خبرنامہ

پی آئی او کا گناہ۔۔اسداللہ غالب۔۔۔انداز جہاں

فوج میں چین آف کمانڈ ہے، سول میں بھی وہی چین آف کمانڈ ہونی چاہئے ، فوج میں افسر بالا کے حکم کی خلاف ورزی کا سوچانہیں جا سکتا تو پی آئی او کسی حکم سے سرتابی کیسے کر سکتا ہے ۔
اس اصول کی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان پی آئی او کے خلاف انضباطی کاروائی کو روکنے کا حکم جاری فرمائیں۔
میں ایک صحافی کے طور پر ڈان لیکس کے معاملے پر شروع سے گہری نظر رکھے ہوئے ہوں۔میں نے پاکستان کے دو بڑے اخباری گروپوں کی ٹاپ پوزیشن پر کام کیا ہے،اپنے تجربے کی روشنی میں عرض کروں گا کہ اس مسئلے کو شروع ہی سے مس ہینڈل کیا گیا۔
اخبار نے ایک خبر شائع کر دی۔اس پر فوج نے شدید رد عمل کاا ظہار کیا اور سات روز کے اندر مجرم کا سراغ لگانے کا مطالبہ کیا۔ میں فوج کا حامی تصور کیا جاتا ہوں، اور مجھے اس سے انکار نہیں، اپنے ملک کی فوج کا حامی ہوں، کسی دوسرے ملک کی فوج کا تو حامی نہیں ہوں مگر جب متعلقہ اخبار بار بار اقرار کر رہا تھا کہ اس کی خبر درست ہے تو پھر مزید سراغ لگانے کا مطالبہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔میں اپنی بات چند مثالوں سے آگے بڑھانے ی کوشش کروں گا۔ نوائے وقت میں محمد رفیق ڈوگر نے حمودالرحمن کمیشن کے حوالے سے ایک خبر دی، جس پر خبر میں زیر بحث جنرل صاحب بر افروختہ ہو گئے ، حکومت نے مطالبہ کیا کہ ڈوگر صاحب کو اس کے حوالے کر دیا جائے، جس پر میرے مرشد محترم مجید نظامی صاحب نے جواب دیا کہ اخبار کا مالک اور ایڈیٹر میں ہوں ، ڈوگر صاحب نہیں ، اس لئے خبر کی اشاعت ہر لحاظ سے میری ذمے داری ہے، گرفتاری مقصود ہے تو میں حاضر ہوں ، مجھ پر مقدمہ چلا نے کا شوق پورا کر لیجئے۔ اس پر حکومت کو مزید کاروائی کی ہمت نہ پڑی۔
میں نے ایک خبار میں نوابزادہ نصراللہ خان کے انٹرویو پر مبنی خبر دی، نوبزادہ ان دنوں نظر بند تھے، حکومت کو غصہ آیا کہ ایک جیل میں بند لیڈر تک میں کیسے پہنچ گیا، چنانچہ میرے اوپر جیل توڑنے کا مقدہ قائم کر دیا گیا اور خبریں چھپتی رہیں کہ خان گڑھ پولیس کا دستہ میری گرفتاری کے لئے لاہور آ رہا ہے، میں صرف ا س کا انتظار کر سکتا تھا۔ مگر ایک روز خبر شائع ہوئی کہ نوابزادہ کا انٹرویو جعلی ہے اور یوں ا س مقدمے کی فائل ٹھپ کر دی گئی۔
جنرل ضیا ہی کے دور میں ایک انگریزی اخبار میں جنرل صاحب کے بارے میں گالی چھپ گئی، اس پراخبار کو بند کر دیا گیا۔ میں جن دنوں اردو ڈائجسٹ اور زندگی کے ادارے میں کام کر رہا تھا تو اس ادارے کے مالکان اور ایڈیٹڑوں کے خلاف بھٹو حکومت نے لا تعداد مقدمے قائم کئے ا ور ان مقدموں میں فوجی عدالتوں سے سمری ٹرائل کے بعد سزا بھی سنائی گئی۔اسی ادارے کے ایک جریدے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کوٹ کے خلاف اداریہ چھپا جس پر خود متعلقہ چیف جسٹس نے توہین عدالت کا مقدمہ سناا ور سزا بھی سنائی۔
