خبرنامہ

پاناما جے آئی ٹی کی 11 جلدوں پر مشتمل حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش،جلد 10 پبلک نہ کر نےکی استدعا،عدالت کی اجازت کے بغیر جے آئی ٹی ارکان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی،سپریم کورٹ، جے آئی ٹی اور عدالت کو دھمکیاں دینے والے تمام حکومتی رہنماؤں کے بیانات اور تقریروں کی تفصیلات طلب

اسلام آباد(ملت آن لائن)پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی ہے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سر براہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے 11 جلدوں پر مشتمل رپورٹ پیش کی۔ واجد ضیاء نے عدالت سے استدعا کی رپورٹ کی جلد نمبر 10 پبلک نہ کی جائے۔ عدالت نے فریقین کو رجسٹرارآفس سے رپورٹ کی نقل حاصل کرنے کی ہدایت کردی۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے جے آئی ٹی بنائی جس نے اپنا کام مکمل کرلیا، جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں تصویر لیک کرنے والے کا نام نہیں لکھا، ہمیں کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی جو ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں، ہم نے پوچھا تھا کہ تصویر لیک پر رپورٹ پبلک کریں یا نہیں، ہمارے خیال میں تصویر لیک معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کی ضرور ت نہیں، اگر ہم ذمہ دار شخص کا نام ظاہر کرتے ہیں تو حکومت چاہے تو کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے ایف آئی اے رپورٹ پڑھ کر سنائی، ایس ای سی پی ریکارڈ ٹیمپرنگ معاملے پر بحث کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے رپورٹ میں سنجیدہ الزامات ہیں، ظفر حجازی نے اپنے ماتحتوں کو ڈرایا اور دھمکایا، انہوں نے عدالت سے جھوٹ بولا، پہلے ٹمپرنگ سے انکار کیا اور پھر کہا میرا تعلق نہیں، وہ بیان دینے والوں کو بھی دھمکاتے رہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ظفرحجازی نے ماتحت افسران کو گلگت اور جیل بھیجنے تک کی دھمکیاں دی، ان کے خلاف آج ہی مقدمہ درج ہونا چاہئے، اب دیکھنا ہے کہ ٹمپرنگ کس کے کہنے پر ہوئی۔

سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے معاملات آئی ایس آئی کے حوالے کرنے سے متعلق شائع ہونے والی خبر کا نوٹس لیا تو جنگ گروپ کے صحافی نے جواب دیا کہ جس نے خبر دی وہ میں نہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جس نے اسٹوری فائل کی وہ چھپ کربیٹھا ہے، احمد نورانی نے جج سے رابطہ کی کوشش کیسے کی ، گزشتہ دور کے وزیراعظم نے جج سے رابطہ کیا اس کا نتیجہ آپ کو معلوم ہے، یہاں ایک صحافی نے جج سے 2 مرتبہ رابطہ کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ احمد نورانی نے جج سے رابطہ کی کوشش کیسے کی، صحافی کو جواب دیا گیا کہ ججز صرف اپنے فیصلوں یا عدالت میں ہی بولتے ہیں، جواب کے باوجود صحافی نے دوبارہ رابطہ کی کوشش کی۔ عدالت نے میر شکیل الرحمان ،جاوید الرحمان اور احمد نورانی کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی اور عدالت کو دھمکیاں دینے والے تمام حکومتی رہنماؤں کے بیانات کی تفصیلات اور طلال چوہدری اور آصف کرمانی کی تقریروں کے متن طلب کر لیے۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے عدالت سے رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کی تقاریر بھی طلب کرنے کی استدعا کی تو جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیوں نا آپ کے بیانات بھی طلب کرلیں۔ جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔

عدالت نے حکم دیا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر جے آئی ٹی ارکان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی، تمام ارکان واپس اپنےاداروں میں جائیں گےتو انہیں مکمل آزادی ہو گی، اگر ان ارکان کو کسی نے تنگ کیا تو یہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔ کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

سپریم کورٹ نے 20 اپریل کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا تھا جس کی روشنی میں 6 اداروں کے نمائندوں پر مشتمل جے آئی ٹی 7 مئی کو تشکیل دی گئی تھی۔ ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی کے دیگر ارکان میں اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز ، ایس ای سی پی کے نمائندے بلال رسول ، نیب سے عرفان نعیم منگی ، آئی ایس آئی سے بریگیڈیئر محمد نعمان سعید جبکہ ایم آئی سے بریگیڈیئر کامران خورشید شامل تھے۔

واضح رہے کہ جے آئی ٹی نے 62 دن تک تحقیقات کی جس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف، ان کے تینوں بچے، داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے علاوہ ایس ای سی پی ، نیب ، ایف بی آر اور نیشنل بینک کے سربراہان بھی پیش ہوئے۔