پاکستان کو سفارتی تنہائی سے نکالنے کی کوشش..اسد اللہ غالب
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے دوران کئی ممالک کے وزرائے خارجہ اور اہم شخصیات سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان کی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دورہ کسی لحاظ سے پیسوں کی تلاش کے سلسلے میں نہیں تھا اور نہ انہوںنے کسی سے مالی امداد کی درخواست کی البتہ امریکہ کو باور کرایا کہ پاکستان برابری کے تعلقات چاہتا ہے اور کسی ڈکٹیشن میں آکر ڈو مور کے لئے تیار نہیں۔ اس سے قبل وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اب ڈو مور کی باری دوسروں کی ہے۔ اس لئے کہ پاکستان نے اپنے حصے سے زیادہ کا کام کر لیا ہے اور دنیا کو دہشت گردی کے خطرے سے نجات دلا دی ہے۔
ملک میں حالیہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی ہے ، لا محالہ دنیا کو بھی اس بات کی ضرورت تھی کہ وہ نئی حکومت کے ذہن کو پڑھنے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے سعودی سفیر نے عمران خان سے ملا قات کی۔ پھر امریکی سفیر نے بھی ملاقات کی ، ایرانی وزیر خارجہ پاکستان آئے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کا دورہ کیا، غیر ملکی سربراہان نے عمران خان کو ٹیلی فون بھی کئے جن میں بھارتی وزیر اعظم،ترک صدرا ور فرانسیسی صدر شامل ہیں۔عمران خان نے ایک اعلی سطحی وفد کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ بھی کیا۔، کویتی وفد اور سعودی وفد بھی پاکستان میں مذاکرات کے لئے آئے۔ بھارت نے نئی حکومت کے خیر سگالی جذبے کی قدر نہیں کی مگر چینی وزیر خارجہ کے دورے میں سی پیک کو آگے بڑھانے کی بات کی گئی۔ اگرچہ اس منصوبے پر رزاق داﺅد کے ایک بیان نے غلط فہمی پیدا کی مگر عمران خان نے سی پیک کو پاکستان کی خوش حالی کی ضمانت قراردیا اور چین کے ساتھ غلط فہمی کو رفع کرنے کی کوشش کی۔ مگر آج خودو زیر اعظم کا بیان آ گیا ہے کہ سی پیک پر نظر ثانی کی جائے گی۔ چین کو ملائشیا کے مہاتیر محمد نے بھی لال جھنڈی دکھا دی ہے جس کے بعد سے چین کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے جسے دور کرنے کی ضرورت ہے، ہم چین کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ یہی ایک دوست ہے جس پر ہم آنکھیں بند کر کے اعتماد کر سکتے ہیں ہم بھی کہتے ہیں اور چین بھی کہتا ہے کہ دونوں ملکوں کی دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری ہے۔ آرمی چیف نے چین کا دورہ کیا ، ان کی ملاقات چینی صدر کے ساتھ بھی ہوئی ۔چینی صدر نے باہمی تعلقات بارے ایک نئی اصطلاح استعمال کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونون ملکوں کے تعلقات فولاد سے زیادہ مضبوط ہیں۔ظاہر ہے جب چین کی توقعات اس حد تک ہوں تو کوئی رخنہ نہیں پڑنا چاہئے اور ہمیں جلد از جلد سی پیک کے بارے اس ابہام کو دور کرنا چاہئے کہ اس پر اگر نظر ثانی کرنی ہے توا س کی نوعیت کیا ہے ا ور چین کو یہ تبدیلیاں کس حد تک قبول ہیں۔
امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اتار چڑھاﺅ کا شکار رہتے ہیں مگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ستر برسوں کے تعلقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔ انہوںنے امریکہ پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ باہمی تعلقات کو افغانستان یا بھارت کی عینک سے نہ دیکھے۔ بلکہ باہمی مفادات کے پیش نظر ہی اپنے فیصلے کرے جو کہ حقیقت پسندانہ ہونے چاہئیں۔
