پاک ایران تعلقات، جنرل غلام مصطفی کا تجزیہ..اسداللہ غالب
بسم اللہ… لیفٹننٹ جنرل غلا م صطفی دفاعی اور اسٹریٹیجیک معاملات کے تجزیہ کار ہیںیہ۔ پاک ایران تعقات کے نازک اور اہم تریں موضوع پر ان کا ایک آرٹیکل سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے اور انتہائی مد لل، میں۔ اسے قومی مباحثے کے لئے قارئین کی نذر کرتا ہوں اور اپنے کسی تبصرے کے بغیر۔
ایران ا ورپاکستان دو ایسے ہمسائے ہیں جنہیں ہر دلیل کی رو سے ایک دوسرے کے قریب ہونا چاہئے مگر بدقسمتی سے یہ دونوں ایک صفحے پر بھی نہیں ہیں۔صفحہ تو دور کی بات ہے ، ایک کتاب میں بھی نہیں،اس دوری کی وجوہات دلچسپ بھی ہیں اور تکلیف دہ بھی۔دونوں ملکوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔جو انہیں قریب نہیں آنے دے رہے ۔مگر جغرافیہ انہیں مجبور کرتا ہے کہ وہ باہم شیر وشکر ہو کر رہیں۔ کہاوت ہے کہ ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے۔مشترکہ تاریخ کا ورثہ جھولی پھیلا پھیلا کر ان سے بھیک مانگ رہا ہے کہ وہ اس الناک انجام کی طرف بگٹٹ نہ دوڑیں جو اب زیادہ دور نہیں رہ گیا۔صرف معاشی معاملات ہی کو لے لیں تو انہیں ایک دوسرے پر انحصار کی پالیسی اپنانی چاہئے۔اگر مذہب کو رشتہ مان لیا جاءئے تو انہیں یک جان دکھائی دینا چاہئے مگر صد افسوس! مذہب کہیں پیچھے رہ گیا،اس کی جگہ تفرقہ بازی نے لے لی ہے۔اس کی وجہ سے دہشت گرد دونوں کی صفوں مں گھس آئے ہیں ار اب تو تین عشرے ہونے کو آئے کہ دونوں ہمسائے ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کے قابل نہیں رہے۔سعودی عرب سے ہمارے تعلقات نے مسلم دنیا میں مزید تفریق پیدا کر دی ہے مگر افغان جہاد کے دور میں ایران کے کردار نے پہلے ہی مسلم امہ کے اتحاد میں رخنہ ڈال دیا تھا۔مؤرخ اس امر کا نوحہ لکھے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ حالات کے جبر نے ایران اور پاکستان کو پراکسی جنگ کی دلدل میں دھکیل دیا۔اس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں پاکستان کو گوناں گوں مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان کی دلی خواہش اور خلوص کے باوجود ہم افغان امن مذاکرات کے عمل کو بھی آگے بڑھانے کے اہل نہیں رہے۔ایران سے گیس پائپ لائن کی باتیں ہم کئی عشروں سے سنتے چلے آ رہے ہیں مگر اس منصوبے کا سورج طلوع ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔شاید پاکستان پر امریکہ اور سعودی عرب کا دباؤ بھی ہے ۔ایران کے اندر ایک خواہش مچل رہی ہے کہ اس کی ماضی کی شان و شوکت اور جا ہ جلال واپس آ جائے، اس کے لئے وہ عالم عرب میں مداخلت کر رہا ہے۔جس سے ایران ا ور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف صف آرا نظر آ تے ہیں۔یہیں سے قطر اور سعودیہ کا جھگڑا شروع ہوا جس کا ذکر صدر ٹرمپ نے اپنے دورہ سعود ی عرب میں برملا کیا۔ دنیا توتماشہ دیکھتی ہے اور یہ تماشہ ہو گیا کہ قطر اور سعودیہ کے تنازعے نے مسلم امہ میں مزید دراڑیں ڈال دیں۔ترکی اور یران نے قطر کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، کویت نے غیر جانبداری اختیار کی۔عراق اور شام اپنی بقا کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔روس نے سعودی عرب کی مذمت میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی مگر چین نے محتاط رویہ اختیار کیا۔
