خبرنامہ

پروفیسر وارث میر کا نام کھرچ دیا گیا…….اسداللہ غالب…انداز جہاں

لپروفیسر وارث میر کا نام کھرچ دیا گیا…….اسداللہ غالب…انداز جہاں

اہور نہر کے ایک انڈر پاس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ناموں کی تبدیلی معمول کی بات ہے۔ ہم نے منٹگمری کو ساہیوال،لائل پور کو فیصل آباد۔ للیانی کو مصطفی آباد، کرشن نگر کو اسلام پورہ اوربھائی پھیرو کو رانا پھول نگر بنا دیا۔بر صغیر کے دوٹکڑے ہوئے تو ایک کا نام پاکستان رکھ دیاا ور جن لوگوں نے مینار پاکستان کے جلسے میں قراداد آزادی پیش کی تھی۔ انہوں نے الگ ہو کر اپنے دیس کا نام بنگلہ دیش رکھ لیا۔ شیکسپیئر کہتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے، گلاب کو کوئی نام دے لو،ا س کی خوشبو میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مگر پروفیسر وارث میر انڈر پاس کے نام میں تبدیلی کے پیچھے ایک تعصب پنہاں ہے۔ یہ چڑ پروفیسر صاحب سے نہیں، شاید ان کے بیٹے حامد میر سے ہے۔ حامد میر سے کئی لوگ محبت بھی کرتے ہیں اور کئی لوگ ا س سے بغض کااظہار بھی کرتے ہیں۔ حامد میر نے گولیاں بھی کھائیں اور پھر گولیاں برسانے والوں کے ساتھ قربت پیدا کرنے کیلئے اس نے بڑی محنت کی۔ ابھی دو دن پہلے وہ کنٹرول لائن پر تھا، جہاں بھارتی افواج آئے روز فائرنگ اور گولہ باری کرتی ہیں، حامد میر کنٹرول لائن کے اس قدر نزدیک تھا کہ بھارتی فوج اس پر گولے برسا سکتی تھی۔26 فروری کو بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کے شہر بالا کوٹ پر بمباری کی ہے،تو بے چارہ حامد میر سارا دن یہی ثابت کرنے پر لگا رہا کہ بالاکوٹ ایک گاؤں ہے جو کنٹرول لائن پر واقع ہے حالانکہ وفاقی وزیر دفاع تسلیم کر چکے تھے کہ بھارتی جہازوں نے ان کے صوبے کے ایک علاقے بالا کوٹ میں بم گرائے ہیں۔ شیخ ئرشید بھی وفاقی وزیر ہیں، انہوں نے بھی کہاکہ بالا کوٹ کے پی کے کا حصہ ہے اور یہاں ایک چھوٹاسا مدرسہ بھی ہے۔بھارتی میڈیا نے حامد میر کا سارا دن مذاق اڑایا کہ اسے یہ تک معلوم نہیں کہ وہ جس بالا کوٹ کو کنٹرول لائن پر ظاہر کر رہا ہے، وہ مقبوضہ کشمیر میں ہے اور بھارت اتنا بیوقوف نہیں کہ اپنے ہی گاؤں کو تباہ کر لے۔ مگر حامد میر قومی بیانئے کے ساتھ جڑا رہاا ور جب پاکستان نے بھی تسلیم کیا کہ ہاں،بالاکوٹ پر بم گرا ہے تو حامدمیر پہلا صحافی تھا جو اگلی صبح بالا کوٹ کے اس جنگل میں پہنچا جس پر بھارتی فضائیہ نے گولے برسائے تھے ا ور جس سے ایک کوّ مراا اور کوئی تین سو درخت تباہ ہوئے تھے۔
کوئٹہ چرچ
مگر لگتا ہے کہ حامد میر کی خطائیں معاف نہیں کی گئیں، اس نے بھی تنگ آ کر ایک روز کہا کہ آؤ مجھے گرفتار کر لو۔ حامد میر اس روز میڈیا پر پابندیوں کیخلاف احتجاج کر رہا تھا۔ میں نے حامدمیر کو فون کیا کہ اس قدر جذباتی نہ بنو۔ تمہارے ساتھ میں بھی گرفتاری دوں گا مگر ہم اڈیالہ جیل والوں کو گرفتاری نہیں دیں گے، تہاڑ جیل والوں کے ہاتھوں گرفتار ہوں گے، جہاں یاسین ملک برسوں سے گل سڑ رہا ہے۔ ہماری ہڈیاں بھی اسی جیل کی کال کوٹھڑیوں میں گلتی سڑتی رہیں گی۔
وارث میر انڈر پاس کا نام بدل کر کشمیر انڈر پاس رکھ دیا گیا۔ کشمیر سے ہر پاکستانی کو محبت ہے۔ اگر ہماری پارلیمنٹ ایک قانون منظور کرے کہ پاکستان کا نام بدل کر کشمیر رکھ دیا گیا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گابلکہ ہم اپنے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں سے بھی کہیں گے کہ وہ ہجرت کر کے یہاں آ جائیں۔ پاکستان کی آبادی میں پہلے ہی کشمیری مہاجروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
