وزیر اعظم کا ڈیم منصوبہ، ملک کی اشد ضرورت…اسد اللہ غالب
وزیر اعظم نے آخر ایک بڑا اعلان کر دیا اور میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ برمنگھم کے اقبال چیمہ کا دل جیت بھی لیا۔ لاہور کے برکت علی لونا کا دل جیت لیا۔ ڈیموں کے یہ ماہرین کئی برسوں سے یہ تگ دو کر رہے ہیں کہ پاکستان کو نئے ڈیم کی ضرورت ہے، زور تو ان کا کالا باغ ڈیم پر تھا اور میں بھی مانتا ہوں کہ جس شخص کا نام عمران خان ہے، وہ اگر تہیہ کرلے کہ پہلے کالا باغ ڈیم بنے گا تو وہ اس ناممکن کام کو ممکن کر دکھائے گا، وہ تو ایک فائٹر ہونے کی شہرت رکھتا ہے، وہ ایک مقصد کی خاطر بائیس برس سے جدوجہد کر رہے تھے۔ جدوجہد اور جہاد کا مطلب ایک ہی ہے، پہلے انہوں نے بائیس برس ورلڈ کپ کے لئے جہاد کیا، اس مقصد میں کامیاب ٹھہرے، پھرکینسر ہسپتال کا بیڑہ اٹھایا اور وہ بھی کر کے دکھا دیا، ایک نہیں دو بلکہ کراچی میں تیسرا۔ مگر انہوں نے بھاشہ کا ارادہ کیوں کیا۔ اس لئے کہ ان کے مشیر اچھے نہیں ہیں۔ اگر کوئی انہیں ایک نکتہ بتا دیتا کہ کالا باغ ڈیم پانچ سال کے عرصے میں یعنی ان کی ٹرم کے اندر مکمل ہو سکتا ہے تو وہ پہلے اسی منصوبے میں ہاتھ ڈالتے اور ان لوگوں سے دو دو ہاتھ کرتے جو اس منصوبے کے خلاف ہیں۔ ان لوگوں نے جنرل ضیاءالحق جیسے آمر مطلق کو کالا باغ ڈیم نہیں بنانے دیا۔ اس کے ہی ایک گورنر فضل حق نے اس کی مخالفت میں طوفان کھڑا کیا، نواز شریف کلنٹن کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائے۔ ایٹمی دھماکے کئے اور ملکوں ملکوں ان کی دھوم مچ گئی، انہوں نے اسی شام تقریر کی کہ وہ کالا باغ ڈیم بنائیں گے مگر وہ اس ارادے کی تکمیل نہ کر سکے، ان سے کوئی پوچھے کہ ان کے ارادے کو کس نے بدلا، وہ پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا مگر قوم کو پہلے یہ تو بتائیں کہ تقریر کرنے کے باوجود اور پارلیمنٹ میں دو تہائی قاتلانہ اکثریت رکھنے کے باوجود اور ایک صدر اور ایک چیف جسٹس کا گھونٹ بھرنے کے باوجود کالا باغ ڈیم بنانے کے لئے ان کی طاقت کس نے سلب کی۔ ان کے بعد جنرل مشرف جیسا منہ زور فوجی آمر اور کوئی نہ تھا، اس نے کسی سے مشورہ کئے بغیر ملک کو امریکی جنگ میں دھکیل دیا مگر اس نے کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کیا جو سبز باغ دکھانے کی شکل اختیار کر گیا۔ ایک فوجی اور کمانڈوآمر مطلق کالا باغ ڈیم کے مخالفین کے سامنے کیوں بھیڑ بن گیا۔ وزیر اعظم عمران خان تو کشتیاں جلا کر اقتدار میں آئے ہیں۔ انہیں مفاد اور مصلحت سے کیا لینا دینا۔ وہ اب بھی کالاباغ ڈیم کی اینٹ رکھ دیں تو انہیں بڑی سے بڑی طاقت خوف زدہ نہیں کر سکتی، عمران خان کے اٹل ارادوں کی صلاحیت کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں کس نے بھاشہ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا، یہ ڈیم دس سے بارہ سال میں بنے گا، بھارت اور امریکہ اس ڈیم کے اسی طرح مخالف ہیں جس طرح وہ حافظ سعید کے مخالف ہیں اور ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان پر پابندیاںلگائیں۔ بھاشہ ڈیم تو گلگت بلتستان کے علاقے میں بنے گا، بھارت اسے کشمیر کا حصہ مانتا ہے اور آزاد کشمیر کے ایک سابق چیف جسٹس اسے اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں اور مودی کہتا ہے کہ وہ آزاد کشمیر کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے گا جس طرح بھارت نے بنگلہ دیشی عوام کو ان کے حقوق دلوائے تھے، بھاشہ کی لوکیشن کے اسی تنازعے کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے حامی بھرنے کے باوجود اب اس کے لئے پیسے دینے سے انکاری ہیں، چلئے رقم ہم خود اکٹھی کر لیتے ہیں مگر بھارت اور امریکہ کو کیسے رام کیا جائے گا، اگر اسکے لئے جنگ کرنا پڑی تو میں عمران خان کے شانہ نشانہ لڑوں گا اور ساری قوم بھاشہ ڈیم کی لوکیشن کے لےے گردنیں کٹوانے کو تیار ہو سکتی ہے۔ میری رائے ہے کہ عمران اس مشکل کام پر زبان تو کھولیں اورقوم کو اعتماد میں لیں کہ پیسے اکٹھے کر لینے کے باوجود اس جھگڑے سے کیسے بچیں گے۔
اب میں آتا ہوں فنڈ ریزنگ کی طرف، میں نے بار بار لکھا تھا کہ چیف جسٹس نے فنڈ قائم کر کے سوئی ہوئی قوم کو جگا دیا ہے مگر ڈیم کبھی فنڈ ریزنگ سے نہیں بن سکتے، اکیلے بھاشہ ڈیم کے لئے ہمیں بیس کھرب روپے درکار ہوں گے، تادم تحریر فنڈ میں دو ارب اکٹھے ہوئے ہیں اور یہ مجموعی رقم کا محض ایک فیصد حصہ ہے، ہمیںمزید ننانوے فی صد پیسہ اکٹھے کرنا ہے۔ مگر میں مایوس نہیں، میں جانتا ہوں کہ چیف جسٹس کی اپیل میں بھی اثر تھا اور لوگوںنے عمران کی اپیل کا بھی فراخدلی سے جواب دیا ہے۔ اس فنڈ ریزنگ کے کے لئے کچھ غیر روایتی طریقے استعمال کرنا ہوں گے، عمران کے سامنے اس وقت دو بڑے کام ہیں ایک احتساب اور دوسرا ڈیم، وہ اسے ایک ہی کام بنا لیں اور جن کا احتساب کیا جارہا ہے ان سے کہا جائے کہ وہ لوٹی ہوئی نصف رقم خود رکھ لیں، نصف ڈیم کے لئے عطیہ کر دیں، عمران اسکے لئے ایک دن اڈیالہ جائیں، نواز شریف سے کہیں کہ یہ ملک آپ کا بھی ہے، میرا بھی ہے اور سب پاکستانیوں کا ہے، آئیے مل جل کر اس کی تعمیر نو کرتے ہیں، یہی بات وہ زرداری سے کہیں، یہی بات جہانگیر ترین سے کہیں اور ہر اس پاکستانی سے کہیں جس کے بارے یقین ہو کہ اس نے بھاری لوٹ مار کی ہے، اس ملک میں ایک نہیں درجنوں ایمنسٹی سکیمیں آئی ہیں۔ ایک ایمنسٹی سکیم ڈیموں کے لئے سہی۔ چند دن میں سٹیٹ بنک کا اکاﺅنٹ لبا لب بھر جائے گا اور ملک سے سیاسی محاذ آرائی اور رسہ کشی کا خاتمہ بھی ہو جائے گا، نواز شریف لندن جائیں ، بیمار اہلیہ کے سرہانے بیٹھیں، زرداری سرے محل میں مزے لوٹیں، بس آدھی لوٹی ہوئی رقم پاکستان کو عطیہ کر دیں۔