نوائے وقت اور ڈان کو بھی ایک مرتبہ توہین عدالت کے الزام میں ہائی کورٹ طلب کیا گیا، ہائی کورٹ کا پورا بنچ اس کیس کی سماعت کر رہا تھا، مرشد مجید نظامی اور نثار عثمانی اپنے اپنے اخبار کی نمائندگی ا ور جواب دہی کے لئے کمرہ عدالت میں صبح سویرے ہی سے موجود تھے، نظامی صاحب نے مجھے بھی وہیں بلا لیا تاکہ کسی بھی صورت حال میں وہ مجھے ضروری ہدایات دے سکیں۔عدالت نے پتہ نہیں کون کون سے کیس سننے شروع کر دیئے ، پھر جج صاحبان چائے کے وقفے کے لئے اٹھ گئے، اس کے بعد پھر وہی الا بلا کے مقدمے ، مگر نوائے وقت ا ور ڈان کی باری نہیں آ رہی تھی، آخرنظامی صاحب سے نہ رہا گیا، پہلے تو انہوں نے اعتراض کیا کہ جج صاحبان اس قدر آ ہستہ آواز میں بول رہے ہیں کہ عدالت میں موجود کسی شخص کو ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی، پھر آپ کو شکائت ہے کہ عدالت کی رپورٹنگ درست نہیں ہوتی، پہلے مائیک سسٹم تو ٹھیک کروایئے، پھر شکایت کیجئے،دوسرے انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں بلایا ہے تو پھرسماعت شروع کریں ،بلا وجہ کیوں بٹھا رکھا ہے، انہیں دفتر واپس جا کر اگلے روز کااخبار بھی شائع کرنا ہے۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں کہ جج صاحبان سے کوئی جواب نہ بن پا رہا تھا اور انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ٹھیک ہے پھر کسی دن بلا لیں گے اور وہ دن پھر کبھی نہ آیا۔
مختلف حکومتوں کو اخبارات سے شکایات پید اہوتی رہیں ، دو خبروں کے سلسلے میں ایک اخبار نے رپورٹر کی تصویر لگا کر یہ اعلان شائع کر دیا کہ اسے نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ حکومت کے پاس کسی اخبار کوسزا دینے کا ایک طریقہ اور بھی ہوتا ہے، وہ یہ کہ کچھ دنوں کے لئے اشتھار بند کر دیئے جائیں۔ بھٹو نے نوائے وقت کے ساتھ یہی سلوک کیا تو ایک روز مصطفی صادق نے مرشد مجید نظامی کو ساتھ لے کر بھٹو صاحب سے ملا قات کی ، کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں ، اچانک بھٹو صاحب بھڑک اٹھے اور کہنے لگے، مصطفی ! وہ بات کیوں نہیں کرتے۔نظامی صاحب نے پوچھا کہ کونسی بات، مصطفی صادق نے کہا کہ آپ کے اشتھاروں کی بات، نظامی صاحب غصے میں آ گئے کہ آپ مجھے اس مقصد کے لئے کیوں یہاں لے آئے ، مجھے کسی اشتھار کی بات نہیں کرنی، اس پر یہ ملاقات ختم ہو گئی۔ انگریز دور میں اخباروں کے خلاف اکثر کاروائی ہوتی اور ضمانت ضبط کر لی جاتی مگر مسلمان سرمایہ دار میدان میں نکل آتے ا ور نئی ضمانت نقدجمع کرا دیتے۔
