اسلام آباد (ملت + آئی این پی) سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرتے ہوئے پانامہ کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔جمعرات کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے منروا کمپنی کے ساتھ سروسز کا معاہدہ عدالت میں پیش کردیا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کے نمائندے نے ایرینا کمپنی کی جانب سے معاہدہ کیا،حسین نواز نے فیصل ٹوانہ کو نمائندہ مقرر کیا تھا،تمام دستاویزات گذشتہ رات لندن سے منگوائی ہیں،فیصل ٹوانہ حسین نواز کی جانب سے منروا کمپنی کے ساتھ ڈیل کرتے تھے،فیصل ٹوانہ کو تمام ہدایات حسین نواز دیتے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ دستاویزات آف شور کمپنی کے ڈائریکٹرز کے نام ہیں،سوال یہ ہے نیلسن اورینسکول کا ڈائریکٹر کون تھا؟،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصل ٹوانہ کے ذریعے حسین نواز نے تمام ادائیگیاں کیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دستاویزات سے ثابت کریں حسین نواز کمپنیاں چلا رہے تھے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فروری 2006سے جولائی 2006مریم بطور ٹرسٹی شیئرہولڈر ہیں،جولائی 2006میں منروا کمپنی کے نام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے،منروا کمپنی نے نیلسن اور نیسکول کیلئے اپنے ڈائریکٹرز دیئے،2014میں شیئرز منروا سے ٹرسٹی سروسز کو منتقل ہوگئے،فروری سے جولائی 2006تک شیئرز سرٹیفکیٹس مریم کے پاس رہے،بیریئر سرٹیفکیٹس منسوخی سے مریم کی بطور شیئرہولڈر حیثیت ختم ہوگئی،مریم نے بیریئر سرٹیفکیٹس بطور ٹرسٹی اپنے پاس رکھے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ شیئرز ٹرانسفر ہونے سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم ہوگئی؟۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز کمپنیوں کی بینفیشل مالک ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز نے منروا کمپنی کی کسی دستاویز پر دستخط نہیں کیے،وہ دستاویزات ٹرسٹ ڈیڈ ہے جو مریم اور حسین نواز کے درمیان ہوئی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سرٹیفکیٹس کس نے منسوخ کرائے اس سے فرق نہیں پڑتا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز سے متعلق جعلی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر لائی گئیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے فلیٹس ملکیت سے متعلق آپ کی ٹریل مکمل ہے؟،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اصغر خان کیس میں اسد درانی اور اسلم بیگ نے الزامات تسلیم کیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ جس کو شک و شبہ ہے وہ ثابت کرے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز زیرکفالت ثابت ہوں ۔تب بھی فلیٹ کی مالک ثابت نہیں ہوتیِں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ لندن میں مہنگیجائیدادوں کیلئے سرمایہ بھی دیکھنا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا اصغر خان کیس میں شواہد ریکارڈ ہوئے؟،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام تسلیم کرلینے پر شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ عدالت مقدمات پر کمیشن مقرر کرچکی ہے،کمیشن ٹرائل کورٹ کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کمیشن کو اختیارات عدالت خود دیتی ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کمیشن کا کام حقائق جاننا ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فی الحال شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے،شواہد ریکارڈ کرنے ہیں یا نہیں فیصلہ عدالت نے کرنا ہے،شواہد ریکارڈ کرنے کا مرحلہ ابھی نہیں آیا،دونوں فریقین کو سن کر فیصلہ کریں گے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت متعلقہ اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے،عدالت خود تحقیقات نہیں کرسکتی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس نکتے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں،کیس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے،آپ کہتے ہیں درخواست گزار نے کوئی ثبوت نہیں دیئے،آپ سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں حمدبن جاسم سے پوچھیں بقول آپ کے جائیداد اور کاروبار کیلئے رقم حمد بن جاسم نے دی،عدالت نے کسی ایک فریق کا یقین کرنا ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے قطری خط سمیت تمام کہانی بیان کردی،اگر ہم اس پر یقین نہیں کرتے تو کیا ہوگا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر میری بات پر یقین نہیں کرتے تو پھر کس پر کریں گے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ یہی تو میرا بھی سوال ہے کہ کس کا یقین کریں،یہ تو نہیں کہہ سکتے لندن جائیداد نعیم بخاری کی ہے،فریقین کیلئے کرپشن نہیں سیاسی مخالفت اہمیت رکھتی ہے۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ راجہ صاحب قطری سمیت تمام کردار آپ نے ہی متعارف کروائے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں ہم نے اصول وضع کرنا ہے،تقریر کی بنیاد پر نااہلی کی صرف ایک قانونی مثال ملتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نعیم بخاری کی دستاویزات کی تصدیق ممکن ہی نہیں،میں بھی عدالت کے سامنے قانونی سوال اٹھا رہا ہوں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وزیراعظم یا کسی اور کو نہیں قانون کو دیکھیں گے۔