پیرس میں دوسر ا جنم اور پاکستان میں دوسری موت
یہ تقدیرسے لڑنے اور تقدیر سے ہار نہ ماننے والے باہمت انسان کی کامیابیوں کے شاہنامے کا ایک ڈرامائی مگر سنہرا باب ہے۔
مایوسیوں میں گھرے نوجوانوں کے سامنے یہ امید کی کئی کہکشائیں روشن کرنے والی الف لیلیٰ ہے۔
ہر قدم پر ایک نیا موڑ اور سانپ اور سیڑھی والا کھیل اسے شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اپنے ہوش وہواس قائم رکھتے ہوئے منزلوں پر منزلیں پھلانگتا چلا جاتا ہے۔
مگرمیں ہتھیار پھینکتا ہوں کہ مجھ سے محمود بھٹی کی خود نوشت پوری کی پوری نہیں پڑھی گئی۔ نہ میری نظر ساتھ دیتی ہے اور نہ میری گردن کے پٹھے۔ ٹانگیں گھنٹوں اکڑوں بیٹھے بیٹھے سوج جاتی ہیں۔
میں اس پر صرف سرسری سی نظر ڈال سکا ہوں،میراتاثر وہی ہے جو میں نے کتاب پر پہلی نظر ڈالنے کے بعد بیان کیا تھا کہ یہ کتاب یا تو جھوٹ کا پلندہ ہے یاڈرامائی افسانہ یا کسی ہوش ربا فلم کااسکرپٹ جس میں چونکا دینے والے مناظر کی بھر مار ہے کہ وہ ایک غریب اور مفلس بچہ تھا۔ باپ نے بھی مارا ۔ ماں نے بھی مارکٹائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور بھائیوں نے تو اس کی جی بھر کے مرمت کی۔یہاں تک تویہ کسی بھی بچے کی کہانی ہو سکتی ہے مگر یہ کہ اس نے مایوسی میں پیٹ میں چھری گھونپ کر خود کشی کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی کیونکہ اس عمل میں اسے بہت درد محسوس ہوا۔ پھر اس نے بغیر درد کے خود کشی کا طریقہ سوچااور گھر میں جتنی بھی دوائیاں پڑی تھیں، ایک ساتھ ساری نگل لیں ،مگر جان پھر بھی نہیں نکلی۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی نری گپ بازی ہے ۔ بھٹی نے کالج میں داخلہ لینے کی بات کی ہے ۔ کالج کا نام نہیں بتایا مگر میری تحقیق ہے کہ وہ انیس سو تہتر تک گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کا طالب علمم رہا، مگراس دوران بھی اس نے نا قابل یقین حرکات کیں۔ ایسا کوئی راوین نہیں کر سکتا۔ ایم اے او کالج کے طالب علم روز کرتے تھے کہ ویگنیں لوٹتے تھے مگر بھٹی نے ایک گینگ تیار کیا جو ڈبل ڈیکر بسوں کی کمائی لوٹتا۔ میں اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوں مگر بھوک انسان کو ہر برے فعل پر مجبور کر دیتی ہے۔بھوک اور مار پٹائی کا ستایا ہوا بھٹی راتوں کومسجد میں سوتا،کبھی مولوی پکڑلیتا کہ تم نماز تو کوئی پڑھتے نہیں ہو۔ اسے بھوک زیادہ ستاتی تو وہ کسی نان چھولے و الے سے زبردستی پلیٹ چھین لیتا۔ سینما میں فلم دیکھنے کا شوق پورا کرنے کے لیے وہ گیٹ کیپر کو دوچار مکے رسید کرتااور ہال میں گھس جاتا۔
یہ تھی بھٹی کی وہ زندگی جو اس نے پاکستان میں گزاری۔ آخر اسے اپنے آپ سے گھن محسوس ہونے لگی۔ اس نے پاکستان کی اس زندگی کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ اس کی اپنے وطن میں پہلے جنم کا خاتمہ تھا۔
اس نے سوچا کہ وہ بیرون ملک قسمت �آزمائی کے لئے چلا جائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک ہارے ہوئے ، دھتکارے ہوئے نوجوان نے اپنے زور بازو سے کام لینے محنت مشقت سے ایک نئے جنم کی تیاری کی ۔ اس نے پیرس کا رخ کیا۔مگرکراچی ایئر پورٹ پر اس کا پرس ایک پولیس والا ڈرا دھمکا کر لے اڑا۔ پیرس ایئر پورٹ پہنچ کر اسے معلوم نہ تھا کہ جائے تو کدھرجائے۔ کوئی بھی ا س کا ہاتھ تھامنے والانہ تھا۔ وہاں اس کا ایک بڑا بھائی موجود تھا جس نے بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا۔بھٹی کو اچھی طر ح معلوم تھا کہ یہ پاکستان نہیں ہے جہاں وہ چھینا جھپٹی کر سکتا ہے۔ ہاں پلیٹ فارموں کے ٹھنڈے فرش پر وہ ضرور سو سکتا تھا جہاں رات کو ا سکی پسلیاں سردی سے جم جاتیں۔
