وزیرا عظم اور فوج کے بارے میں باریک کام…اسداللہ غالب
سنتے تو یہ تھے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور ہونے بھی چایئیں تاکہ امور مملکت خیر و خوبی سے ا ٓگے بڑھائے جا سکیں۔ مگر مولانا کے لانگ مارچ نے اس دعوے پر وار کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ وہ بھی سن لیں جنہیں مین سنانا چاہتا ہوں۔ اور واقعی سے جن کووہ سنانا چاہ رہے تھے، انہوں نے سن لیا اور فوری وضاحت بھی کی جس پر مولا نانے ایک سیدھا وار کیا کہ اچھاہوتا یہ وضاحت حکومت کے ترجمان کی طرف سے آتی۔
میں ا س موضوع کو یہیں چھوڑتا ہوں اور چودھری پرویز الہی کے انکشافات کی طرف آتا ہوں جو گھر کے
بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق ہیں۔ لانگ مارچ میں چودھری برادران کے کردار کی انہوں نے ایسی وضاحتیں کیں کہ بازی ہی الٹ گئی۔ انہوں نے مولانا کو فاتح قرار دیا۔ یہ اعتراف بھی کیا کہ نواز شریف کو ریلیف مولانا کے دباؤ کی برکت سے ملی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ مولانا کو کیا ملا تو کہنے لگے کہ وہ سب امانت ہے اور وقت کے ساتھ سامنے ا ٓتا چلا جائے گا۔ اب کیا پتہ کیا کیا سانپ نکلیں گے۔ چودھری پرویز نے عمران ا ور ان کے ساتھوں پر وہ تنقید کی جو ملک کے گھاگ تجزیہ نگار بھی کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ انہوں نے صاف کہا کہ وزیر اعظم بد خواہوں کے نرغے میں ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کے انداز حکمرانی پر خوب خوب نشتر چلائے۔ اور پنجاب حکومت کی بد حالی کی تفصیلات بھی عیاں کر دیں۔ ہر چند انہوں نے کہا کہ وہ اپنے گیارہ ارکان کے ٹولے ساتھ وزارت اعلی کے امید وار نہیں بن سکتے مگر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم چودھری برداران کے رویئے سے اگر شاکی ہوں تو یہ بلا وجہ ہو گی کیونکہ وہ نیک نیتی کے جذبے سے سب کچھ کر رہے ہیں اور حکومت کے اتحادی کی حیثیت سے اس کو اچھے اچھے نیک نیک مشورے ہی دیں گے۔ باتوں باتوں میں وہ تحریک انصاف کے ساتھ فوج کے تعاون کی کہانی بھی بیان کر گئے، کہنے لگے کہ انہوں نے جنرل کیانی سے شکائت کی تھی کہ جنرل پاشا ان کی پارٹی کے بندے توڑ رہے ہیں اور انہیں تحریک انصاف میں شامل کر رہے یں۔ اس پر جنرل کیانی نے کہا کہ وہ پاشا سے کہیں گے کہ آپ بھائیوں کو کھانے پر بلائیں اور آپ کی تسلی کرائیں۔ یہ ملاقات ہوئی تو پاشا نے کہا کہ چودھریوں کے بندے خود ہی تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ اس پر چودھری شجاعت نے موضوع بد ل دیا جس کے دوران پاشا بولے کہ میں آپ دونوں کی ملاقات عمران خان سے کر ا دیتا ہوں۔ اس پر چودھری شجاعت نے قہقہہ لگایاا ور کہا کہ پاشا صاحب آپ نے تو اپنے کردار کا خودہی اعتراف کر لیا۔
یہ ساری داستان اس وقت دہرانے کی بظاہر کوئی وجہ نہ تھی۔ لیکن اس سے فضا میں پھیلے ہوئے شکوک و شبھات کو تقویت ملی کہ فوج وزیر اعظم کے پیچھے ہے اور اس سے سیلیکٹد کی جگت کو بھی جواز مل جاتا ہے۔
چودھری پرویز الہی نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنے محسن جنرل مشرف کو بھی الزامات کی لپیٹ میں لے لیا کہ ودھری شجاعت نے لال مسجد میں ثالث کا کردار ادا کیا تو جنرل مشرف نے الٹا مسجد پر چڑھائی کردی اور لاشیں بکھر گئیں۔ اسی طرح چودھری شجاعت نے بگٹی سے مذاکرات کئے تو جنرل مشرف نے بگٹی کو غار میں مار ڈالا۔
