خبرنامہ

پیرس میں نیا جنم، سب جھوٹ مگر سب سچ….اسداللہ غالب

پیرس میں نیا جنم، سب جھوٹ مگر سب سچ

وہ افق پر چمکنے والی کہکشاؤں کا ایک پر نورستارہ نہیں تھا بلکہ میں اسے ایک الگ کہکشاں کی طرح روشن روشن اور جگ مگ کرتے دیکھتا تھا۔ اور میری آنکھیں چندھیا کر رہ جاتیں۔
پتہ نہیں اس نے اپنے آپ کو کیوں گھٹا کر بیان کیا۔ ایسا تو ملامتی صوفی کرتے ہیں یا مرزاغالب نے کہا تھا کہ گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہ ہوا۔
اتنا بڑا نام ، اتنی بڑی شخصیت مگر اس نے بتایا کہ وہ پہلے جنم میں چور، اچکا، ڈاکو،لٹیرا،دغا باز اور نہ جانے کیا کچھ تھا۔ یہ اس کے اس جنم کی کہانی ہے جب وہ بیس سال تک پاکستان میں رہا۔ پھر وہ قسمت آزما ئی کے لئے پیرس چلا گیاا ور تقدیر اس پر اس قدر مہربان ہو گئی کہ اس کا شمار دنیا کے نامور لوگوں میں ہونے لگا۔دولت کی دیوی اس پر دل ہار بیٹھی ۔ یہ اس کے دوسرے جنم کی کتھا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ جس ملک کو بھول گیا تھا، اس کی یاد اس کے قلب و ذہن میں انگڑائیاں لینے لگی۔ یہ تیسرا جنم اسے راس نہیں آیا، پہلے وہ اپنے �آپ کو چور، اچکا،لٹیرا اور ڈاکو کہتا تھا مگر اب اسے دوسرے انہی ناموں سے پکارنے لگے توا س کے دل پر کلہاڑے سے چلتے ہیں۔اس کے خوابوں کا دیس اس کو وہ عزت دینے کو تیار نہیں جو اسے غیروں سے ملی۔ مگر وہ خاطر جمع رکھے نئی حکومت اوور سیز پاکستانیوں کے قدموں میں پلکیں بچھانے کو تیار ہے۔
طاہرمجمود بھٹی دنیا کاایک نامور فیشن ڈیزائنر ہے،میرے لئے یہ نام الف لیلی کا ایک قصہ ہے۔یونانی اساطیر کاایک دیو مالائی کردار۔ میں اسے جاننا چاہتا تھا،میں اس سے ملنے تین بار پیرس گیا مگر ہر کسی نے بتایا کہ اس سے وقت لیناآسان کام نہیں۔ میں ہر بار ناکام لوٹ آتا۔میں اس کا کیوں گرویدہ تھا ۔ا س لئے کہ وہ ایک کامیاب تریں انسان تھا۔ اس کا ستارہ عروج کی طرف سفر کر رہا تھا۔میں اس کی ا س شاندار کامیابی کے پیچھے چھپے راز کی تلاش میں تھا۔
اب میں پھر پچھلے کئی روز سے اسے تلاش کر رہا ہوں کہ وہ اچانک خبروں میں آگیا ہے۔ اس کی فلموں کے ٹوٹے سوشل میڈیا پر لاکھوں کی تعداد میں شیئر کئے گئے ہیں۔ مگر وہ میری دسترس سے دور، بہت دور نکل گیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس کی کتاب زندگی کا ایک نیا مگر تلخ تریں باب ایک کرنل صاحب سے سنا جا سکتا ہے ۔ مجھے ڈیڑھ گھنٹہ اس کرنل کے دروازے کے سامنے ایک کرسی پر اکڑوں بیٹھنا پڑا۔ لیکن میں اپنی دھن کا پکا تھا، میں اس ضد پر قائم تھا کہ افسانے سے زیادہ دلچسپ اور حیران کن شخصیت کو جانے بغیر ٹلوں گا نہیں۔آخر میرے ہاتھ اس کی لکھی ہوئی کتاب آ گئی۔ اب مجھے کسی اور چیز کی حاجت نہ رہی۔کتاب پر محمود بھٹی کا نام مصنف کے طور پر لکھا ہے مگر جیسے جیسے میں نے اس کے اوراق پلٹے تو مجھے پتہ چل گیا کہ اس کتاب کوتو کاتب تقدیر نے لکھا ہے۔ آپ دل میں کہہ رہے ہوں گے کہ میں نے بینائی کھو جانے کے باجود کتاب کیسے پڑھ لی۔ آپ کا شک بالکل درست ہے۔ میں نے یہ کتاب اپنے پوتے عبداللہ کو دی جو ٹائیفائڈ کے علاج کے لئے ایک ہسپتال میں پچھلے بارہ روز سے میرے ساتھ جا رہا ہے۔ اس نے بیٹھے بیٹھے کتاب کے پچاس صفحے پڑھ ڈالے اور چسکے لے لے کر اس نے مجھے بھٹی کی داستان سنانا شروع کی۔ مگر میں سنی سنائی پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا، ہو سکتا ہے میرا پوتا مجھ سے مذاق کر رہا ہو اور جو کچھ کتاب میں لکھا ہو،اس کی بجائے اپنی طرف سے کوئی کہانی گھڑ رہا ہو، یہ میرا وہم نہیں بلکہ یقین تھا کہ عبداللہ مجھے جو کچھ سنا رہا تھا، اس پر مجھے ہر گز یقین نہ تھا۔ میں گھر واپس آیا، اپنی مرلن میگنی فائر مشین آن کی ، اس کے نیچے کتاب رکھی اور اس کے ایک ایک لفظ کو غور سے پڑھنے لگا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی، عبداللہ نے مجھے جو خلاصہ سنایا، سب کچھ ہو بہو ا س کتاب میں تحریر تھا، آخر کاتب تقدیر کی لکھی ہوئی کتاب میں جھوٹ کیسے ہو سکتا ہے، میں نے چھ گھنٹے لگائے۔ صرف پہلے تین باب پڑھ سکا۔ میری گردن اکڑ گئی تھی۔ مجھے پہلے ہی سروائیکل کی تکلیف ہے۔ کرسی پر مسلسل بیٹھے رہنے سے میری ٹانگیں بھی دکھنے لگیں، ریڑھ کی ہڈی میں کھچاؤ پیدا ہو گیا۔ اور میں ہار گیا۔میں اس کتاب کو پڑھوں گا، قطرہ قطرہ ، لفظ لفظ سطر سطر، پڑھوں گا، میں اکہتر برس میں اپنی بچی کھچی نظر اس کی نذر کردوں گا حالانکہ مجھے اس نظر کو کام میں لا کر بانی پاکستان قائد اعظم پر ایک شایان شان ویب پورٹل بنانی تھی مگر چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں، نہ وسائل ہوں گے،نہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ میں قیامت کے روز قائد اعظم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گا اور ان کے اس سوال کا جواب بھی نہ دے پاؤں گا کہ اے روسیاہ تجھ سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ مگر اب مجھے بھٹی کی کتاب پڑھنی ہے۔ جس نے قائد کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن اور بلندکیا ہے ۔ جب اسے مکمل پڑھ لوں گا تو ایک بار پھر اپنے کمپیوٹر پر بیٹھوں گا اور جو کچھ اس کتاب میں لکھا ہے،اس کا خلاصہ بیان کروں گا ، میں بتاؤں گا کہ ایک انسان۔۔ ککھ سے لکھ پتی۔۔ کیسے بن سکتا ہے۔ایک انسان پاکستان میں ماں باپ بھائیوں کی جھڑکیاں کھانے، فاقے کاٹنے، چوریاں کرنے اور ڈاکے ڈالنے کے باوجود کیسے بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ اس کی تصویر دنیا کے ہر اخبار کے صفحہ اول کی زینت کیسے بن سکتی ہے اورا س پر وہ فلم کیسے بن گئی جس کا نام ہے۔۔ میں جھوٹ بھی بولوں گا تو اس میں صداقت ہو گی۔۔اس فلم کو پچاس لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں، اسے فرانس کے مشہور زمانہ فلمی میلے میں دوسرا بڑا ایوارڈ ملا۔ میں لکھوں گاکہ ققنس اپنی راکھ سے دوبارہ کیسے جنم لے سکتا ہے۔ میں بتاؤں گا کہ وہ بھٹی جس کی اپنے ملک میں موت واقع ہو گئی تھی، جس کی قسمت سر بمہر ہو گئی تھی ،اس نے دیار غیر میں جا کر دوسرا جنم کیسے لیااور میں یہ بھی بتاؤں گا کہ اب اسی انسان کو پاکستان میں تیسرا جنم لینے سے کیسے روکا جا رہا ہے۔
پہلے تو میں یہ بتا دوں کہ مجھے بھٹی کی کتاب میں لکھا ہوا سب کچھ جھوٹ لگتا ہے۔ یہ کیسے ہو گیا کہ مانگ تانگ کر روٹی کے لقمے کھانے ولا ارب پتی بن جائے۔یہ کیسے ہو گیا کہ ماں کی جھڑکیوں ، باپ کے ٹھڈوں اور سگے بھائیوں کی نفرت کے باوجود بھٹی گورنمنٹ کالج تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گیا ، اور یوں مجھے اپنے ایک راوین فیلو کی کہانی میں مزید دلچسپی پیدا ہو گئی۔مگر میں نے اپنے ذہن سے پھر ایک سوال پوچھا کہ بھٹی کو جھوٹ بولنے کی ضرورت کیوں پڑ گئی ۔ وہ بڑا انسان بن گیا تو بس یہ کہتا کہ پدرم سلطان بود، کہ وہ تو جدی پشتی سے رئیس ابن رئیس ہے۔اس نے اپنے پیٹ سے کپڑا کیوں اٹھایا۔اپنے دکھوں کے افسانے کیوں لکھ دیئے۔اپنے زخموں کو کیوں چھیلا۔
