خبرنامہ

وزیر اعظم کی تقریر اور حالات کی تصویر….اسد اللہ غالب

وزیر اعظم کی تقریر اور حالات کی تصویر….اسد اللہ غالب

بدھ کے روز سنسر شپ کی کیفیت تھی اور لوگوں کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے مگر جب شام کو وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں وہ سب کچھ بتا دیا جوسارا دن میڈیا کو بتانے سے روکا گیا تھا تو مجھے بھی ایک جواز مل گیا ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر کے اندر جو نکات شامل ہیں۔،ان پر بات کر سکوں کیونکہ یہ نکات اب پبلک پراپرٹی بن گئے ہیں اور ان پر بات کرنے پر امبارگو عائد نہیں کیا جا سکتا۔
وزیر اعظم نشری خطاب نہ کرتے تو مجھ سمیت کسی کو علم نہ ہوتا کہ کسی مٹھی بھر گروہ نے پورے پاکستا ن کو جکڑ رکھا ہے اور سپریم کورٹ کے تین ججوں کے قتل اور آرمی چیف کو کافر قرار دے کر سینیئر جرنیلوں کو بغاوت پر اکسایا ہے۔( میں یہ الفاظ نقل کرتے ہوئے شدید احساس جرم میں مبتلاہوں کہ ایک فتنے کی تشہیر کا مرتکب ہو رہا ہوں)
میرے خیال میں اگر کسی نے یہ دھمکیاں دی بھی تھیں اور وہ لوگ محض مٹھی بھرتھے تو وزیر اعظم کو وہ کچھ اپنی زبان پر نہیں لانا چاہئے تھا جو سارا دن پاکستان اور دنیا کے عوام کومعلوم نہ ہو سکا تھا۔ وزیر اعظم ضرور بولتے مگر اس وقت جب ان مٹھی بھر لوگوں پر قابو پالیتے۔ اس سے عوم کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع ملتا مگر اب تو وزیر اعظم کی باتیں سن کر ہر ایک کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ پتہ یہ چلا کہ مٹھی بھر لوگ وہ تھے جنہوں نے ہفتوں تک فیض آباد پر دھرنے سے کاروبار حکومت معطل کئے رکھا تھا اور بالآخر رینجرز کے ایک اعلی افسر کی معاونت یا ثالثی سے یہ مسۂ یوں طے پایا کہ مٹھی بھر لوگوں کے تمام مطالبے تسلیم کر لئے گئے۔ وزیر قانون کو استعفی دینا پڑ گیا ۔ وغرہ وغیرہ۔ یہ تفصیلات دلدوز ہیں۔ اس قضیئے میں فوج کو بھی رگیدا گیا کہ وہ ان کے پیچھے تھی اور با امر مجبوری آرمی چیف جنرل باجوہ کو کہنا پڑا کہ اگر کوئی ان کی مداخلت کو ثابت کر دے تو وہ گھر چلے جائیں گے۔ ہم لوگ بڑے سنگدل اور سگ دل واقع ہوئے ہیں کہ الزامات لگاتے وقت کچھ سوچتے تک نہیں۔
چلئے جی فیض آباد دھرنے میں ثالثی ہو گئی خواہ کسی بھی قیمت اور شرط پر مگر اب تو مٹھی بھر لوگوں نے عدلیہ اور آرمی چیف کواکٹھے مطعون کر دیا ہے ، اب ثالثی کروانے والا کوئی بھی تو نہیں۔ وزیر اعظم نے تو کہہ دیا کہ وہ ریاست سے ٹکرانے والوں سے سختی سے نبٹیں گے۔ اور اب مسئلے کے حل کا یہی ایک راستہ باقی بچا ہے۔
جہاں تک توہین رسالت ﷺ کا مئلہ ہے تو یہ تاریخی طور پر نازک اور حساس رہا ہے۔ غازی علم الدین شہیدتو ایک مثال ہیں مگر فتح مکہ کے روز جب عام معافی کا اعلان ہو گیا تھا تو اس روز بھی توہین رسالت ﷺ کے جرم میں ملوث چند افرادکے بارے میں حضور ﷺ نے خود حکم دیا تھا کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں۔
وزیر عظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے ہالینڈ میں توہین کی ایک ممکنہ کوشش کو ناکام بنایااوراسلامی کانفرنس کو بھی ساتھ ملایا۔ اور ہالینڈ کے وزیر خارجہ سے بھی بات کی۔ وزیر اعظم کے ان دلائل سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم دنیاکنے عوامی دباؤ کے ذریعے ہالینڈ کے سیاستدان کو توہین سے باز رکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ بلکہ میں ایک فیکٹر کی اور نشاندہی کروں گا کہ عالمی میڈیاکے مطابق کسی مسلمان نے ہالینڈ کے سیاستدان کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مسئلہ کسی عدالت نے طے نہیں کیا۔ وزیراعظم نے ایک مقدمے کا حوالہ دیا کہ اب تو یورپی عدالت بھی توہیں مذہب کی اجازت نہیں دیتی اور ایک اپیل کنندہ خاتون کی اپیل پر ا سکی سزا برقرار رکھی ہے۔ اس دلیل کی رو سے تو ہمیں بھی ہالینڈ کے سیاست دان کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کر کے فیصلہ لینا چایئے تھا۔ مگر ہم نے عوامی دباؤ کاآپشن ا ستعمال کیا۔ میں یہاں یہ بھی بتا تا چلوں کی جب ناروے کے ایک ا خبار نے گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے تو مسلم دنیا ایسا دباؤ نہیں ڈال سکی تھی کہ اخبار یہ ملعون حرکت نہ کرتا۔ ہماری کمزوری اس حد تک تھی کہ خاکے دنیا کے بیسیوں دیگر اخبارات نے بھی چھاپے اور ہم کچھ نہ کر سکے ۔ پھر ایک فرانسیسی جریدے نے بھی یہی حرکت کی اور ہم عوامی دباؤ کے ذریعے اسے باز نہ رکھ سکے حتی کہ کسی شخص یا گروہ کو اس میگزین کے دفتر پر دھاوا بولنا پڑا۔ اس سے پہلے امریکہ کے ایک پادری نے قرآن پاک جلانے کاا علان کیا تو ساری دنیا کے مسلمان اس کا راستہ نہ روک سکے تھے۔