بھٹی کی کتاب زندگی میں کئی موڑ آئے۔ وہ بھٹکتا رہا، بے سہارا گھومتا رہا۔اب میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کی قسمت نے پلٹا کیسے کھایا۔ یہ بھی کوئی انہونی ہوئی ہو گی۔ میں پوری کتاب پڑھ لیتا تو قارئین کو بتا سکتا تھا کہ بھٹی نے پیرس میں روزی روٹی کا انتظام کیسے کیا اور وہ ککھ پتی سے لکھ پتی بلکہ کروڑ پتی کیسے بن گیامگرجیسے بھی بنا،وہ بھی کوئی ڈرامائی قصہ ہو گا، بھٹی کی زندگی قدم قدم پر ڈراموں سے اٹی ہوئی ہے۔بس میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھٹی ایک باہمت اور باحوصلہ انسان ثابت ہوا، اس نے مشکلات کے سامنے ہار نہیں مانی۔ اس نے پاکستان کی طرح ،پیرس میں چور اچکا اور اٹھائی گیرا بننے کی کوئی کوشش نہیں کی۔پاکستان میں وہ ان جرائم کی سزا سے بچ گیا تھا مگر پیرس میں خلائی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں اور انسان گرفت سے بچ نہیں سکتا ۔ا س لئے بھٹی کے سامنے محنت اور ہمت کے سوا کوئی آپشن نہ تھا۔ایک باراس کا کاروبار عروج پر پہنچا مگرا س کے گودام کو آگ لگ گئی۔ وہ پھر زیرو ہو گیا۔ کبھی زیرو ، کبھی ہیرو۔ یہ ہے اس انسان کی تقدیر۔ مگر وہ تقدیر سے لڑتا بھڑتا اپنا راستہ بناتا رہا۔
میں نے کتاب ایک طرف رکھ دی ہے ۔کئی ہفتوں سے میں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا مگر مجھے قارئین سے کیا گیا وعدہ یاد ہے کہ میں ا س کتاب سے بھٹی کی حقیقت جاننے کی کوشش کروں گا۔
میں ہار مانتا ہوں ۔ مجھ سے پوری کتاب نہیں پڑھی جاتی۔ میں نے بھٹی سے کوئی ادھار نہیں کھایا کہ ضرور مشقت کروں اور پوری کتاب پڑھوں۔میں نے اس کے آخری باب کو کھول لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں بھٹی نے اپنی دولت کا گوشوارہ درج کیا ہو گا مگر یہ تو حیرتوں کا ایک طلسم کدہ ہے۔بھٹی کہتا ہے کہ ایک روز اسے کسی پرانے دوست نے فون کیا۔ وہ پیرس میں تھا ۔ بہت لمبی بات چلتی رہی۔ بھٹی نے سو چا کہ ا س کا دوست ا سے کوئی المناک خبر سنانے کے لئے ذ ہنی طور پر تیار کرر ہا ہے۔ یہ خبر کیا ہو سکتی تھی۔ یہی نا کہ بھٹی کی ماں فوت ہو گئی ہے مگر جب بھٹی نے اپنے دوست کو کریدا کہ اگر فون کیاہے تو کس مقصد کے لئے۔ دوست نے لمبا سانس بھرا اور کہنے لگا کہ میرے پاس ایک راز تھا جو میں تمہیں بتانے آیا ہوں اور راز یہ ہے کہ تم جن لوگوں کو والدین سمجھتے تھے۔ انہوں نے تمہیں کسی سے لے کر پالا تھا۔بھٹی کے ہاتھ سے فون گر گیااور وہ واش روم میں جا کربلک بلک کر رونے لگا۔ وہ اپنی شناخت سے محروم ہو گیا تھا۔ اگر وہ لے پالک تھا تو ا سکے والدین کون تھے اور کہاں ہیں‘ وہ اس راز کو آج تک نہیں پا سکا۔
بھٹی اس صدمے سے نکل نہیں پایا تھا کہ اس نے پاکستان میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ اسے اپنا وطن پھر سے یاد آگیا تھا ۔ وہ لوگوں کو علاج معالجے کی اعلیٰ درجے کی سہولتیں فراہم کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ بھی اس کا ایک گناہ بن گیا۔ اسے چور کہا گیا۔ ڈاکو کہا گیا۔ لٹیرا کہا گیا۔ اس کا پاسپورٹ ضبط کرنے کا حکم دیا گیا۔ اسے ہتھکڑیاں لگانے کی دھمکی دی گئی۔بھٹی نے سوچا کہ وہ پاکستان میں ایک بار پہلے بھی موت کا مزہ چکھ چکا ہے۔ اب دوسری مرتبہ پھر اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے اس کے وقار کا جنازہ اٹھا۔ اور اسے بے عزتی کے کفن میں لپیٹ کر دوسری مرتبہ اپنے ملک کی کسی بے نام قبر میں دفن دیا گیا۔
بھٹی اب پھر پیرس میں ہے۔ اس کی مردہ روح پاکستان کی کسی بے نام قبر میں تڑپ رہی ہے۔بھٹی ہر وقت ایک دعاکرتا ہے۔ یہ دعا فارسی میں ہے:
بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن
اجابت از در حق بہر استقبال میں آید
مظلوموں کی آہ سے ڈرو کہ جیسے ہی وہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو دربار الٰہی سے دعا کی قبولیت ان کا استقبال کرتی ہے ۔بھٹی اپنی دعا کی قبولیت کامنتظر ہے۔ اس کے ہاتھ خدائے بزرگ و بر تر کے سامنے پھیلے ہوئے ہیں۔