میں نے کچھ اور کامیاب لوگوں کی زندگی پر نگاہ ڈالی، ان کی ابتدائی زندگی بھی مشکلات سے لبریز تھی۔نیلسن منڈیلا کو اپنی جوانی کا پورا عرصہ جیلوں میں بسر کرنا پڑا ۔بھٹی کے سامنے بھٹو کی مثال بھی ہے جسے بھٹو بننے کے لئے پھانسی کے پھندے کو چومنا پڑا۔بھٹی کو یہ بھی پتہ تھا کہ پاکستان کا صدر بننے والا آصف علی زرداری بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک کرتا تھا۔
مگر کیا ہر چور اچکا، اٹھائی گیرا،فاقوں کا شکار رہنے والا، ماں باپ اور بھائیوں کی نفرت کا نشانہ بننے والا بھٹی بن سکتا ہے۔جب وہ پیرس جانے کے لئے جہاز میں سوار ہونے لگا تو اس کی جیب میں جو چند سکے تھے ، وہ ایک پولیس والے نے اڑا لئے۔وہ پیرس اترا تو اس کی جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہ تھی ، بس اس کے سر پرکپڑوں سے بھرے دو چار صندوق تھے اور اسے کئی ٹھٹھری راتیں ریلوے اسٹیشنوں پر گزارنا پڑیں۔بھٹی نے ان مشکلات اور�آزمائشوں کو کیسے سر کیا۔ یہ میں تب بتا سکوں گا جب میں اس کی کتاب کو پورا پڑھ لوں گااور میرا عزم ہے کہ میں یہ کتاب پڑھ کر چھوڑوں گا خواہ میرا سروائیکل پرابلم میری جان کا دائمی اور لاعلاج روگ ہی کیوں نہ بن جائے، میں ا س کتاب کو پڑھوں گا خواہ میری آنکھ کا رہا سہا نور بھی کیوں نہ نچڑ جائے۔ میں اپنے ملک کے مایوس، دکھی نوجوانوں کو بتاؤں گا کہ حوصلہ کیسے بلند رکھنا ہے، ہمت کیوں نہیں ہارنی، آس کی ڈوری کیوں نہیں ٹوٹنے دینی۔
اور میںیہ بھی بتاؤں گا کہ بچپن میں چوری ڈاکے میں ملوث بھٹی آج بھی چورا ور ڈاکو کیوں کہلاتا ہے۔
میں اس کے اصلی گناہوں کو جانتا ہوں ۔ میں ایک حقیقت کی تہہ تک پہنچ گیا ہوں کہ بھٹی نے پاکستان میں ایک مہنگا تریں ہسپتال کیوں بنایا، وہ اپنے ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا تو وہ ہزاروں ایسے کام کر سکتا تھا جن کی وجہ سے وہ ایدھی سے بڑامرتبہ پاتا۔ مگر اس نے سٹیٹ آف دی �آرٹ ہسپتال بنایا، اس میں کئی کئی کروڑ کی مشینری نصب کی۔ اس نے فائیو اسٹار ہوٹل سے چار گنا چمکدار پرائیویٹ کمرے تعمیر کروائے ۔
یہ ایک راز ہے۔
اس راز کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضروت نہیں۔ بھٹی کی کوشش ہے کہ وہ ا س ملک کے دولت مند طبقے کو علاج کی ہر وہ سہولت اسی ملک میں فراہم کر دے تاکہ امیرا ور دولت مند طبقے کو ڈالروں کی بوریاں لے کر باہر کے ہسپتالوں میں نہ جانا پڑے۔ آپ بھی اس راز کو سمجھ گئے ہوں گے کہ ایک ایساملک جس کے پاس اس وقت صرف ڈیڑھ ماہ کے لئے ڈالروں کا ریزرو باقی ہے،اور ڈالر کی اڑان ہے کہ قابو سے باہر ہے۔ بھٹی نے دولت مند وں کو بیرونی معیار کا علاج فراہم کر کے خزانے کے لاکھوں نہیں، اربوں ڈالر باہر بھجوانے سے بچائے ہیں۔ یہ ڈالر آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر نیم بے ہوش ہماری معیشت کی آخری امیدہیں۔
بھٹی کی ا لف لیلی سے حیران کن اور دلچسپ کہانی ایک کالم میں نہیں سما سکتی۔ کتاب پڑھ لوں جو کہ بینائی سے محروم قلم کار کے لئے مشکل تریں کام ہے تو میں بتاؤں گا کہ ہر موڑ پر ٹھوکریں کھا نے و الا بھٹی کس طرح نام پیدا کر سکتا ہے۔آپ بھی حوصلہ نہ ہاریں ، محاورہ ہے کہ ہمت کرے انساں تو ہوکیا نہیں سکتا، بس جذبہ اورجنون چاہئے ، اسی جنون سے سرشار فرہاد نے پہاڑوں کو چیر کر جوئے شیر بہا دی تھی۔