اصول کی بات یہ ہے کہ جب کوئی خبر شائع ہو جاتی ہے تو اس کی ساری ذمے داری اخبار پر عاید ہوتی ہے، یہ اخبار کی مرضی ہے کہ وہ رپورٹر، نیوزا یڈیٹر یا مشین مین کو بھی پولیس کے حوالے کرے یا نہیں۔
ڈان نے جب اپنی اخبار کی صحت کاا قرار کیا تو اس کے بعد فوج کے سامنے ایک ہی قانونی راستہ تھا کہ وہ عدالت سے رجوع کرے۔ ظاہر ہے یہ مقدمہ ضرور طویل عرصہ تک سننا پڑتا مگر بات کسی واضح نتیجے تک پہنچ سکتی تھی، مگر جب کمیٹیاں بن جائیں تو کمیٹیاں کام نہ کرنے کے لئیے بنتی ہیں اور نتیجہ یہی ہوتا ہے جو سب کے سامنے ہے۔
مگر اس سارے معاملے میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایک اعلی سرکاری افسر کو نشانہ بنا دیا گیا، یہ سرکاری افسر حکومت پاکستان کا پرنسپل انفار میشن افسر ہے، اس کا منصبی فریضہ یہ ہے کہ وہ حکومت کا موقف اخبار تک پہنچائے ا ور اسے شائع کروانے کی کوشش کرے، کسی خبر کو رکوانے کی وہ کوشش تو کر سکتا ہے مگر وہ ایسا نہیں کر پاتا۔کیونکہ یہ اس کی طاقت اور فرض منصبی سے باہر کی بات ہے،وہ اخبار کو خبر شائع کرنے سے روک نہیں سکتا، میں تو یہ کہوں گا کہ اخبار کا مالک اور ایڈیٹر بھی کسی خبر کو رکوانے کی کوشش نہیں کرتا، نہ اس کی یہ کوشش کامیاب ہوتی ہے کیونکہ نیوز ڈیسک پوری طرح سے آزاد ہے۔میرے پورے صحافتی کیریئر میں ملک کے دونوں بڑے اردو اخباری اداروں کے مالکان یا ایڈیٹروں نے مجھے کسی چیز کی عدم اشاعت کے لئے نہیں کہا، اس کا فیصلہ میں خود کرتا تھا۔ایک بار نظامی صاحب نے پریشانی کے عالم میں مجھ سے پوچھا ضرور کہ آج یہ جو ایم آر ڈی پر مذاکرہ شائع ہوا ہے، یہ آج ہی کیوں شائع ہوا ہے ، جب میں نے اس کی وضاحت کی تو نظامی صاحب ہنس دیئے۔ میں کسی کالم کو اخبار کی پالیسی کی رو سے روکرتا تو نظامی صاحب پھر مالک بن کر مجھ سے بات کرتے کہ آپ کی سفارش پر کالم تو رک جاتا ہے مگر بطور مالک میرا دو اڑھائی سو کانقصان ہو جاتا ہے، آپ کوشش کریں کہ کالم کو قابل ا شاعت بنا کر مجھے بھیجیں۔ایک ادارے میں میرے دو کالموں پر حکومت سخت ناراض ہوئی اور محترمہ ملیحہ لودھی نے مجھے فون کر کے خبردار کیا کہ غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے کی تیاری پکڑ لو تو مجھ سے اخبار کے ایڈیٹر نے صرف اتنا کہا کہ کالم کے سلسلے میں اگرمشورہ کر لیتے تو بہتر ہوتا۔اسی دوران ارشاد حقانی کے کالم پر حکومت نے باقاعدہ اخبار کے خلاف کاروائی شروع کرنے کاا اردہ کر لیا تھا تو بھی اخبار کے ایڈیٹر نے نہ حقانی صاحب سے کہا کہ یہ کالم کیوں لکھا، نہ مجھ سے کوئی تعرض کیا گیا کہ کالم کیوں شائع کیا۔
