خبرنامہ

واٹر کنزرویشن گروپ کی تشکیل۔۔۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

بسم اللہ..انجینیئر محمد اقبال چیمہ دوبارہ واپس آنے کا وعدہ کرکے اتوار کو برطانیہ چلے گئے، وہ کئی برسوں سے وہاں برسٹل میں مقیم ہیں مگر دل ان کا پاکستان کی تڑپ سے معمور ہے۔لاہور میں انہوں نے میڈیا سے کئی ملاقاتیں کیں، اور آبپاشی کے ماہرین سے بھی تبادلہ خیال کیا، اسلام آباد میں وہ ڈاکٹر شمس املک سے ملے، ان کا ارادہ تھا کہ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ اور پھر آرمی چیف سے بھی ملیں۔ انجنیئر اقبال چہمہ کو تشویش یہ ہے کہ پانی کی نایابی قومی سلامتی لے لئے شدید اور سنگین خطرہ ہے اورا س سے نبٹنا فوج کا بھی اتناہی فرض بنتا ہے جتنا سویلین کا، خاص طور پر بھارت کی آبی دہشت گردی تو ہماری سلامتی کے لئے ایسا خطرہ بن چکی ہے جس کا علاج نہ تلاش کیا گیا تو آنیو الی نسلیں بھوک اور پیاس کا شکار ہو جائیں گی ، کھیت بنجر ہو جائیں گے، میدانوں میں خاک اڑے گی اور بجلی کی مہنگائی سے ہوش ربا مہنگائی کا سامنا کرناپڑے گا کیونکہ سستی بجلی صرف پانی سے بن سکتی ؂ ہے، باقی جتنے بھی بجلی پیدا کرنے کے ذرائع ہیں ، ان کی قیمت فی یونٹ عوام کی پہنچ اور سکت سے باہر ہے مگر سیٹھوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہوں نے تو اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں یہ خرچ شامل کر کے عوام کی جیبوں سے بٹور لینا ہے۔
یہی وہ قیامت ہے جس سے بچانے کے لئے انجیمیئر محمد اقبال چیمہ بار بار پاکستان آتے ہیں ، اور لوگوں میں اس امرکا شعور پید اکرتے ہیں کہ پانی کو ذخیرہ کئے بغیر اس ملک کا مستقبل محفوظ نہیں۔

قومی میڈیا نے اقبال چیمہ کی وارننگ سے عوام کو آگاہ کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ اور چیمہ صاحب نے ا س کام کو مستقل طور پر نبھانے کے لئے بھاگ دوڑ کر کے ایک ایسا ادارہ تشکیل دے دیا ہے جو نمستقل بنیادوں پر عوام کو آبی دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کرے گا اور اس سے نبٹنے کے لئے قابل عمل تجاویز فراہم کرے گا،ا س ادارے کا نام پاکستان واٹر ریسورسز کنزرویشن گروپ تجویز کیا گیا ہے۔اس کے چیئر مین کے طور پر انجینیئر شمس املک فرائض ادا کریں گے ، وہ واپڈا کے بھی سربراہ رہے ا ور خیبر پی کے میں نگران وزیر اعلی بھی بنے۔ جنرل سیکرٹری کے طور پر اقبال چیمہ خود کام کریں گے جبکہ تما م صوبوں سے ایک ایک رکن کو شامل کیا جائے گا، البتہ پنجاب بڑا صوبہ ہے،ا سلئے یہاں سے جنوبی ، وسطی اور پوٹھوہار کے علاقے سے الگ الگ نمائندے لئے جائیں گے۔سابق گورنر پنجاب اور برطانوی پارلیمان میں سب سے پہلے مسلمان ارو پاکستانی رکن منتخب ہونے والے چودھری محمد سرور، لارڈ نذیر احمد ، انڈس بیسن واٹر کونسل کے سلمان خاں، کسان ا تحاد کے نمائندے اور ایوان ہائے صنعت وتجارت کے نمائندوں کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے گی۔گروپ کے وائس چیئر مین کے لئے بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب غوث بخش باروزئی سے درخواست کی گئی ہے۔یہ کام قومی اہمیت کا ہے، ا سلئے اس کو انجام دینے کے لئے پر خلوص اور محب وطن افراد کی تلاش جان جوکھوں کا کام ہے مگر اس ملک میں ایسے لوگوں کا کوئی ایساقحط بھی نہیں۔مگرایسے افرادا ور طبقات بھی باافراط دستیاب ہیں جو اس مسئلے کو اپنے لئے درد سر نہیں سمجھتے، ا سلئے نہیں سمجھتے کہ انہوں نے اپنی عقل ودانش بھارت کے ہاتھوں گروی رکھ چھوڑی ہے۔