میں اپنی بحث کو علمی حد تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔عوامی رد عمل کا تعلق محض مذہبی جذبات سے نہیں اور یہ رد عمل صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں۔ امریکی صدر کنیڈیکو گولی ماری گئی تو کسی کو اس سے ذاتی پرخاش ہو گی۔اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا تو ا سکے محافظوں نے گولی ماری ۔ وہ دربار صاحب امرتسر پر اندرا کی یلغار کی وجہ سے نالاں تھے۔ شیخ مجیب کو اس کے گھر میں ایک نوجوان فوجی افسر نے سیڑھیوں پر قتل کیا حالانکہ شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو مانا جاتا تھا۔ مصرکے صدر انوار السا دات فوجی پریڈ کی سلامی لے رہے تھے کہ ایک ٹینک سوار نے پوری مشین گن ان کے جسم پر خالی کر دی تھی۔
اسلام ہی کو مطعون کرنے والوں کو میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ایک جید صحابی ؓ نے کسی کافر کو اس حالت میں قتل کر دیا کہ وہ کلمہ پڑھ چکا تھا۔ یہ مسئلہ حضور ﷺ کی عدالت میں پیش ہوا تو آپ نے سختی سے سوال کیا کہ یہ تم نے کیا کیا۔ صحابیؓ نے جواب دیا کہ ا س نے قتل کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ ﷺ نے پھر سختی سے پوچھا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ محض موت سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھ رہا ہے یا سچے دل سے ایمان لے آیا ہے۔ حضرت علیؓ نے ایک کافرکو میدان جنگ میں چت کر دیا تو گرنے والے نے آپ کے منہ پر تھوک دیا۔ اس پر آپ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اب میں تمہیں قتل کر دیتا تو خدا مجھ سے پوچھتا کہ تم نے محض منہ پر تھو کنے کا بدلہ اتارا۔
اسلام کی تعلیمات بڑی واضح ہیں۔ میں عالم فاضل نہیں کہ ان کا حاطہ کر سکوں لیکن ہمیں ان مسائل پر سیاست نہیں کرنی چاہئے ۔ اہل مغرب اس مسئلے پر سیاست کرتے ہیں مگر اب ایک یورپی عدالت کے فیصلے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنی سیات ترک کر دیں گے۔اور ہمیں بھی اس مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے اور اس کے لئے اسی افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے جس کا مظاہرہ فیض آباد دھرنے مین انہی لوگوں کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ کل ہم نے ان کے خلاف طاقت استعمال نہیں کی تو اب بھی دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ ہم ریاستی طاقت کو اس مسئلے کے حل میں نہ جھونکیں۔مذہبی مسئلہ سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے۔ ریاست نے دیکھ لیا کہ ا س نے مولانا مووودی کوپھانسی کی سزا سنائی توا س پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔ ہمیں تو سیاسی مسائل کو بھی افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہئے۔انتقام کی سیاست
ایوب خان کے دور سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ اس نے ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیاا ور پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے دنیا سے امداد اور قرضے مانگتے پھرتے ہیں۔ وزیر اعظم اسی مقصد کے لئے چین جا رہے ہیں ۔ اس سفر کی کامیابی کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ ملک میں سکون ہو۔ بد امنی نہ ہو۔ ہماری افواج نے قربانیاں دے کر دہشت گردی پر قابو پایا۔ اب کسی نئے فتنے کو ہوا دینے کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے ۔