بعض خبروں میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت لاہور کے کئی مقامات کو کشمیر سے منسوب کرنا چاہتی ہے۔ بسم اللہ کشمیر اسی طرح ملتا ہے تو پھر دیر کاہے کی۔ مگر وارث میر انڈر پاس کے نام میں تبدیلی کیلئے یہ عذر کافی نہیں۔ اسی لاہور میں نہرِ کے کئی انڈر پاسوں کے نام ممتاز شاعروں، ادیبوں اور اسکالروں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ اس میں ایک نام فیض احمد فیض کا ہے جن پر مبینہ طور پر غداری کامقدمہ چلا۔ ایک انڈر پاس چودھری رحمت علی کے نام سے ہے جس نے قائد اعظمؒ کو مغلظات سنانے کیلئے کتاب لکھی اور جس پر پاکستان میں پابندی عائد کر دی گئی۔ چودھری رحمت علی وہ شخص ہے جس نے لفظ پاکستان اختراع کیا۔ ناؤ آر نیور Now or Neverکے نام سے تاریخی کتابچہ بھی لکھا مگر اس کی آخری کتاب دی گریٹ بیٹرئیل The Great Betrayalنے چودھری رحمت علی کی لاش کو بھی پاکستان لانے میں رکاوٹ کھڑی کر دی۔ اگر اس چودھری رحمت علی کے نام سے ایک انڈر پاس موسوم ہے۔ چاکرا عظم رند کے نام سے بھی ایک انڈر پاس موجود ہے اور اگر کوئی مؤرخ اس شخص پر تحقیق کرنے بیٹھے تو وہ سر پکڑ کر رہ جائے گا کہ ا س نام کے کسی بلوچ لیڈر کا وجود بلوچ تاریخ سے نہیں ملتا۔ یہ ایک الف لیلوی کردار ہے۔
وارث میر اوراس کے بیٹے حامد میر کا گناہ کیا ہے۔۔ دونوں مزاحمت کی علامت ہیں۔ وارث میر نے ملک میں آمریت کیخلاف مزاحمت کی اور جمہوریت کا بول بالا کرنے کی جدو جہد میں حصّہ لیا۔ اس نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی،جس پر اس کے بیٹے حامد میر کو بنگلہ دیش نے ایوارڈ دیا،یہ ایوارڈ متنازعہ ہو گیا مگر71ء کے اس فوجی آپریشن کی مخالفت اکیلے وارث میر نے نہیں کی، مشرقی پاکستان کے اس وقت کے گورنر ایڈمرل احسن نے بھی کی اور احتجاجی طور پر استعفیٰ بھی دیدیا۔ اسی طرح اس آ پریشن کی مخالفت مشرقی کمان کے سربراہ جنرل یعقوب علی خان نے بھی کی اور وہ ڈھاکہ چھوڑ کر جی ایچ کیو چلے آئے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں میں کئی فوجی آپریشن ہوئے جن میں سے سب سے بڑا ضرب عضب کا تھا، ا سکی حمایت کے لئے کوئی سیاسی پارٹی تیار نہ تھی، حتیٰ کہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان آج بھی کہتے ہیں کہ وہ شروع ہی سے فوجی آپریشنوں اور جنگ بازی کیخلاف ہیں اور مذاکرات اور پرامن طور پر مسئلہ حل کرنے کے حق میں ہیں تو کیا وارث میر کے بعد ان سب لیڈروں اور شخصیات کو بھی قومی تاریخ سے ملیا میٹ کر دیا جائے گا۔ ہم کسی شخص کا نام اپنی تاریخ سے خارج بھی کر دیں تو کیا ا س کی سوچ کو بھی عوام کے ذہنوں سے کھرچا جا سکتا ہے۔سقراط کو زہر کے پیالے سے ہلاک کر دیا گیا مگر سقراط کی سوچ آج بھی زندہ ہے۔بھارت کی کوشش ہے کہ وہ کشمیر کو ایک جیل خانے میں تبدیل کر دے مگر وہ کشمیریوں کے جذبہ حریت کو قید میں نہیں ڈال سکتا۔ بھارت نے راہول گاندھی کو سری نگر کے ہوائی اڈے سے واپس بھجوا دیا مگر بھارت میں کشمیر کے ہم نواؤں کی سوچ پر پہرے نہیں لگا سکتا، متحدہ عرب امارات نے بھارتی ویر اعظم کو اپنے ملک کاا علی تریں اعزاز عطا کر دیا مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتاکہ کشمیر میں بھارتی فاشمزم کے اقدامات جائز ہیں۔ بھارت نے کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا مگر کشمیر میں لداخ کا بت کھڑا کرنے سے کشمیریوں کو تقسیم نہیں کیا جاسکا۔
وارث میر کا نام کسی تختی سے کھرچ بھی دیا جائے تووارث میر کی سوچ کو ذہنوں سے نہیں کھرچا جا سکتا، ہلاکو نے بغداد کے کتب خانے دجلہ میں پھینک دیئے،مگر مسلم فلسفے اور تحقیقات کا عمل ختم نہ ہو سکا ہم بھی وارث میر کی کتابوں اور مقالات کو دریا برد بھی کر دیں تو بھی وارث میر کی سوچ ابدلا آباد تک زندہ رہے گی۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرتی رہے گی آمریت کے خلاف تحریکوں کو گرماتی رہے گی، ایک تحتی سے ان کا نام کھرچ دینے سے ان کا نام تاریخ سے نہیں کھرچا جا سکتا۔ ویسے انڈر پاس کا نام بدل کر کشمیر انڈر پاس رکھنے والوں کو علم ہونا چاہئے تھا کہ وارث میر
بھی کشمیری ہی تھے۔
وارث میر نوائے وقت کے کالم نگار تھے۔ ان سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ تو سب کے سامنے ہے مگر نوائے وقت کے بانی حمیدنظامی کے نام سے ٹمپل روڈ کو منسوب کیا گیا۔ آج اس ٹپمل روڈ کی ایک چھوٹی سی گلی حمید نظامی کے نام سے منسوب رہ گئی ہے۔ میرے مرشد مجید نظامی کے ساتھ توا س قدر زیادتی کی گئی کہ چائنہ چوک سے چڑیا گھر تک کی لارنس روڈ کے چھوٹے سے ٹکڑے کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
روئیں تو کس کس کو۔ ماتم کریں تو کس کس کا!!