پیرس کے بھٹی کو اہل علم کا خراج تحسین…اسد اللہ غالب
محمود بھٹی اپنی فریاد سنانے کے لئے بدھ کو پاکستان پہنچ رہے ہیں، وہ اسی روز ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔
سابق چیف جسٹس کیا ریٹائر ہوئے کہ ان کیبارے میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔مؤرخ البتہ توازن اور سنجیدگی کے ساتھ ان کے کردار کا جائزہ لے سکے گا۔ اس وقت تو ہر کوئی اپنے بدلے اتارنے کی کوشش میں ہے۔ ہر ایک کی زبان کھل گئی ہے۔ چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے یہ سب خاموش تھے ۔مگر اب تو نئے چیف جسٹس نے بھی اپنا کردار مختلف طریقے سے ا دا کرنے کا اعلان کر دیا ہے تو جو لوگ سابق چیف جسٹس سے خفا تھے یا ان کی خفگی کا سامنا کر چکے تھے، وہ بھی دل کی بھڑاس نکالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں علم کہ محمود بھٹی اپنی پریس کانفرنس میں کیا کہتے ہیں مگر اللہ گواہ ہے کہ میں پہلے دن سے انہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ حوصلہ نہ ہاریں اور چیف جسٹس کے ریمارکس کو دل پر نہ لگائیں۔ اور پاکستان میں جو سرمایہ کاری کر رہے ہیں خاص طور علاج کی جدید تریں سہولتیں فراہم کر رہے ہیں ، ان کا سلسلہ جاری رکھیں۔ میں نے ان کی دل جوئی کے لئے درجن بھر کالم لکھے ۔ ایک طرف حکومت اوور سیز پاکستانیوں کو مدد کے لئے پکار رہی ہے۔ دوسری طرف انہیں لعن طعن ۔ میں نے محمودبھٹی سے یہ بھی کہا کہ انہیں اللہ نے عزت دی جو کوئی نہیں چھین سکتا، اللہ ہی اس عزت کو قائم و دائم بھی رکھ سکتا ہے۔ محموو بھٹی ایک عام پاکستانی نوجوان تھے۔ رزق کی تلاش میں باہر گئے ۔ وہاں ویسی ہی سختیاں بردازشت کیں جونارکین وطن کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔مگر پھر اللہ نے انہیں نواز ااور بے اندازہ نوازا ۔ وہ فرانس میں بھٹی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ دنیا کے ٹاپ فیشن ڈیزائنر تھے اور ایک عالم میں ان کا چرچا ہوا،۔ ان کی دھوم مچی۔پھر انہوں نے اپنی زندگی پر ایک کتاب لکھی اور ان پر فلم بھی بنی ۔ دنیا کے فیئشن میگیزن بڑھ چڑھ کر ان کی تصاویر شائع کر رہے تھے،۔ ان کی مدح سرائی کی جا رہی تھی ، ان کے قصیدے لکھے جا رہے تھے۔ ان کے شاہنامے مرتب کئے جا رہے تھے،۔ اس دنیا میں انسان کو دولت اورعز ت چاہئے ، دونوں نعمتیں انہیں حاصل ہو گئیں مگر ایک لمحہ وہ بھی آیا جب سابق چیف جسٹس سے ان کاآمنا سامنا ہوا جس میں انہیں بہت کچھ سننا پڑا۔ وہ کچھ سننا پڑا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ سب کچھ سن کر ان کا ذہن چکرا گیا کہ وہ کیا جرم کر بیٹھے ہیں ۔ کیا یہ جرم ہے کہ پاکستان میں ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے کا ایک جدید تریں ہسپتال بنایا جائے یاا س میں سرمایہ کاری کی جائے، چلئے اب یہ باتیں تو خود محمود بھٹی پریس کانفرمنس میں کریں گے مگر میں پھر کہوں گا کہ وہ غصہ تھوک دیں اور انہیں خدا نے جو عزت اور دولت اور شہرت عطا کی ہے،اس کا ہر دم شکر اد اکریں۔ ان کی کتاب میں نامور اہل قلم نے محود بھٹی کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ میں تو ادنی قلم کار ہوں مگر امجد اسلام امجد ایک مہان ادیب، شاعر، دانشور اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ان کے سیریل وارث نے امرتسر کی گلیاں ویران کر دی تھین ۔لوگ ان کے سیریل کی اگلی قسط کا بے تابی سے انتظار کرتے تھے، میں نے یہ ڈرامہ کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔ اس کا ایک ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ نکل گیا تھا۔ یہی امجد اسلام امجد جب محمود بھٹی کی کتاب کے دیباچہ لکھنے کے لئے قلم پکڑتے ہیں تو ان کے لکھے کو سند مانا جائے کہ جو کچھ امجد اسلام امجد نے لکھا ہے، وہ ہر غٖرض اور لالچ سے بالاتر ہو کر لکھا ہے اور صرف سچ لکھا ہے۔ سچ کے سوا کچھ اور نہیں لکھا۔ محمو دبھٹی کو ا اس کے بعد کسی اور کی طرف سے تعریف نہیں چاہئے ۔ دنیا میں ایک انسان نے ان کی عزت نہیں کی تو ا س کا مطلب یہ نہیں کہ بھٹی سب کی نظروں میں اپنی عزت کھوبیٹھے۔ نہیں ایسانہیں، دیکھئے امجد اسلام امجد نے خلوص دل سے لکھا ہے کہ پیرس میں نیا جنم نامی کتاب میں طاہر محمود بھٹی ایک بہادر، صابر اور پر عزم انسان کے طور پر ابھرتے ہیں جس نے زندگی کی تلخیوں کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان کے اندر سے راستہ بناتا ہوا اس منزل تک پہنچا ، وبظاہر اس جیسے تعلیم اور وسائل رکھنے والے شخص کے لئے موہوم سا خواب لگتا ہے۔بھٹی نے اپنے مشکل حالات سے ہار نہیں مانی، بلکہ انہوں نے اپنی ہمت اورا رادے کو قائم رکھا، وہ اپنی ہمت اور مستقل مزاجی سے زینہ بہ زینہ آگے بڑھتے رہے۔اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ایک پر عزم انسان نے تقدیر کے چیلنج کا بہہادری ا ور مستقل مزاجی سے مقابلہ کیا۔محمود بھٹی کی داستان حیات تازہہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ بھٹی نے جرات مندانہ مثال قائم کی ہے۔ ان کی کتاب پیرسن میں دوسرا جنم قارئین کے اندر زندہ رہنے کے عزم کو مہمیز لگاتی ہے۔ یہ کتاب مایوس نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
بھٹی کی کتاب کا ترجمہ میرے عزیز دوست مظفر محمد علی نے کروایاا ور پھر اسے اپنے ادارے سے شائع کیا۔مظفر محمد علی ایک پیدائشی ادیب اور دانش ور تھے۔ وہ ایک مضطرب اور بے قرار روح کے مالک تھے مگر لگتا ہے کہ ا س کتاب نے انہیں بھی نیا حوصلہ بخشا۔ وہ کتاب کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کتاب کسی انسان کے دوسرے جنم کی ایسی حیران کن داستان ہے جس پر کبھی کبھی افسانے کا گمان ہونے لگتا ہے۔بھٹی نے کس طرح ایک اجنبی معاشرے میں اپنی شناخت بنائی، یہ ایک حیران کن سفر ہے اروا س کتاب کا قاری بھی مطالعے کے سفر میں حیرتوں میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ کتاب ایک بے چہرہ شخص کی کہانی ہے جس نے عالم گیر شہرت حاصل کی اور اپنے وطن کا نام بھی روشن کیا۔بھٹی کی کہانی مایوسی کے اندھیروں میں امید کا چراغ روشن کرتی ہے، اوریہی بات کتاب کا سب سے بڑا حسن ہے۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھٹی پر ایک کتاب اور لکھوں جس کا عنوان ہو پاکستان میں دوسرا جنم۔میر پختہ ایمان ہے کہ بھٹی نے جو بھی شہرت کمائی اور اپنانام پید اکیا، پاکستان میں لوگ اسے بھول بھال گئے تھے۔مگر لاہور کے ڈیفنس میں قائم ایک جدید تریں ہسپتال میں اسے ایسی ٹھوکر لگی کہ وہ پھر لڑکھڑا گیا۔ چکرا گیا مگر اس ٹھوکر نے اسے ایک نئی زندگی دی اور آج کی نسل کے سامنے بھٹی کا نام لیا جانے لگا۔ یہ پاکستان میں ا س کادوسرا جنم ہے۔ پاکستان کے لوگ اس کے ام سے دوبارہ آشنا ہوئے اور اس کی دکھ بھری زندگی کے سارے نقوش ایک بار پھر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لہرا گئے۔ میں کہتا ہوں کہ اس ٹھوکر نے بھٹی کو اپنے وطن میں شہرت کی نئی بلندیوں سے ہمکنار کر دیا ہے ۔ رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد، بدھ کے روز پیرس کا بھٹی پاکستان کے ایک بیٹے کے طور پر فریاد کرتا نظرآ ئے گا اور لوگ اس کی زندگی کے ان گوشوں سے ایک بار پھر متعارف ہوں گے جب وہ اندھیروں میں ڈوبا ہو اتھا ،مایوسیوں میں گھراہو اتھا ، بے بس اور بے یارو مدد گار تھا مگر پھر اس کے اندر ایک فولادی انسان نے جنم لیا،وہ پیرس کابھٹی مشہور ہو گیاا ور لاہور میں ا سے ٹھوکر لگی ، ا س سے وہ پاکستان کا قابل فخر بیٹے کے روپ میں سامنے آیا ، بھٹی رنجیدہ ہے ۔ دل شکستہ ہے مگر میں اس کے نئے روپ کو چومتا ہوں ، اسے سلام پیش کرتا ہوں