وزیر اعظم کا خطاب‘بھارت کے دروبام لرزہ بر اندام…اسد اللہ غالب
میں کسی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا۔ اس لئے کہ ادھر وزیر اعظم عمران خان کا خطاب ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ بھارتی میڈیا میں ہا ہا کار مچ گئی۔ کجا وہ ڈینگیں ہانک رہا تھا کہ بحرین اور امارات سے اعلی ترین سول ایوارڈ لے کر بھارت نے پاکستان کومسلم امہ سے تنہا کر دیا اور کجا کہ وہ سر پیٹ رہا تھا کہ اب ایٹمی جنگ کے خطرے سے کیسے بچا جائے۔
بھارت میں پہلے بیانیہ یہ تھا کہ پاکستان کشمیر میں در اندازی کرر ہا ہے اور جب تک یہ ختم نہیں ہو گی کوئی بھی دوطرفہ مسئلہ حل کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھیں گے۔ اب بھارت کا بیانیہ جارحانہ نہیں رہا۔ انہیں دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑ گئی ہے اور وہ مان رہے ہیں کہ اگر بھارت کو آزادی دلوانے والوں کی پارٹی کانگرس کے لیڈر سری نگر نہیں جا سکتے،مقبوضہ کشمیر سے راجیہ سبھا کے رکن غلام نبی آزاد بھی سری نگر نہیں جا سکتے اور ان کے قافلوں کو سری نگر ایئر پورٹ سے باہر بھی جھانکنے کی ا جازت نہیں دی گئی بلکہ جہاز میں بٹھا کر اسی طرح واپس دہلی روانہ کر دیا گیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کشمیر کے حالات بھارت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ کرفیو کی پابندیوں کو کم و بیش بیس روز ہو چکے مگر وادی کشمیر ایک جیل خانے کا منظر پیش کر رہی ہے اور اس میں قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ بھارتی میڈیا پر بولنے والے تجزیہ کار صاف کہتے ہیں کہ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کی در اندازی کا خطرہ ہے اس لئے کرفیو نافذ ہے کیونکہ کرفیو سے تو کشمیر کے لوگوں کو گھروں میں بند کیا گیا ہے ا ور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کشمیر کی پوری آبادی پاکستان کے دراندازوں پر مشتمل ہو، اگر یہ لوگ سبھی کے سبھی در انداز ہیں تو پھر پچاس لاکھ کشمیری باشندے کہاں ہیں۔ کیا بھارت نے ان کو گھروں میں سوتے ہوئے بلڈوز کر دیا ہے۔ اگر ایساکیا ہے یا کرنے کا اارادہ ہے تو پھر عمران خاں کے یہ اندیشے درست ہیں کہ بھارت کشمیر میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے یا ایسے مذموم ارادے رکھتا ہے۔ یہی ہے وہ نکتہ جس نے بھارت کو بیک فٹ پر دال دیا ہے اور وہ اپنے پروپیگنڈے کی ساری چوکڑی بھول گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران نے واضح کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو اور عالمی راہنماؤں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں باور کرا رہے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نسل کشی پر آما دہ ہیں اور وہ آ ر ایس ایس‘جن سنگھ اور مہا بھارت کے خون آشام فلسفے پار کاربند ہیں اور بھارت میں سوائے ہندو قوم کے اور کسی کا وجود گورا نہیں اور وہ پہلے مرحلے میں فلسطینی مسلمانوں کی طرح کشمیری مسلمانوں کو چن چن کر شہید کرنا چاہتا ہے اور اگلے مرحلے میں وہ ہندواتا کے نظریئے کے تحت بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں اقلیتوں کا خون بہانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم کے ا س نکتے نے بھارت ہی نہیں پوری دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور اقوام عالم سے صاف کہا کہ اگر وہ خاموش تماشائی رہیں اور مودی پرواری واری جاتے رہے، اس کے گلے میں اعلیٰ ترین سول ا یوارڈ پہناتے رہے تو یاد رکھئے کہ جو جنگ ہو گی اس سے پاکستان اور بھارت ہی نہیں۔ پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کچھ کہہ رہے ہیں۔ اس کا کچھ کچھ اثر امریکی صدر ٹرمپ پر تو مرتب ہوا ہے اور اب وہ ہر چوبیس گھنٹے بعد یا تو مودی سے بات کرتا ہے یا عمران خان سے مگر ابھی تو ستمبر کے آخری دنوں میں وزیر اعظم عمران خاں نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا ہے، ان کی تقریر سننے کا انتظار ہر بڑے عالمی راہنما کو ہے۔ اسی جنرل اسمبلی میں ایک تقریر یاسر عرفات نے بھی کی تھی اور دنیا کو ا سکی تقریر کا بھی انتظار تھا،یاسر عرفات نے اقوام عالم کے راہنماؤں سے کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں شاخ زیتون ہے جو امن کا پیغام دیتی ہے اور اگر اس ہاتھ کو جھٹک دیا گیا تو پھر یاسرعرفات اپنا دوسرا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور اپنی کلاشنکوف لہراتے ہوئے کہا پھر فیصلہ اس سے ہو گا۔ شاید اسرائیل اور امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے یاسر عرفات کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے فلسطین کامسئلہ حل کر لیا ہے مگر امریکہ ا ور پوری دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کے بعد سے دو عشرے گزر گئے‘ دنیا جہنم میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ کبھی لیبیا میں، کبھی سوڈان میں،کبھی یمن میں، کبھی عراق میں، کبھی افغانستان میں اور کبھی شام میں ٹکراؤ ہوتا ہے اور خون کے دریا بہتے ہیں اور یہ سلسلہ ایسا ہے کہ بند ہونے میں نہیں آتا۔ اور اگر کشمیری اور بھارتی مسلمانوں کو بھی دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی تو صرف بر صغیر کے پچاس کروڑ لوگ گلی گلی محلے محلے قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہوں گے اور بغیر کسی ایٹم بم کے اس خطے کا امن تہہ و بالا ہو جائے گا اور اگر بھارت نے پاکستان سے چھیڑ چھاڑ کی تو پھر وزیر اعظم عمران خاں نے دو باتیں کی ہیں کہ ایک تو ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں دوسرے ہمارا ہیرو سلطان ٹیپو ہے اور تیسری بات جو بین السطور میں وہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے کئی ارب انسان ایٹمی بھٹی میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ مگر عمران خان نے اپیل کی ہے کہ آیئے پہلے امن کو آزما لیتے ہیں تاکہ انسانیت ایک مہیب تباہی سے بچ سکے۔
آپ بھی بھارتی ٹی وی دیکھیں‘ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں، بھارت کے اخبارات دیکھیں یہ بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور ا ٓپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ بھارت کے در و دیوار کس طرح لرزہ بر اندام ہیں۔
میں عمران خان کا بھونپو نہیں لیکن پاکستان کا بھونپو ضرور ہوں۔ہمارے میڈیا پر کچھ نادان مگر بزعم خویش تجربہ کار دانش ور بات بات کے ساتھ طعنہ دیتے ہیں کہ عمران خان کب ٹیپو بننے کا مظاہرہ کر ے گا۔ پہلے تو میں یہ بتا دوں کہ یہ بڑا بول بولنے والے در حقیقت غبارے کی طرح پھولے ہوئے دانش ور عقل کے بونے اور اندھے ہیں۔ عمران خان کبھی جنگ نہیں چھیڑے گا۔ نہ سلطان ٹیپو نے جنگ میں پہل کی تھی۔ یہ بھی اجان لیجئے کہ پاکستان نے حملے مین پہل کرنی ہو گی تو اس کا فیصلہ ضرور عمران خان ہی کو کرناہے لیکن جنگ کے اصولوں کے پیش نظر یاد رکھئے کہ جب بارڈر پر اگلے مورچے میں پہرہ دینے والا سپاہی دشمن کی فائرنگ کہ آ واز بھی سنتا ہے تو جوابی فائر کے لے اسے عمران خان کے احکامات کی قطعی ضروت نہیں، دنیا بھر کے ملسمہ قوانین اسے ذاتی حفاظت کے لئے ہر اقدام کی اجازت دیتے ہیں ا سلئے جان لیجئے کہ بھارتی جارحانہ حملے کے جوااب مین پاکستان کا خود کار دفاعی نطام حرکت مین آئے گا اور میں سمجھ سکتا ہوں کہ پہلا طویل مار کامیزائیل اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کی اینٹ سے اینٹ بجائے گا اور باقی دفاعی مزائیل بھارت کے شہروں کو ایک ایک کر کے نشانے پر لے چکے ہیں اور کوئی انسان ان کا بٹن نہیں دبائے گا بلکہ ایک خود کار کمپیوٹر ان کے بٹن دبائے گا۔
شیخ رشید نھی کہہ رہے ہیں کہ جنگ کی صورت میں بھارت صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے گا اور وزیر اعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ بھارتی جارحیت سے پوری دنیا کا امن تہس نہس ہو جائے گا۔
وزیر اعظم نے لاؤڈ اینڈ کلیئر پیغام دیا ہے کہ دنیا ساتھ دے یا نہ دے۔ پاکستان کشمیر کے لئے آخری حد تک جائے گا۔ سو وہ لوگ جو عمران خان کو طعنوں پر طعنے دئیے رہیں کہ اس نے پاکستان کو تنہا کر دیا۔ تو عمران کا جواب ہے کہ اسے اسے ا س تنہائی کی کوئی بروا نہیں۔اگر مسلم امہ پاکستان کے ساتھ نہیں ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا ہمارے میزائل عربوں کے پاس ہیں، کیا ہمارے ایٹم بموں کا ذخیر ہ کسی عرب ریگستان میں کیا گیا ہے۔ خدا نہ کرے ان عرب ملکوں پر کوئی برا وقت آئے۔ مگر پاکستان کے سوا ن کی کوئی مدد نہیں کرے گا، آج بھی متحدہ عرب افوج کی قیادت ایک پاکستانی جرنیل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ عربوں کی عزت افزائی میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، شہزادہ محمد بن سلمان کی کار خود ہمارے وزیرا عظم نے ڈارئیو کی۔ ہم نے ان کے رستے میں ریڈ کارپٹ کی بجائے اپنی پلکیں بچھائیں اس لئے کہ ان کے پاس تیل کی دولت ہے اور ڈالر ہیں مگر عرب بھی جان لیں کہ پاکستان کوئی مفلس کی کٹیا نہیں، یہ میزائیلوں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک ہے اور اسے اپنے دفاع کے لئے کسی کی حمایت اور لفاظی ہمدردی کی ضرورت نہیں،۔ اگریہ ممالک بھارت کے ساتھ وسیع پیمانے پر تجارت چاہتے ہیں اوراس کی وسیع منڈیوں سے منافع کمانا چاہتے ہی تو پھر انہیں بھارت اور اپنی خیر خواہی کے لئے بھارت کوسمجھانا ہو گا کہ وہ خطے کے امن کو داؤ پر نہ لگائے۔ ظاہر ہے ایک خاکستتر بھارت سے ستر ارب ڈالر کیا منافع کماپائیں گے۔ یہاں تو راکھ کا ایک ڈھیر ہو گا۔
میں کسی جنگی جنون میں مبتلا نہیں، نہ پاکستان جنگ چاہتا ہے، نہ وزیرا عظم نے بھارت پر حملے میں پہل کا اشارہ دیا ہے۔ یہ دھمکی تو بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے دی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ساتھ کئے گئے پہل نہ کرنے کے معاہدے کو ختم کر سکتے ہیں اور پاکستان کے خلاف فرسٹ اسٹرائیک کا حق استعمال کر سکتے ہیں۔ سنگھ آخر سنگھ ہی ہوتا ہے۔ اسے علم ہی نہیں کہ فرسٹ اسٹرائیک کا مطلب کیا ہے ا ورا سے یہ بھی پتہ نہیں کہ بھارت میں سیکنڈ اسٹرائیک کی اہلیت نہیں لیکن پاکستان پہلی اسٹرائیک کا وار سہہ کر بھی اس قابل ہوگا کہ سیکنڈ اسٹرائیک کر سکے اور یقین جانئے اور کوئی اس سنگھ صاحب کو بتائے کہ پھر برصغیر ہی نہیں‘ دنیا کے ایک وسیع رقبے پر گھاس تک باقی نہیں بچے گی