مجھے اس گروپ کے قیام کی خبر ایک خط کے ذریعے ملی ہے جو اقبال چیمہ نے پاکستان سے روانگی کے وقت مجھے ٹی سی ا یس کے ذریعے ارسال کیا۔لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے چیمہ صاحب کی جو بھی ملاقات ہوئی،ا سمیں ایک ہی تجویز دی جاتی تھی کہ اس کام کے لئے باقاعدہ ایک فورم تشکیل دیا جائے جوعوام میں آگاہی کے لئے مستقل بنیادوذں پر کام جاری رکھے۔ مجھے خوشی ہے کہ میڈیا کی اس تجویز کو پذیرائی بخشی گئی ہے۔
گروپ کے ایجنڈے میں دس نکات کا ذکر کیا گیا ہے، پہلا اور نمایا ں نکتہ یہ ہے کہ بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف شعور بیدار کیا جائے ، بھارت ناجائز طور پر پاکستان کو اس کے حق سے محروم کر رہاہے بلکہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چناب، جہلم اور سندھ کے پانی سے محروم کرنے کے لئے کوشاں ہے ، بھارتی وزیر اعظم مودی نے علی الاعلان کہا ہے کہ پاکستان کو پانی کی بوند تک نہیں دیں گے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ منگلا اور تربیلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم پڑتی جا رہی ہے، اس کمی کوپورا کرنے کے لئے متبادل ذخائر کا انتظام کیا جائے۔ تیسرا نکتہ بے حد اہم ہے کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے جو فالتو پانی کوٹری سے نیچے بہہ کر ضائع ہو رہا ہے، اس کو ذخیرہ کیا جائے، اس ضائع ہونیو الے پانی کو صرف زراعت کے لئے ہی استعامال کر لیا جائے تو تیس سے ساٹھ بلین کی فالتو آمدنی حاصل ہو سکتی ہے جس سے سر دست ہم محروم ہیں۔ اور اس محرومی کو دور کر نے لئے اتنی ہی رقم کے بیرونی قرضوں کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے پھرتے ہیں۔چوتھا نکتہ یہ ہے کہ سیلاب کی تباہی سے بچنے کے لئے بھی ہمیں نئے آبی ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔ پانچویں نکتے میں سندھ کے مطالبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تجویز پیش کی گئی ہے کہ کوٹری سے نیچے آبی حیات کی ضروریات کے لئے سارا سال پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے بھی نئے ڈیم ضروری ہیں، اس وقت کوٹری سے نیچے پانی ا سی وقت سمندر میں جاتا ہے جو برسات کے موسم میں ہی دستیاب ہوتا ہے، باقی سال بھر آبی حیات پانی کے لئے ترستی ہے۔چھٹا نکتہ ہائیڈل بجلی سے متعلق ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان پانی سے ساٹھ ہزار میگا واٹ بجلی حاصل کر سکتا ہے جو کہ انتہائی سستی اور آلودگی کے مسائل سے پاک صاف ہوتی ہے۔اس قدر سستی بجلی گھروں، زراعت، صنعت اور کاروبار کو فراہم کر دی جائے تو موجودہ مہنگائی کی شرح منہ کے بل گر سکتی ہے۔ ساتواں نکتہ خود میرے لئے نیا اور تعجب خیز ہے کہ چاول اور گنے جیسی فصلیں جن میں زیادہ پانی ا ستعمنال ہوتا ہے، ان کی جگہ ایسی فصلیں اگائی جائیں جن میں کم پانی کی ضرورت ہے مگر وہ ہمیں اس درآمدی بل سے بچا سکتی ہیں جو ان پر ضائع ہو رہا ہے، ان فصلوں میں کپاس، دالوں، سبزیوں اور تیل پیداکرنے والی اجنا س کا ذکر کیا گیا ہے۔ میرے خیال میں گروپ کو یہ صراحت کرنی چاہئے کہ چاول اور گنے کی فصل سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے ،کیا ان کی در آمدات کی صورت میں کم خرچ کرنا پڑے گا۔یعنی اگر چاول ہمیں درآمد کرنا پڑے اور گڑ چینی وغیرہ بھی درآمدی بل میں شامل ہو جائے تو کیا یہ سودا ان فصلوں کی کاشت نہ کرنے سے سستا ثابت ہو گا۔آٹھواں نکتہ بھی قابل غورہے کہ ہمیں اپنے کھیت ہموار کرنے چاہیءں، سپرنکل آبپاشی کا فارمولہ استعمال کرنا چاہئے اور نہروں اور کھالوں کو پختہ کرنا چاہئے تاکہ پانی کے ضیاع کو ہر جگہ روکا جا سکے۔ نواں نکتہ یہ ہے کہ اس وقت ہم تیس دن کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، ہمیں اس صلاحیت کو بڑھا کر ساٹھ دن کی ضروت تک لے جانا چاہئے تاکہ ربیئع کی فصل بھر پور حاصل کی جا سکے۔

دسویں نکتے کو سمجھنے کے لئے ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے کہ اگر ہم زمین کی زرخیزی میں اضافہ چاہتے ہیں تو اس کے لئے قومی سطح پر ڈرینیج کا بند وبست کیا جائے۔
تمام نکات قارئین کی نذر کر دیئے ہیں ، مزید کام کو شمس الملک آگے بڑھائیں گے اور جلد ہی اقبال چیمہ بھی واپس آکر اس گروپ کے پرچم کو سر بلند کریں گے۔ جو شخص بھی ان کا ساتھ دینا چاہے، اسے گروپ کی طرف سے خوش آمدید کہا جائے گا۔