ہم چلے جائیں گے لیکن وضع کردہ قانون رہے گا۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کیس اتنے عرصے سے سن رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ جوئے کا لفظ بہتر تھا جو جسٹس کھوسہ نے استعمال کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ جوا کسی کے حق میں بھی جاسکتا ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 10اے اور قانون کے اصولوں کو عدالت نے ہمیشہ برقرار رکھا ہے،184 تین کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں،صرف نظرثانی کی درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نظر ثانی درخواست کا دائرہ کار بھی کافی محدود ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ کیس ثابت کریں،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جب کوئی جرم ہی نہیں ہے تو کمیشن بنانے کا جواز نہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اصغر خان کیس میں کرپشن معاملے پر فائنڈنگ دی گئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جائیداد سے متعلق شریف خاندان کی وضاحت اطمینان بخش نہیں،قطر میں کاروبار کی دستاویزات نہیں دی گئیں،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پہلے فریق کی بات تسلیم نہیں کی جاسکتی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ دادا دنیا میں نہ رہے،بچے کما نہیں رہے تھے،کلثوم نواز گھریلو خاتون ہیں،ایسے میں صرف ایک فرد بچتا ہے،عدالت 184 تین میں کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی۔ فوجداری جرم کی تحقیقات متعلقہ فورم پر ہوتی ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے فلیٹس خریدنے کا بیان دیا بچوں نے تردید کی۔ کلثوم نواز اور وزراء نے بھی فلیٹس سے متعلق بیانات دیئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کلثوم نواز کا کوئی بیان نہیں تھا صحافی کا آرٹیکل تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ امریکہ میں سربراہ مملکت کے خلاف تحقیقات کے لئے الگ ادارہ ہے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ امریکہ میں اس کام کے لئے الگ ادارہ قانون کے مطابق بنایا گیا۔ امریکہ میں یہ کام عدالتوں کے ذریعے نہیں ہوتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے آزاد تھے۔ تب عدالتیں مداخلت نہیں کرتی تھیں۔ وقت اور حالات کے مطابق عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی۔ ادارے کہہ رہے ہیں ہم کچھ نہیں کرسکتے تو عدالت کیا کرے۔ جسٹس اعجاز افضل خان خان نے کہا کہ اس کیس کو تمام زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ قانون سب کے لئے یکساں ہوگا۔ ہر مقدمہ کا فیصلہ اس کے اپنے حقائق کے مطابق ہوتا ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کا موقف یقینی طور پر یہ نہیں ہوگا کہ کارروائی شفاف نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالتی کارروائی پبلک ٹرائل بنتی جارہی ہے ۔کیس تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔میڈیا اور ہمارے ساتھی روزانہ شام کو فیصلہ سنارہے ہوتے ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پتہ چلا ہے کہ الزام لگانے والوں نے مزید دستاویزات جمع کرائی ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیا کوئی سازش ہے کہ یہ کیس مکمل ہی نہ ہو۔ کوئی دستاویزات آئیں تو آپ کی ضرورت پڑی تو پوچھ لیں گے۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ عدالت معلومات تک رسائی مانگ رہی ہے،آپ سے معلومات پیدا کرنے کا نہیں دینے کا کہا تھا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ امریکہ کا ایک کیس عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ مزید دستاویزات نہ دیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ کوشش کی ہے عدالت کو تمام حقائق سے آگاہ کروں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اب نیب اور ایف بی آر دلائل دیں گے بعد میں اٹارنی جنرل اور نعیم بخاری کی باری آئے گی۔سپریم کورٹ نے چیئرمین نیب اور چیئرمین ایف بی آر کو طلب کرتے ہوئے پانامہ کیس کی سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