لئے مسلم لیگ اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ مارے ۔
شہباز شریف کو پنجاب میں رکھنے کے فیصلے سے مجھے ملک کی وہ دفاعی پالیسی یاد�آ جاتی ہے کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان ہی سے ہو سکتا ہے مگر جب وقت آیا تو یہ نظریہ بودا ثابت ہوا اور مشرقی پاکستان کا مغربی سرحد سے دفاع نہ کیا جا سکا، اسی طرح کا ایک اور دفاعی نظریہ ہے کہ ا فغانستان ،پاکسان کی دفاعی گہرائی ہے۔اس نظریئے کے کب کے پرخچے اڑ چکے۔ اسی طرح کا یہ نظریہ ہے کہ پاکستان میں مسلم لیگ کو جتوانے کے لئے پنجاب کا مورچہ اہم ہے،یاد رکھئے لاہور صرف لاہور ہے،۔ اسلام آباد نہیں۔ آپ یہ نہیں کر سکتے کہ اسلام آباد میں کوئی اور لیڈر ہو اور لاہور کالیڈر اسے بائی پاس کر کے اسلام آباد کی نکیل بھی ہاتھ میں لے لے۔ یہ تجربہ اسلامی جمہوری اتحد کی شکل میں تو کیا گیا کہ پنجاب کے وزیر اعلی نے وزیر اعظم جونیجو کو عضو معطل بنا دیا۔ مگر اب صورت اور ہے ۔یہ اپنے ہی وفاقی لیڈر اور اپنے ہی مقرر کردہ وزیر اعظم پر بد اعتمادی ہو گی۔
بھٹو نے جب پنجاب میں اکثریت حاصل کی تھی تو کیا وہ لاہور کا لیڈر تھا۔ اور کیا بعد میں سندھ میں پییلز پارٹی کی ہی حکومت بنتی رہی ہے تو کیا محترمہ بے نظیر یا زرداری نے اپنے آپ کو سندھ کے وزیر اعلی کے منصب پر فائز رکھنا ضروری سمجھا تھا۔
میں پریکٹیشنر سیاستدان نہیں ہوں۔ میں نے کوئی لابی فرم بھی نہیں کھولی ہوئی، میرا کسی سے براہ راست یا فون پر بھی رابطہ نہیں، کنارے پر بیٹھا ہوں اور صرف تجزیہ کر سکتا ہوں۔جو میں نے پیش کر دیا، اب حکمران پارٹی کو اپنے فیصلے خود کرنے ہیں یا نااہل، ناتجربہ کار قسم کے سیاسی مشیروں سے متاثر ہو کر کرنے ہیں۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ تحریک انصاف اگلا الیکشن اپنے صوبے سے بھی نہیں جیت سکتی، چہ جائیکہ وہ مسلم لیگ کو پنجاب میں خطرے میں ڈالے،ا سی طرح بلاول کی دال صرف سندھ کے اندر گلے گی، اس صوبے سے باہر اس کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں اور وہ بڑ ہانکتا ہے کہ اگلا لیکشن میرا پہلا اور ان کا آخری ہے۔ بڑ ہانکنے پر کوئی پابندی نہیں مگر صحیح فیصلے اور صحیح وقت پر فیصلوں کی اہمیت مسلم ن کے لئے اہمیت رکھتی ہے، کاش ! وہ اس کی اہلیت کامظاہرہ کرے۔