پاکستان کے خلاف بھارت روس امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ….اسد اللہ گالب
روسی صدر پیوٹن بھارت کے دورے پرآئے اور اس امر کے باوجود کہ امریکہ نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں،انہوںنے بھارت کے ساتھ اسلحے کی سپلائی کے بڑے بڑے معاہدے کئے۔ روس اب دنیا کی سپر پاور تو نہیں رہا مگر اس کے ذہن میں سپر پاورو الا خمار ضرور باقی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کو بائی پاس کر کے مال بنا سکتا ہے۔ خیرروس جانے، بھارت جانے اور امریکہ جانے مگر ان معاہدوں سے یہ ضرور ثابت ہوا ہے کہ بھارت کے خطے میں عزائم کیا ہیں ۔ بھارت نے ستر کے عشرے میں بھی سوویت روس کی مدد سے پاکستان کو دو لخت کیا تھا۔ اب بھی بھارت کی کوشش یہ ہے کہ وہ پاکستان ا ور روس کو ایک دوسرے کے قریب نہ آنے دے، اور اپنی علاقائی بالا دستی کے عزائم کی تکمیل کے لئے ارد گرد کے ممالک کو اپنے ساتھ ملائے یا کم از کم یہ تاثر دے کہ یہ ممالک اس کی جھولی میں ہیں۔
چند ہفتے قبل دو امریکی وزرا نے بھی بھارت کا دورہ کیا اور ٹو پلس ٹومذاکرات ہوئے جن میں یہ طے کیا گیا کہ مسائل کے حل خاص طور پر دہشت گردی کے خاتمے میں امریکہ اور بھارت کی سوچ ایک ہے۔ ان مذاکرات کے ذریعے بھارت نے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ اس کی خطے میں اہمیت کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ صرف چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آئے مگر وہ اپنے ملک کے وزیر دفاع سمیت بھارت کے دورے پر گئے جہاں کئی معاہدوں اوریاد داشتوں پر دستخط کئے گئے۔اگرچہ بین السطور سے ظاہر ہو گیا تھا کہ بھارت کو ٹو پلس ٹو مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا کیونکہ بھارت نے بڑا شور مچایا کہ وہ روس سے اسلحہ خریدنا چاہتا ہے جس میں امریکی پابندیاں اس کے راستے میں حائل ہیں ، امریکی وزرا نے خاصہ منافقانہ جواب دیا کہ پابندیاں روس کو متاثر کریں گی،بھارت کو نہیں۔ اب اس جواب پر انسان سر ہی پیٹ سکتا ہے۔ پتہ نہیں بھارت نے ٹو پلس ٹو مذاکرات پر بغلیں کیوں بجائیں۔
اصل میں بھارت کو زعم یہ ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں آبادی اور رقبے کے اعتبار سے ایک بڑا ملک ہے۔ وہ امریکہ کو باور کراتا ہے کہ چین کے گرد گھیرا ڈالنے میں وہ ا س کی مدد کر سکتا ہے۔ اسی ا ٓڑ میں اس نے ساٹھ کے عشرے میں دنیابھر سے اسلحے کے ذخائر جمع کئے مگر پینسٹھ میں انہیں پاکستان کے خلاف جارحیت کے لئے استعمال کیا۔ اب تو پاکستان کے گرد گھیرا ڈالنا امریکہ کا بھی ایک بڑا مقصد ہے۔ ا سکی کئی ایک وجوہات ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ یہ دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی اسلحے اوراسکے ڈیلوری سسٹم کا مالک ہے۔ دوسرے امریکہ کا الزام ہے کہ پاکستان شدت پسندوں کی سرپرستی کرتا ہے ۔ تیسرے سی پیک میں وہ چین کی مدد کر رہا ہے اور گوادر جیسی گہرے پانیوں کی بندرگاہ تک چین کو رسائی دے رہا ہے۔جو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے لئے اعصابی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو خوش کرنے کے لئے بھاشہ ڈیم کی بھی مخالفت شروع کرد ی ہے۔ اور بہانہ یہ تراشا ہے کہ یہ کشمیر کے متنازعہ علاقے میں واقع ہو گا۔ امریکہ ہر گز نہیں سوچتا کہ منگلا ڈیم بھی کشمیر ہی میں تعمیر کیا گیاا ور ورلڈ بنک کی مالی معاونت سے تعمیر کیا گیا۔بہر حال پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے امریکہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے اور دلیل کی زبان کو رد بھی کر سکتا ہے۔