ہم پاکستانی کبھی نہیں بھول سکتے کہ ایران نے بھارت کے ساتھ دفاعی اور اسٹریٹجیک معاہدے کرتے ہوئے پاکستان کی حساسیت کا لحاظ نہ کیا،شاہ ایران نے بھی ہمیں یہ کہہ کر تکلیف پہنچائی کہ اگر ضرورت پڑی تو ایران کی افواج پاکستانی بلوچستان کو ہتھیا لیں گی۔دوسری طرف پاکستانیوں کو یاد ہے کہ سعودی عرب نے ہر صعوبت میں کس طرح پاکستان کی مدد کی ہے۔ہمارے لاکھوں غریب پاکستانی بھائی بھی سعود ی عرب میں اپنے پیاروں کے لئے روٹی روزی مانے میں مصروف ہیں۔پاکستان جائے تو کدھر جائے۔قطر کے معاملے میں ا سکا غیر جانبدار رہنا، دوسرااہم فیصلہ ہے جس کے لئے حکومت پاکستان داد کی مستحق ہے، اس سے پہلے ہم نے یمن کے جھگڑے میں ٹانگ اڑانے سے انکار کر کے دانش مندی کا مطاہرہ کیا تھا۔ایران نے نظر بظاہر پاکستان کے ان اقدامات کو بنظر تحسین دیکھا ہے ا ور اس کا مثبت جواب یوں دیا ہے کہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے کشمیر کے انتفاضہ اور تحریک حریت کی مکمل حمائت کی ہے ا ور ساری مسلم امہ کو ان کی مدد کے لیے درخواست کی ہے۔یہ وہ موقع تھا جب مودی ا ور ٹرمپ واشنگٹن میں ایک دوسرے کے واری جا رہے تھے اور بھارت کی قربت اسرائیل کے ساتھ بھی بڑھنے کے امکانات پید اہو گئے ہیں۔ اس وقت خامنہ ای کے پیغام کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ انہوں نے پاکستان کی حمائت کی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اگر دونوں ملک اسی طرح مشترکہ مسائل پر یکساں موقف پر چلتے رہیں توایک دوسرے میں قربت پیدا ہونے کی قوی توقع کی جاسکتی ہے۔وہ ایک کتاب پر نظر آنے لگ گئے ہیں، خدا کرے کہ ایک صفحے پر بھی آ جائیں۔چین اس سلسلے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے جس نے ایران سے ڈیڑھ سو ارب تجارت کے معاہدے کئے ہیں اور روس کا جھکاؤ بھی یران کی طرف ہے۔ایران نے ایک مثبت قدم یہ اٹھایا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شرکت پر آمادگی کاا ظہار کر دیا ہے۔ اس طرح کچھ مشترکات سامنے آ گئے ہیں۔اگر پاکستان کے ساتھ ایران کی گیس پائپ لائن کا رشتہ استوار ہو جائے ا ور گوادرا ور چاہ بہار ایک دوسرے سے ریل کے ذریعے منسلک ہو جائیں تو مزید قربت بڑھنے کا امکان ہے۔
جہاں تک سعودی معاملات کا تعلق ہے تو اس نے یمن اور قطر کے جھگڑے میں کودنے سے قبل پاکستان سے کوئی مشاورت نہیں کی، اگر یہ مشاورت انفرادی سطح پر ہوئی تو پاکستان کی حکومت اور قوم اس پر عمل در آمد کی مکلف نہیں ہے۔پاکستان کو صرف اپنے مفادات کی نگہہ داشت کرنی چاہئے۔اگر مسئلہ حرمین شریفین کو کسی خطرے کا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت ایسی حماقت نہیں کر سکتی۔ اور باالفرض ایسی نوبت آتی ہے تو بشمول ایران پوری مسلم امہ اس خطرے کے سامنے سیسیہ پلائی دیوار بن جائے گی لیکن اگر ہم آپس میں بٹے رہے تود شمن ہمیں ایک کر کے ختم کرتا چلا جائے گا، لیبیا، عراق اور افغانستان کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اس خطرے سے خبر دار رہنبے کی ضرورت ہے۔اگر ایران کو تنہا چھوڑ دیا گیاتو ترکی، پاکستان اور سعودی عرب اکیلے اکیلے اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں مگر ایران ، ترکی سعودی عرب اور پاکستان متحد قوت کے ساتھ دنیا کے ہر خطرے سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں ، اس لحاظ سے سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ نہ صرف پاک ایران قربت کو خوش آمدید کہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرے تاکہ خطے میں کشیدگی کا خاتمہ ہو سکے۔ایک حوصلہ افز ابات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے پورے درو میں پہلی مرتبہ فارن آفس میں ایک میٹنگ کی صدارت کی ہے جس میں ممکنہ طور پر مغربی سرحد کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے فیصلے کئے گئے ہوں گے۔ وزیر اعظم خود ہی وزیر خارجہ بھی ہیں ، اس لئے ایران کے ساتھ قربت، تجارتی روابط میں، وسعت اور عوامی سطح پر ایک دوسرے سے روابط استوار ہو جائیں تو ا س سے وزیر اعظم کو اگلی الیکشن مہم میں بھی بڑا فائدہ پہنچنے کا امکان ہ