دنیاکے ساتھ تعلقات نبھانے میں نئی حکومت کو کئی مشکلات در پیش ہیں ۔ نواز شریف کی حکومت نے سب سے بگاڑ پیدا کر لیا تھا اور پاکستان کم و بیش سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا تھا، پچھلی حکومت نے صرف بھارت کو خوش رکھنے کی کوشش کی، سعودی عرب، کویت۔ قطر۔ ایران۔ امارات، یورپ اور امریکہ سے فاصلے بڑھا لئے اور دنیا کی غلط فہمیوں کو رفع کرنے کے بجائے الٹاان میں اضافہ ہی کیا۔دنیا پاکستان کو دہشت گردی کا منبع ہونے کا طعنہ دیتی تھی، ڈان لیکس کے مطابق پچھلی حکومت بھی سمجھتی تھی کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کی خبر لینی چاہئے۔ ایک وزیر صاحب تو ڈنکے کی چوٹ بعض افراد کا نام لے کر سوال اٹھاتے تھے کہ کیا یہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغیاں ہیں جو ہم نے انہیں پال رکھا ہے۔ڈان لیکس کے مطابق شہباز شریف نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا تھا کہ ہم جن لوگوں کو پکڑتے ہیں، آپ انہیں اپنے بندے کہہ کر چھڑوا لیتے ہیں۔اس صورت حال میں دنیا ہمیں کیوں طعنے نہ دیتی ۔ ابھی تو شکر ہے کہ مسئلہ گرے لسٹ تک پہنچا ہے اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار نہیں دیا جا سکا ۔ پچھلی حکومت کی پالیسی جاری رہتی تو ہم اب تک تنہا ہو چکے ہوتے۔
نواز شریف حکومت نے ہر شعبے میں کانٹے بکھیر رکھے ہیں اور نئی حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے پڑتے ہیں ، خارجہ پالیسی کے میدان میں بکھرے کانٹوں کو پلکوں سے چننا پڑ رہا ہے۔ دنیا کو نئے سرے سے اپنا نقطہ نظر سمجھاناا ٓسان کام نہیں مگر نئی حکومت نے اس چیلنج کو بھی قبول کیا ہے۔ اور اپنے سفیروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان کا موقف واضح کر نے کے لئے سرگرم کردارا دا کریں۔بھارت کے ساتھ روایتی مشکلات حائل ہیں، وہ کہہ مکرنیوں کی عادت میں مبتلا ہے۔ اس نے خود وزرائے خارجہ کی ملاقات پررضامندی کاا ظہار کیا مگر پھر اچانک جولائی کے کسی افسانے کے بہانے یہ ملاقات منسوخ کر دی، یوں شاہ محمودا ور سشما سوراج نیو یارک میں میٹنگ نہیں کر سکے۔ عمران خان نے تو یہاں تک کہا تھا کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔آرمی چیف جنرل قمر جاید باجوہ نے تو بھارتی سابق کرکٹر سدھو کو پیش کش کی کہ پاکستان کرتار پور کا بارڈر کھولنے کے لئے تیار ہے مگر بھارت اس کے لئے بھی تیار نہیں۔ اس طرح نئی حکومت کو اندازہ ہو گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات آگے بڑھانا ایک دقت طلب اور صبرآزما کام ہے ۔
ایران او ر سعودی عرب مناقشے میں بھی پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم اگر دونوںممالک کے مابین پل کا کردارا دا کر سکیںتو یہ ایک بڑی بات ہو گی۔ ہمیں عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو تیزی سے بہتر کرنا ہے ا ور امریکہ ا ور یورپی یونین سے مذاکرات کے ذریعے اپنی بر آمدات میں اضافے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پاکستان کی معاشی مشکلات کا حل بھی خارجہ پالیسی سے جڑا ہوا ہے ا ور نئی حکومت کو اس امر کا بخوبی احسا س بھی ہے۔ شاہ محمود قریشی ایک تجربے کار اور منجھے ہوئے وزیر خارجہ ہیں، توقع رکھنی چاہئے کہ وہ عالمی برادری میں پاکستان کو اس کا جائز اور آبرو مندانہ مقام دلوانے میں کامیاب رہیں گے۔اور وہ بھی برق رفتاری کے ساتھ۔