یہ باتیں وہ صاحب کر رہے ہیں جو جنرل مشرف کے اتحادی تھے اورا سے دس بار وردی میں صدر منتخب کروانے کا نعرہ لگاتے تھے۔ اس لئے ان کی باتوں کو سچ مانا جائے گا مگر یہ ساری باتیں پرویز الہی کو اس وقت کیوں یادا ٓئیں جب پہلے ہی سیلکٹڈ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ اور کونسا طعنہ ہے جو عمران خان اور فوج کو نہیں دیا جا رہا۔ اس مکدر فضا میں چودھری پرویز الہی کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں، مولانا کے بیانیے کو۔ نواز شریف کے بیانئے کو اور بلاول بھٹو کے بیانئے کو۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مریم نواز کے بیانئے کو۔
پاکستان کی سیاست میں فوج کے کردار پر ہمیشہ بات ہوتی رہی ہے۔ جس کسی کو اقتدار مل جائے تو وہ خوش اور خوشحال دکھائی دیتا ہے، باقی منہ بنائے پھرتے ہیں۔ بھٹو بھی فیلہڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کا چہیتاوزیر تھا۔ نواز شریف بھی جنرل جیلانی کے نورتنوں میں شامل تھا اور چودھری بردران بھی جنرل مشرف کے گن گاتے تھے۔ اب تحریک انصاف کو بھی برا بھلا کہا جا رہا ہے۔
انہی دنوں وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ایک ملاقات ہوئی ہے جس کی پریس ریلیز تو وہی روایتی ہی تھی کہ سیکورٹی صورت حال پر غور کیا گیا مگر ایک چینل پر میں نے کسی تجزیہ کار کو یہ کہتے سنا کہ اصل میں عمران خان جائزہ لینا چاہتے تھے کہ کہیں دوسری طردف دال میں کچھ کالا تو نہیں۔ تجزیہ کار یہ کہہ تو گئے مگرپھر بار بار کہنتے رہے کہ ان کے پا س کوئی معلومات نہیں، وہ صرف موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر اپنی رائے کااظہار کر ہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیکورٹی کی کوئی ہنگامی صورت حال تو تھی نہیں صرف دو سیاسی مسائل درپیش تھے، ایک لانگ مارچ اور دوسرا نواز شریف کی بیماری۔ اور انہی کے تناظر میں وزیر اعظم شاید دیکھنا چاہتے تھے کہ فوج کہاں کھڑی ہے۔ مجھے تحریک انصاف کے ایک بے چین اور مضطرب لیڈر نے فون کیا کہ آپ ا س ملاقات کی تصویر غور سے دیکھیں اور چہرے پڑ ھنے کی کوشش کریں۔ میں نے پہلا جو اب تو یہی دیا کہ میری تو بصارت کمزور ہے۔ میں کیا اندازہ قائم کر سکتا ہوں مگر میں نے محدب عدسوں سے یہ تصویر دیکھی ہے اور بار بار دیکھی ہے، یہ دونوں آمنے سامنے تو نظر آرہے ہیں مگر وہ پیج نظر نہیں آ رہا جس پر وہ ہمیشہ نظرا ٓیا کرتے تھے،ممکنہ بور پر یہ نتیجہ میری کمزور بینائی کی وجہ سے ہو۔
مگر جو کچھ میرا ذہن پڑھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پرویزا لہی نے مولانا کے لانگ مارچ کو ہر لحاظ سے کامیاب قرار دیا ہے۔ آپ یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ چودھری برادران کی ق لیگ عمران خان کی جماعت کی اتحادی ہے اور وہ پوری کابینہ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے الٹا مشورہ یہ دے رہے ہیں کہ عمران خان کو نواز شریف کی صحت سے نہیں کھیلنا چاہئے ورنہ ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگ جائے گا۔ویسے عمران کی ایک ا ور اتحادی جماعت ایم کیو ایم نے بھی ہر حد پار کر دی بلکہ اتحاد کوپارہ پارہ کر کے رکھ دیا اور وزیر اعظم کو مشورہ دے ڈالا کہ وہ نواازشریف کو باہر جانے دیں۔
تاریخ کیسے بھولے گی کہ بھٹو کی پھانسی پر جنرل ضیا نے جس قلم سے دستخط کئے تھے اسے چودھری ظہور الہی نے سووینیئر کے طور پر مانگ لیا تھا۔ مگر آج چودھری ظہو الہی کا خاندان نواز شریف کا انسانی ہمدرد بنا بیٹھا ہے۔
یہ ایک باریک کام ہے مگرعوام اندھے نہیں ہیں۔ انہیں سب کچھ نظر آ رہا ہے۔
دیکھ تو عمران خان بھی رہے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ وہ اتنے دلیر ضرور ہیں کہ اپنے دونوں اتحادیوں کو سامنے بٹھائیں۔ ان کی آْنکھوں میں آ نکھیں ڈال کر کہیں کہ یو ٹو بروٹس!!!