میں نے کوئی انہونی تجویز نہیں دے دی، یہ آسان سا فارمولہ ہے اور چٹکی بجانے میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ورنہ مجھے اس تجویز سے کوئی خار نہیں کہ اوورسیز پاکستانی کم از کم ایک ہزار ڈالر عطیہ کریں، میں نے ایک وڈیو دیکھی ہے جس میں کوئی صاحب کہہ رہے ہیں کہ میرا نام خالد ملک ہے۔ میں کینیڈا کا شہری ہوں اور عمران کے لئے میرا مشورہ ہے کہ چھوٹی باتوں میں نہ الجھے کہ ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کروں گا، وزیراعظم ہاﺅس میں نہیں رہوں گا۔ اس سے ملک کے گھمبیر مسئلے حل نہیں ہوں گے، خالد ملک کہتے ہیں کہ میں عمران کے لئے نیا ہیلی کاپٹر بھجوائے دیتا ہوں، اس کے اخراجات بھی میرے ذمے رہے مگر وزیر اعظم ملکی مسائل کی طرف یکسوئی سے توجہ دیں۔ اوورسیز پاکستانیوں نے محنت کی ہے۔ اللہ نے ان پر بہت انعام کیا ہے اور اگر کوئی انہیں امید دلائے جیسا کہ عمران سے انہیں بہت سی امیدیں ہیں تو پاکستان کو قرضوں کے لئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں۔ امریکہ نے جنوری سے سپورٹ فنڈ کابل نہیںدیا، اب دوسرا بل بھی دینے سے انکار کر دیا ہے توکوئی پاکستانی بھوک سے نہیں مرا، کسی گھر میں اندھیرا نہیں چھایا۔
عمران خان نے قوم کی نبض پہ ہاتھ رکھا ہے۔ وہ بھاشہ بنائیں ، اس کے لئے قوم انہیں دوسری ٹرم بھی دے مگر بھاشہ سے خیبر پی کے کو پانی نہیں ملے گا، صرف بجلی ملے گی جبکہ کالا باغ ڈیم سے ملک کے چاروں صوبوں کو پانی بھی ملے گا اور بجلی بھی اور پاکستان بھارت کی اس دھمکی سے بچ جائے گاکہ بوند بوند کو ترسے گا پاکستان، پیاس سے مرے گا پاکستان، قبرستان بنے گا پاکستان۔ بھارت کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کومیڈ ان پاکستان لیڈر شپ مل گئی ہے۔ اب وہ اس ملک کا بال تک بیکا نہیں کرسکتا اور عمران خان کے ساتھ فوج نے جس یک جہتی اور ایک صفحے پر ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ کرے اسے نظر بد نہ لگے، پاکستان پہلے ہی ایٹمی طاقت ہے ،ا ب اسے فولادی قیادت بھی نصیب ہو گئی ہے۔ اس سے جو بھی ٹکرائے گا، پاش پاش ہو جائے گا۔
میں نے عمران خان کی حد سے بڑھ کر تعریفیں کر دی ہیں وہ جس دن بھاشہ کی پہلی اینٹ رکھیں گے تو میںان کا زندہ جاوید شاہنامہ لکھوں گا۔ ہو سکے تو وہ لاہور سے چھیاسی سالہ واٹر انجینئر میاں برکت علی لونا سے مشاورت کریں۔ گیارہ ستمبر کو برمنگھم سے انجینئر اقبال چیمہ بھی آرہے ہیں، ان کا فون نمبر مجھ سے لے لیں اور ان کو اپنے پاس بلائیں۔ یہ ہیں وہ نابغہ روزگار جو برسہا برس سے ڈیموں کی تعمیر پر زور دے رہے ہیں، ان سے بریفنگ لے لے کر میں نے صرف پچھلے ایک سال میں درجن بھر کالم اسی موضوع پر تحریر کئے ہیں۔ عمران کے اعلان میں ہمیں اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آئی ہے۔