پاکستان کے خلاف بھارت کے اپنے بھی عزائم ہیں، اس نے بر صغیر کی تقسیم کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بھارتی لیڈروں کا خیال تھا کہ پاکستان چند مہینوں میں اس کی جھولی میں آن گرے گا کیونکہ مسلمانوں کو نہ حکومت کا پتہ ہے، نہ حساب کتاب کا۔ مگر جب پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا اور ایشیائی ممالک کے لئے معاشی ترقی کا رول ماڈل بن گیا تو بھارت نے طاقت کے بل پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشیں شروع کر دیں ۔ پہلے کشمیر پر فوجی طاقت سے قبضہ جمایا اور پھر پینسٹھ میںلاہورا ور سیالکوٹ پر یلغار کر دی، پاکستا ن اپنے دفاع میں کامیاب رہا تو اکہتر میں زیادہ تیاری کے ساتھ اور پاکستان کواندرونی انتشار میں مبتلا کر کے بھارت نے پاکستان پر تیسری یلغار کی اورا س میں وہ پاکستان کو دو لخت کرنے میں کامیاب ہو گیا،پاکستان نے اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ روایتی جنگ میں بھارت کامقابلہ ممکن نہیں اس لئے اس نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل ڈالی اور اٹھانوے میں دھماکے کر کے دنیا پر ثابت کر دیا کہ وہ ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ اب بھارت کی حکمت عملی بھی تبدیل ہو گئی اور اس نے نان ا سٹیٹ ایکٹرز کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا، اس میں بھی بھارت نے منہ کی کھائی اور اب بھارت نے کھلی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں کہ وہ بلوچستان، آزاد کشمیراو ر گلگت بلتستان کے عوام کو اسی طرح ان کے حقوق دلوائے گا جیسے اکہتر میں مشرقی پاکستان کے عوام کو دلوائے گئے ، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لئے وہ امریکہ اور روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا ہے۔ پاکستان کاایٹمی پروگرام اسرائیل کو بھی ایک نظر نہیں بھاتا کہ وہ اسے اپنی توسیع پسندی میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ پاکستان کا اعلان ہے کہ وہ عالم اسلام کے قلعے کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ عرب ممالک کو آہستہ آہستہ ہڑپ کر لے۔ پاکستان پر یلغار کے لئے اسرائیل کم از کم دو ناکام کوششیں کر چکا ہے، ایک بار اس کے جہاز جموں ایئر پورٹ پر جمع ہو گئے، ان کی نیت تھی کہ اچانک جارحانہ یلغار میں کہوٹہ کو تباہ کر دیں مگر پاک فضائیہ کی چوکسی نے اسرائیلی مذموم اراداوں کوناکام بنا دیا،دوسری مرتبہ اسرائیلی جہا زدہلی ایئر پورٹ پر اترے اور ان کو بھارتی فضائیہ کے طیارے ظاہر کرنے کے لئے دوبارہ پینٹ کیا گیا، غلطی یہ ہوئی کہ پینٹ میں اسرائیلی پرچم کو نہ مٹا یا گیا، پاکستان کی انٹیلی جنس نے ان کی تصویریں حاصل کر کے اسلام آباد میں متعین امریکی سفیر کی میز پر رکھ دیں جس کے بعد ظاہر ہے یہ منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔
بھارت تلا ہوا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دلوا دے۔ اس کا پروپیگنڈہ زوروں پر ہے۔ وہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈلوا چکا ہے۔
پاکستان کی بد نصیبی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میںا س کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہ تھا، سونے پر سہاگہ یہ کہ خود سابقہ حکومت بھارت نواز تھی۔ اس نے بھارتی سازشوں سے مسلسل اغماض برتا اور بھارت شیر ہوتا چلا گیا مگر اب پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے۔ عمران خان بھی بھارت سے دوستانہ تعلقات چاہتے تھے مگر انہیں جلد اندازہ ہو گیا کہ بھارت کی نیت میں فتور ہے ، وہ تو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا، اپنے ڈیموں سے بلاا طلاع پانی چھوڑ کر پاکستانی علاقے سیلاب میں غرق کردیتا ہے۔ اس طرح کی اوچھی حرکتیں کرنے والے ملک سے نبٹنے کے لئے موجودہ حکومت اپنے تئیں اقدامات کر رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے جنرل ا سمبلی میں بھارتی عزائم کا پردہ چاک کیا ہے اورا س کے حاضر سروس دہشت گرد کل بھوشن کے چہرے سے نقاب اتارا ہے۔ بھارت اب بغلیں جھانک رہا ہے مگر اسے دیرپا سبق سکھانے کے لئے حکومت کو قومی اتفاق رائے سے پالیسی وضع کرنا ہو گی۔ وزیر اعظم اورآرمی چیف کے درمیان کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔آئی ایس آئی کے ساتھ بھی مشاورت ہو چکی ہے۔بھارت سے نبٹنا صرف حکومت کا فرض نہیں۔ پوری قوم کو اس پر سوچ بچار کرنی چاہئے۔