خبرنامہ

پارلیمانی عمل میں ایک خوشگوار پیش رفت…اسد اللہ غالب

امریکی دباؤ پر ’’ویزا

پارلیمانی عمل میں ایک خوشگوار پیش رفت…اسد اللہ غالب

حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بتایا گیا ہے کہ حکومت پبلک اکائونٹس کمیٹی کے لئے اپوزیشن کی شرط تسلیم کرنے کو تیار ہے ۔ اور اس ضمن میں اس نے شہباز شریف پر اپنے تحفظات واپس لے لئے ہیں۔

یہ ایک خوشگوار پیش رفت ہے جس کی بنا پر پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے باہمی تعلقات میںبھی بہتری پیدا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لئے اپنی چاہت کاا ظہار تو کرتی ہیں مگر عملی طور پر جمہوریت کی کامیابی کے لئے ان کی کارکردگی قایل رشک نہیں۔ کوئی بڑی سیاسی پارٹی باقاعدگی سے اپنے اندر انتخابات نہیں کرواتی۔ حقیقی طور پر پارٹی الیکشن صرف جماعت اسلامی میں دیکھا جاسکتا ہے یا پی ٹی آئی نے اس ضمن میں مثبت قدم اٹھایا ہے مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی ا ور دیگر چھوٹی بڑی سیاسی یا مذہبی پارٹیوں میں شخصی راج ہے یا خاندان کی حاکمیت ہے،پپپلز پارٹی بھٹو کے نام سے باہر نہیں نکل سکی اور ن لیگ شریف خاندان سے باہر کسی کو پارٹی لیڈر شپ دینے کو تیار نہیں۔

ملک میں الیکشن توہوتے ہیں مگر ہر جیتنے اور ہارنے والی پارٹی الیکشن دھاندلی کی شکایت کرتی ہے۔ ہر حکومت اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بناتی ہے اور ا س کے لئے احتساب کی آڑ لی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب اگر جینوئن احتساب ہو رہا ہے تو اپوزیشن نے انتقام انتقام کا شور مچا دیا ہے۔

حالیہ الیکشن کے بعد پارلیمانی عمل شروع توہوا مگر پچھلے تین ماہ میں ایوان مچھلی منڈی بنے ہوئے ہیں۔ہائوس کمیٹیاں نہیںبنیں ۔نہ کسی قانون سازی پر توجہ دی جا سکی۔تجزیہ کار کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کا بحران در اصل پبلک اکائونٹس کمیٹی کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ پی ٹی آئی کو اس روائت پر عمل کرنے میں تردد یہ تھا کہ ایک ایسے شخص کو کس طرح اس کمیٹی کا چیئر مین بنایا جاسکتا ہے جو خود احتساب کی زد میں ہے اور نیب اور اعلی عدلیہ میں اس کے خلاف متعدد مقدمات چل رہے ہیں، یہ اعتراض بڑی حد تک بجا تھا مگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی تہیہ کر رکھا تھا کہ اس کمیٹی کی صدارت کاحق شہباز شریف کا ہی ہے ۔ اب اپوزیشن کی اس ضد کے پیش نظر حکومت نے شہباز شریف کو پی اے سی کا سربراہ بنانے کی منظوری دے دی ہے مگر ساتھ ہی شرط یہ رکھی ہے کہ جب کوئی معاملہ ن لیگ کے دور کا سامنے آیا تو ایک سب کمیٹی اس کا احتساب کرے گی جس کے سربراہ پی ٹی آئی کے کوئی رکن اسمبلی ہوں گے۔ حکومت نے اپوزیشن کی بات تومان لی مگر یہ تجربہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں ہو گا کہ نیب اور عدلیہ کے سامنے ملزم کے طور پر پیش ہونے والا شخص حکومت کااحتساب کر رہا ہو، بہر حال حکومت کی مجبوری تھی کہ اسے پارلیمانی عمل کو آگے بڑھانا تھا جو سودنوں سے تعطل کا شکار تھاا ور ایوان میں صرف ایک دوسرے پر جملے کسے جاتے تھے یا واک آئوٹ کیا جاتا تھا۔