مسئلہ تھا پی آئی ا و کے خلاف انضباطی کاروائی کا۔ میں نہیں جانتا کہ پی آئی او متنازعہ خبر کی اشاعت میں ملوث تھے یا نہیں مگر حکومت اسے جو خبر فراہم کرے ،وہ اسے شائع کروانے کا پابند ضرور ہے۔ ایوب خان کے دور حکومت کے لئے تاریخ یا کسی عدالت نے الطاف گوہر یا قدرت اللہ شہاب سے کوئی باز پرس نہیں کی۔ اس وقت بھی ملک میں ہزاروں کام ہو رہے ہیں جن کے لئے احکامات حکومت جاری کرتی ہے، ان کاموں میں موٹر وے بھی ہے، پولیو مہم بھی ہے،میٹرو بس بھی ہے ، اورنج ٹرین بھی ہے ، سی پیک بھی ہے،ا ور بجلی کے درجنوں منصوبے بھی ، ان منصوبوں کا کریڈٹ بھی حکومت لیتی ہے اور ڈس کریڈٹ بھی حکومت کوجاتا ہے ،کبھی کسی نے کسی سرکاری افسر کو ان کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔نہ اسے اس کے لئے کوئی اعزاز عطا کیا۔امریکہ نے صدام حسین کے خلاف جنگ چھیڑی، اس کی بنیاد ایک خبر تھی کہ صدام کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔جن کو تباہ کرنا ضروری ہے۔ یہ ہتھار نہ ملنے تھے ، نہ ملے ا، سلئے کہ ساری جنگ ایک جھوٹی خبر پر چھیڑی گئی تھی مگر اب برسوں بعد سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا ضمیر جاگا ہے اوراس نے تسلیم کیا ہے کہ ا س نے ایک جھوٹی رپورٹ کو خبر بننے دیا ۔ جس پر عراق میں تباہی مچائی گئی، ٹونی بلیئر نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے ا ور اس پر معؑ ذرت طلب کی ہے، نیو یارک ٹائمز نے پوری ایک کتاب چھاپی ہے کہ اس نے آج تک حکومت کی جاری کردہ کون کون سی جھوٹی خبریں شائع کیں۔ہمارے ہمسائے بھارت کے اخبارات حکومت کی شہہ پر اپنے ہر سانحے کی ذمے داری پاکستان اور آئی ا یس آئی پر ڈال دیتے ہیں۔
کسی سرکاری افسر کو سزا دینے یا دلوانے کا سلسہ شرتوع ہو گیا تو ملک کا انتظامی ڈھانچہ زمیں بوس ہو جائے گا۔بیورو کریسی کوحکومت کا پٹھو کہنا بھی غلط ہے کیونکہ وہ سرکاری احکامات ماننے کی پابند ہے۔ابھی میں نے ہر اخبار میں پڑھا کہ فوج کیسے ٹویٹ کر سکتی ہے،یہ تو متکبرانہ فعل ہے، تو جناب!ْ اگر فوج کو حکومت کا ماتحت گردانتے ہیں تو پی آئی اوکوکیوں نہیں۔میرے مرشد نظامی صاحب نے ہمیشہ میڈیا کے خلاف مخصوص قانون سازی کی سختی سے مخالفت کی۔ ان کا قول تھا کہ اخبار کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے ٹرائل لئے بھی وہی تھانے اور عدالتیں موجود ہیں جو باقی جرائم کے لئے ہیں۔ اس پس منظر میں پی آئی او کے خلاف انضباطی کاروائی ختم کی جانی چاہئے۔
مجھے وہ خبر نہیں بھولتی جو سترہ دسمبر1971 کے تمام ملکی اخبارات میں شائع ہوئی کہ ایک محاذ پر جنگ بند ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ جنگ ختم ہو گئی۔اس خبر میں کونسی صداقت تھی۔یہ ایک پلانٹڈ اسٹوری تھی۔
مسئلے کے حل کے لئے طریقہ وہی ہے جس کا وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ فوج کے اطمینان کے لئے کوشش کی جانی چاہئے۔