پاناما نظرثانی اپیلیں: ‘درخواست گزار چاہتے ہیں فیصلہ دیں، اگر فیصلہ دیا تو خطرناک کام ہوگا’سپریم کورٹ
اسلام آباد(ملت آن لائن) سپریم کورٹ میں پاناما نظرثانی سے متعلق شریف خاندان کی اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار چاہتے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ دیں تاہم اگر کوئی فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا جب کہ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے شریف خاندان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث اور حسن، حسین اور مریم نواز کی جانب سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
نظرثانی اپیلوں پر گزشتہ روز پہلی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 28 جولائی کے عدالتی فیصلے میں 5 رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھائے۔
سماعت کے دوسرے روز بھی دلائل جاری رکھتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے کبھی بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا اور تنخواہ ظاہر نہ کرنا روپا ایکٹ کے 76 اے کے تحت آتا ہے اور نواز شریف نے کبھی تنخواہ کو اثانہ نہیں سمجھا جس کی وجہ سے اسے ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔
پاناما نظرثانی اپیلیں: ’نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ متفقہ تھا‘
اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ ہم کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے تھے، کمپنی سے تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ تنخواہ نہیں لیں گے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا، سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے تاہم آرٹیکل 62 ون ایف ایمانداری سے متعلق ہے جو اس کیس پر لاگو نہیں ہوتا اور غلطی کرنے پر آرٹیکل ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے لیکن نااہلی نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق نواز شریف کا ایمپلائی نمبر 194811 ہے اور انہوں نے تنخواہ بھی وصول کی اور معاہدے میں لکھا تھا نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نواز شریف کے ہی نام پر ایک ذیلی اکاؤنٹ کھولا گیا اور کیپٹل ایف زیڈ ای اکاؤنٹ میں اگست 2013 کو تنخواہ بھی آئی جب کہ دستاویزات کے مطابق طریقہ کار کے تحت اکاؤنٹ کھولا گیا جس کا ریکارڈ جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 9 میں موجود ہے۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کے کسی اکاؤنٹ میں ایف زیڈ ای سے کوئی رقم منتقل نہیں ہوئی جب کہ ذیلی اکاؤنٹ نواز شریف کا نہیں کمپنی کا ہے اور نواز شریف نے اپنے تمام بینک اکاؤنٹس ظاہر کیے، ہر آمدن اثاثہ نہیں ہوتی، اثاثہ آمدن بینک میں ہوتی ہے یا جیب میں۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا اور فیصلے میں اکاؤنٹ کا ذکر نہیں آیا اس پر بات نہ کریں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کوئی عدالتی مثال نہیں ملتی جس میں ایک اثاثہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا ہو اور سوال صرف یہ ہے کہ کیا 62 ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اثاثے چھپانے پر صرف الیکشن کالعدم نہیں ہوتا بلکہ اثاثے چھپانے والا نمائندگی کا حقدار بھی نہیں رہتا۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ نامکمل ہے جس کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا، جے آئی ٹی نے زیادہ تر دستاویزات ذرائع سے حاصل کیں جب کہ جے آئی ٹی کو مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور نامکمل رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو ناقابل تردید سچ تسلیم نہیں کیا اور اس رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو مجرم نہیں قرار دیا۔
خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی کی نامکمل رپورٹ پر عدالت نے ریفرنس دائر کرنے کا حکم کیسے دے دیا، جے آئی ٹی رپورٹ نامکمل ہے جس کی بنیاد پر ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا، پہلے دنیا میں کہیں نہیں دیکھا کہ کہا گیا ہو کہ ریفرنس تیار کر کے فائل کرو۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ پر کارروائی کرنا تھی، ٹرائل کورٹ کو مکمل اختیار ہے آزادانہ کارروائی کرے۔
جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا آپ ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات جاری رکھنے کا حکم دیں، بہت ساری چیزیں تھیں جو کہی جاسکتی تھیں لیکن ہم نے فیصلہ لکھنے میں احتیاط برتی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے سماعت کے دوران نیب ریفرنس کے لئے نگراں جج کی تعیناتی پر سوالات اٹھائے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص ٹرائل کی نگرانی کے لیے کبھی جج تعینات نہیں کیا گیا، عدالت نے پہلے بھی جے آئی ٹی کی نگرانی کی اور اب ٹرائل کورٹ کی بھی نگرانی کی جارہی ہے۔
جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ الگ سے نگراں جج نہیں لگانا چاہیے تھا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جج صرف مانیٹرنگ کے لئے ہوتا ہے باریک بینی کے لئے نہیں جب کہ پاناما کیس میں بھی بعض ہدایات دی گئی تھیں۔
خواجہ حارث نے کہا کہ مخصوص کیس کی نگرانی سے کیس پر اثر پڑتا ہے جس پر جسٹس کھوسہ نہیں انہیں یقین دلایا کہ نگراں جج ٹرائل پر اثرانداز نہیں ہوگا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے دیانتداری سے کام نہیں کیا اور سپریم کورٹ نے کہا جے آئی ٹی نے دیانتداری سے کام کیا، شفاف ٹرائل میرے موکل کا حق ہے، عدالت کو آبزرویشن دینا ہوگی۔
اس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ یہ بات یقینی بنائے گی کہ مقدمہ میں کوئی تعصب نہ برتا جائے، آپ عدالت پر بھروسہ کریں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں آپ کے خدشات کا علم ہے، آپ جے آئی ٹی کے تمام ارکان پر جرح کریں، جے آئی ٹی کی عدالت کی تعریف رکاوٹ نہیں بنے گی جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جب میں جے آئی ٹی پر جرح کروں گا تو وہ سپریم کورٹ کا تعریفی پیرا گراف رکھ دیں گے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نواز شریف کے حقوق متاثر ہوئے تھے تو اسی عدالت نے ریلیف دیا تھا، اگر ٹرائل میں زیادتی ہوئی تو سپریم کورٹ آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی، سپریم کورٹ ہر شہری کے حقوق کے ساتھ کھڑی ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلئے جس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل شروع کئے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ عدالتی فیصلے میں ان کے موکل کے خلاف کوئی حکم نہیں ہے، جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا جب کہ اسے اسحاق ڈار سے متعلق ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔
جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ اثاثے 9 ملین سے بڑھ کر 980 ملین ہوجائیں تو وضاحت ٹرائل کورٹ کو دے دیں جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ 90 گنا اثاثے بڑھ جائیں اور ہم آنکھیں بند رکھیں۔
اس موقع پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اثاثے مختصر وقت میں نہیں بلکہ 15 سال میں بڑھے، ججز پہلے کہہ چکے ہیں ہم نے محتاط زبان استعمال کی لیکن احتیاز کے باوجود بعض حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ آپ کے موکل نے 164 کے اعترافی بیان کو چیلنج کیا جس پر شاہد حامد ایڈووکیٹ نے کہا کہ اعترافی بیان جعلی ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ شاید چاہتے ہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں اور اگر ہم نے فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن دی کہ آئین پر چلنا کسی کو برا لگتا ہے تو لگے، ہم تو آئین اور قانون کے مطابق ہی چلیں گے، آج آپ کے خلاف فیصلہ آیا ہے تو خدشات کا شکار نہ ہوں، عدالتوں پر اعتماد کریں، عدالتوں نے پہلے بھی آپ کے حقوق کا تحفظ کیا، اب بھی کریں گے، ہم نے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا حلف لیا ہے۔
عدالت نے نواز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے اور اسحاق ڈار کے دلائل کے بعد سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی جب کہ نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا کل اپنے دلائل دیں گے۔