خبرنامہ

پنجاب کابینہ کا نواز شریف کو خراج تحسین……..اسداللہ غالب۔انداز جہاں

جس شخص کی گھر میں عزت ہو ،ا سے باہر سے بھی ہر جگہ عزت ملتی ہے، نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ان کا صوبہ ان کے ساتھ کھڑا ہے اور پنجاب کابینہ نے ان کی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔بلاشبہ نواز شریف ملک گیر مقبولیت کے حامل ہیں۔ ان کی پارٹی اسوقت بھی پنجاب ، بلوچستان، آزاد کشمیر ، بلو چستان اور گلگت بلتستان میں راج کر رہی ہے، صرف سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت نہیں مگر میری تجویز یہی ہے کہ سندھ کابینہ بھی جمہوریت اورسول بالادستی کے لئے ایسی ہی قرارداد منظور کرے جیسی پنجاب کابینہ نے کی ہے۔
میاں نواز شریف کا پنجاب سے تعلق نادرا کے ناطے سے ہے کہ ان کی رہائش یہاں ہے اور ان کی ولادت یہاں ہوئی، اسی شہر لاہور کی گلیوں میں وہ پلے بڑھے، تعلیم حاصل کرتے رہے اور میں گواہ ہوں کی سن پچاسی کے غیر سیاسی الیکشن میں کس طرح دن رات انہوں نے اسی حلقے کے ہر دروازے ر دستک دی تھی۔عوام ان پر گل پاشی کرتے تھے تو میں حیران رہ جاتا کہ آخرا س کی وجہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے وہ صوبے میں وزیر خزانہ تھے مگر عوام در اصل انہیں صوبے کا وزیرا علی دیکھنا چاہتے تھے، اسی حلقے سے وہ دوبار الیکشن لڑ کر وزیر اعلی بنے اور پھر اس حلقے نے انہیں تین بار وزیر اعظم بنایا۔ یہ ریکارڈ کسی اور پاکستانی سیاست دان کا نہیں، شاید ہی کسی بھارتی سیاستدان کا ہو۔
نواز شریف نے اقتدار میں آنے سے قبل کچھ خواب دیکھے تھے، اس نے اقتدار میں آ کر ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر دکھایا۔
یہ خواب تھے موٹر ویز کے، یہ خواب تھے عوام کی خوش حالی کے، یہ خواب تھے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے۔
آج پنجاب نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے، اس لئے کہ نوازشریف کا حلقہ انتخاب نواز شریف زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا ہے، اس حلقے سے بیگم کلثوم نواز ضمنی الیکشن لڑنے جا رہی ہیں ، وہ خود تو صاحب فراش ہیں مگر ان کی بیٹی مریم نواز انہی گلیوں میں، انہی دروازوں کے سامنے دستک دے رہی ہے جہا ں پچاسی میں نواز شریف سرگرم عمل تھے، اس وقت کوپر روڈ پر ان کاا نتخابی دفتر تھا اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اس دفتر کے مدا ر المہام تھے۔آج شہباز شریف اس صوبے کے مدارلمہام ہیں اور اپنے بھائی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اتفاق کا سبق کوئی ان دو بھائیوں سے سیکھے۔
اب یہاں اگلی نسل نے سیاست کی کمان سنبھال لی ہے۔مریم نواز نے انتخابی مہم کے آغاز میں ایک تاریخی فقرہ بولا ہے کہ دھاندلی، دھرنا،پانامہ، اقامہ سب بہانہ تھے نواز شریف کو نکالنے کے لئے۔اس فقرے نے دشمنوں کے دلوں کو چھید کر رکھ دیا ہے۔نواز شریف کے چاہنے والوں کو کوئی کیوں آزما رہا ہے، اس پر الزام وہ لگا رہا ہے جو بچوں سے اینٹھے گئے چندے کا حساب دینے کو تیار نہیں۔خیرات سے محلات تعمیر کرنے کا ہنر سکھانے کی ایک فیکلٹی عمران خاں کو اپنی نمل یونیورسٹی میں کھول لینی چاہئے۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو آؤٹ کر نے میں وہ کامیاب ہو چکے ہیں ، اب کہتے ہیں کہ شہباز کی کرپشن پر انہیں بھی حکومت سے نکلوا ؤں گا، شہباز میاں نے اسے ٹھوکواں جواب دیا ہے کہ اگر میرے خلاف کرپشن کا دھیلہ بھی ثابت ہوجائے تو عوام ان کاگریبان پکڑ لیں۔ ویسے تو کرپشن کا الزام نواز شریف کے خلاف بھی ثابت نہیں ہوا، اب نیب کوشش کر دیکھے، بیس برسوں میں اسے زرداری کے خلاف کچھ نہیں ملا تو نواز کے خلاف کیاملے گاا ور میں تو کہتا ہوں کہ اسحق ڈارا ور میرے دوست سعید احمد کے خلاف بھی کچھ نہیں ملے گا، شہباز میاں تو اس قدر دیانت دار واقع ہوئے ہیں کہ مجھے اپنا ذاتی دشمن بنا بیٹھے ہیں ، یہ ان کی بیورو کریسی کا کمال ہے جو شہباز میاں کو ان کے دوستوں سے دور کرر ہی ہے ۔ مگر میں تو شہباز شریف سے ناراض ہوں، بس ان کی سیاست کے ساتھ ہوں، ذاتی تعلقات ختم شد! وہ اپنے آپ کو چیف منسٹر سمجھتے ہیں اور ہم لوگوں کو کیڑا مکوڑا۔ تو ہم کیڑے مکوڑے اچھے اوروہ چیف منسٹر اچھے لگتے ہیں مگر میں پھر کہوں گا کہ وہ بلا کے دیانت دار ہیں ، جو کہانی انہوں نے لاہور اورنج ٹرین کی سنائی تھی، ا سنے مجھے ہی نہیں ، درجنوں اوور سیز پا کستانیوں کو بھی حیران کر دیا تھا جو کیپٹن شاہین بٹ کے گھر پر ایک ضیافت میں جمع تھے۔دنیا میں حکومت اور حکومت کے مابین کوئی معاہدہ ہو تو اس میں بڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر شہبازشریف نے چینی حکومت کے ساتھ ضد کی کہ وہ بڈنگ کے بغیر کوئی معاہدہ قبول نہیں کریں گے اور جب بڈنگ ہو گئی تو ا سکے بعد مزید نرخ کم کرنے کی ضد کی اور وہ بھی منوا لی۔ بھلا ایسا شخص کیسے کرپشن کرے گا جو آئندہ نسلوں پر کم سے کم بوجھ ڈال رہا ہو، ورنہ اس کی بلا سے ، وہ چینی حکومت کے من مانے نرخوں پر قرض لیتا اور اورنج ٹرین منصوبہ مکمل لر لیتا۔
الزام لگانا آسان ہے، سوشل میڈیاا ور ٹی وی چینلز پر ان الزامات کو اچھالا بھی جا سکتا ہے ا ور پھر جے آئی ٹی بھی بن جاتی ہے، دعوی تو یہ کیا جاتا ہے کہ اس جے آئی ٹی میں ایسے ماہر بیٹھے ہیں جو وائٹ کالر کرائم کی تفتیش کے ماہر یں، کیا خاک مہارت دکھائی ہے انہوں نے کہ نواز شریف یا اس کے کسی خاندان کے فرد پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام ثابت نہیں کر سکے ، بس اب مزید تفتیش ہو گی اور یہ تقتیش نیب کرے گا جو آج تک کے زرداری کے خلاف تمام الزامات میں ان کو بری کر چکا ہے۔کرپشن کو چھپانا فی زمانہ آسان کام نہیں، زرداری صحیحؓ تو کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے کرپشن کی ہی نہیں جا سکتی تو پھر شریف فیملی پر کرپشن الزامات کی بوچھاڑ کیوں۔ اور وہ بھی لا ولد پانامہ لیکس کی بنیاد پر۔ میں نے لاولد اس لئے لکھا ہے کہ پانامہ لیکس میں بھی محض الزامات ہیں، ثبوت ایک بھی نہیں اور یہ پانامہ لیکس والے ہماری کسی جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ میں پیش بھی نہیں ہوئے۔
اب لاہور میں ضمنی الیکشن کا دنگل ہے۔عمران خان بھی تیل مالش کر کے اکھاڑے میں موجود ہیں۔کوئی زیادہ دن باقی نہیں ، سترہ ستمبر سر پہ ہے اور الیکشن کا جادو سر چڑھ کے بولے گا، عمران خان کی حکومتی کارکردگی کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ اس ضمنی الیکشن میں اس کا بولو رام ہو جائے گا۔
عمران اس الیکشن کو عدلیہ اور شریف فیملی کے خلاف دنگل کہہ رہے ہیں، وہ عدلیہ کے نمائندے کب سے ہو گئے، کیا ہے تعلیم ان کی، کہاں سے عدلیہ کی کرسی سنبھال لی۔ کس عدلیہ نے انہیں اپنا مینڈیٹ دیا، کب دیا، کیسے دیا۔ایک ضمنی الیکشن میں وہ عدلیہ کو کیوں گھسیٹ رہے ہیں۔ یہ عدلیہ کی توہین ہے۔
پنجاب کابینہ نے نواز شریف کو خراج تحسین پیش کیا اور اچھا کیا۔حق بحق دار رسید، ملک کی سبھی حکومتوں کو نوازشریف کے حق میں قراردادیں منظور کرنی چاہیءں۔تاکہ لاہور کے ضمنی الیکشن کو واقعی ایک ریفرنڈم کی شکل دی جا سکے۔