خبرنامہ

پاناما کیس میں عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا، سپریم کورٹ

پاناما کیس میں عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد(ملت آن لائن)سپریم کورٹ میں پاناما لیکس فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا اور دستاویزات کہتی ہیں کہ نواز شریف نے کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے تنخواہ وصول کی ہے جسے ظاہر نہیں کیا گیا۔

پاناما کیس کی نظرثانی درخواستوں پرپانچ رکنی لارجر بنچ سماعت کررہا ہے۔ بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعید کھوسہ کررہے ہیں جب کہ دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت شیخ سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر ایڈوکیٹ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ نااہلی اور الیکشن کو کالعدم قرار دینا دو الگ الگ معاملات ہیں، اگر اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک مدت کےلیے ہوتی ہے جب کہ نااہلی کے لیے باقاعدہ ٹرائل ضروری ہوتا ہے اور ٹرائل میں صفائی کا موقع ملتاہے۔ آرٹیکل 62 کادائرہ کار بڑا وسیع ہے، 62 ون ایف صرف اثاثے چھپانے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کے علاوہ آرٹیکل 76اے اور 78کی نسبت 62ون ایف کے اثرات زیادہ سنگین ہیں۔ نوازشریف کو اقامہ اور تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا، لفظ اثاثہ کے ایک سے زیادہ معنی اورتشریح ہے، نواز شریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھاانہوں نے تنخواہ کو اثاثہ نہ سمجھنے کےباعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے جب کہ غلطی کرنے پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے، تحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ نواز شریف تنخواہ نہیں لیں گے جب کہ معاہدے میں یہ ضرور تھا کہ نواز شریف کو 10 ہزار درہم تنخواہ ملتی ہے اب ہم یہ کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے نااہلی نہیں؟۔ نواز شریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا جب کہ دستاویزات کےمطابق طریقہ کار کے تحت نوازشریف نے اکاؤنٹ کھولا۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نوازشریف کا ایمپلائی نمبر194811 ہے اور دستاویزات کہتی ہیں کہ تنخواہ وصول کی گئی ہےاس کے ساتھ ساتھ نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاؤنٹ میں اگست 2013 کو تنخواہ بھی آئی، عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم کسی چیز کو ناقابل تردید سچ نہیں کہہ رہے آپ جے آئی ٹی رپورٹ میں کمی یا کوہتاہیاں ٹرائل کورٹ میں اٹھائیں، احتساب عدالت میں گواہیاں اور جرح ہو گی، کیا آپ استدعا کررہے ہیں کہ جے آئی ٹی کو دوبارہ زندہ کرکے رپورٹ مکمل کرنے کا کہیں؟۔ آپ چاہتے ہیں کہ ریفرنس کا معاملہ بھی ہم چیرمین نیب پر چھوڑ دیتے؟ آپ چیرمین نیب کا بیک گراونڈ اور کنڈکٹ بھی ذہن میں رکھیں۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عدالت نیب کو قانون کے مطابق تحقیقات کاحکم دے سکتی ہے، آپ نے تو بچوں پر بھی ریفرنس دائرکرنےکاحکم دیاجس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بچہ کوئی نہیں ہے وہ سب بچوں والےہیں۔