پاکستان میں پارلیمانی عمل اور حکومت اپوزیشن تعلقات کار کی روایات قابل فخر نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب معاندانہ روائت کاا ٓغاز کیا۔ ایک تو وزیر اعظم محترمہ بے نظیر لاہور آئیں تو وہ شہر چھوڑ گئے تاکہ وزیر اعظم کا استقبال نہ کریں دوسرے انہوںنے اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ کے طور پر اپنے آپ کو متبادل وزیر اعظم کہلوانا شروع کر دیا تھا۔محترمہ بے نظیر بھی پیچھے نہ رہیں ، انہوںنے شریف فیملی میں اختلافات کا فائدہ ا ٹھاتے ہوئے ماڈل ٹائون میں نواز شریف کے مخالف رشتے داروں کی ضیافت کھائی۔ دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم کا آغاز کیا۔ دونوںنے ہار س ٹریڈنگ کی رسم بد کو بھی اپنایا۔کوئی اپنے گھوڑے چھانگا مانگا لے گیا اور کوئی مالم جبہ ۔ ایوان میں اس وقت سخت ہلا گلا کیا جاتا جب حکمران پارٹی کا وزیر خزانہ بجٹ پیش کرتا۔ پھر ایک دوسرے کے خلاف مقدمے بنائے گئے۔ جناب زرداری کی گرفتاری تو نگران دور میں عمل میں آئی مگر نواز شریف کے احتساب کمیشن کے سربراہ سیف الرحمن نے انہیںمتواتر جیل میں رکھا۔مشرف دور میں دونوں پاٹیوں کو احساس ہوا کہ باہمی لڑائی سے وہ اپنا ہی نقصان کر رہی ہیں تو چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کئے گئے اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی سے گریز کا اعلان کیا گیا۔ مشرف کے جانے کے بعدزرداری اور نواز شریف کے دورحکومت میں دونوں نے ایک دوسرے سے بڑی حد تک تعاون کیا جس کی وجہ سے دونوں حکومتوں نے آئینی ٹرم مکمل کی۔مگر باہمی محاذ آرائی سے مکمل گریز نہ کیا گیا۔ ایک مقدمے میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ اس سے دونوں کی راہیں ا یک بار پھر جد ا ہو گئیں ۔ درمیان میں تیسری پارٹی ابھری ۔ یہ پی ٹی آئی تھی۔ اس کے خلاف سابق پارٹیاں متحد ہو گئیں اور ایک نئی محاذ آرائی چل نکلی۔

اب مکافات عمل کا دور ہے۔ زرداری ا ور نوز شریف نے جو بیج بوئے ، اب انہیں ا سکی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے۔ اپوزیشن ویسے تو اسے انتقامی عمل کہہ رہی ہے مگر عمران خان طویل عرصے سے احتساب کا نعرہ لگا رہے تھے جس سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے کیونکہ یہ انکے منشور کا بنیادی نکتہ تھا۔ حکومت کی ایک دلیل یہ ہے کہ نیب ایک آزازد ادارہ ہے۔ اس کے کسی رکن کی تقرری اس نے نہیں کی۔ بلکہ اس کی تشکیل سابق دور حکومت میں کی گئی۔

بہر حال اب شہباز شریف کو پی اے سی کا سربراہ بنا دینے سے کم ا زکم ایوان میں شور و غل ختم ہو جانا چاہئے۔ ہائوس کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ ضروری قانون سازی ہو سکے اور نظام مملکت کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ایوان میں پارٹی پوزیشن بھی کچھ ایسی ہے کہ کوئی پارٹی قانون منظور کرنے کی پوزیشن میںنہیں۔ اس کے لئے باہمی تعاون ناگزیر ہے ۔خاص طور پر چیف جسٹس جو پولیس اصلاحات لانا چاہتے ہیں، ان کی منظوری ہو سکے۔ ملک مین پولیس ایکٹ وہی ہے جو انگریز سرکار نے تحفے میںدیا تھا۔ آج حقائق بدل گئے ہیں اور زمانے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔جن کی وجہ سے اصلاحات ناگزیر ہیں۔ نیب کے قانون پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اعتراض ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لیے بھی باہمی تعاون کرنا پڑے گا۔پارلیمنٹ میں بھی ایسا ماحول تشکیل دینا ضروری ہے جس سے پاکستان کا اچھاامیج دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔عوام کی غربت دور کرنے کے لئے بھی سب کوا تفاق رائے سے کام لینا چاہئے۔ ملک کی بر آمدات بڑھانی ہیں۔ ٹیکس اکٹھا کرنا ہے اور اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو اس کے لئے بھی پارلیمنٹ میں اتفاق رائے کی فضا قائم ہونی چاہئے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ برسوں کی بری عادتیں یکا یک ختم نہیں ہو سکتیں۔اس کے لئے وقت درکار ہے۔ لوٹا گردی انگریز دور میں شروع ہوئی جب ایک رکن اسمبلی کا نام ہی ادھر علی ادھر پڑگیا۔ قیام پاکستان کے بعد وفاداریاں بدلنے کی رسم تیز ہو گئی اور راتوں رات لوگ پارٹیاں تبدیل کرنے لگے۔ نہرو نے طنز کیا کہ وہ سال میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ فوجی حکومتوں کے ادوار بھی قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ہم باہمی محاذ آرائی کی وجہ سے پاکستان کو بھی دو لخت کر بیٹھے۔یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ ہم با شعور ہیں۔ میڈیا طاقت ور ہے عدلیہ فعال ہے اور فوج سیاسی حکومت سے تعاون کر رہی ہے تو ا س فضا کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ملک میں بہتر سیاسی ، پارلیمانی ا ور حکومتی روایات قائم کرنی چاہئیں۔ اس کے لئے حکومت نے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔ اپوزیشن کو اس کا مثبت جواب دینا چاہئے۔