خبرنامہ

چودھری سرور، کچھ مزید اور مزیدار یادیں

میرا چودھری سرور کے ساتھ رشتہ محبت کا ہے، دوستی کا ہے۔ اس میں کوئی غرض شامل نہیں، کوئی مفاد پوشیدہ نہیں۔ میں نے بے لوث ہو کر میڈیا میں ان کا چرچا کیا۔ محمد سرور کے بعد بھی کئی پاکستانی برطانوی پارلیمنٹ میں منتخب ہوئے، یورپی پارلیمنٹ میں بھی گئے ہیں، مقامی بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی بنے، لیکن ان کے نام تک کوئی نہیں جانتا۔ محمد سرور کو صرف اس لیے شہرت ِ دوام حاصل ہوئی کہ وہ کسی بھی غیر مسلم ملک میں پہلا مسلم ممبر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوا تھا۔
ایک روز محمد سرور کے جی میں کیا آئی کہ انھوں نے مجھے اور ملک غلام ربانی صاحب کو گاڑی میں بٹھایا اور ایک طویل ڈرائیو پر لے گئے۔انھوں نے کہا کہ میں آپ کو اپنا وہ گھر اور وہ گاﺅں دکھاتا ہوں جہاں میں پہلی مرتبہ برطانیہ آیا تھا تو وہاں میں نے وہاں قیام کیا تھا۔ وہاں میرے والد، چچا اور دیگررشتہ دار مقیم تھے۔ یہ واقعی میرے لیے ایک منفرد اعزاز تھا کہ محمد سرور کے گھر میں قیام کا موقع ملا۔ ایک رات ان کی بہت ہی ضعیف والدہ صاحبہ سے مزے مزے کی باتیں سننے کالطف اٹھایا۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستان کے کسی اور صحافی کو محمد سرور کی والدہ صاحبہ سے ملاقات کا شرف ملا ہو۔ اگلے دن سوکر اٹھے تو سرور صاحب نے وہاں سے واپسی کے لیے ایک ایسا روٹ لیا جو پورے سکا ٹ لینڈ کو سرکلر روڈ کی طرح گھیر ے میں لیے ہوئے تھا۔ اگلے دن دشوار گزار پہاڑوں میں سے گزرنے والی ایک سڑک سے ڈرائیو کرتے ہوئے ہم واپس گلاسگو پہنچے۔ محمد سرور کی نیکیوں کی خوشبو نے بھی مجھے کئی مرتبہ معطر کیا۔ وہ وفد لے کر فلسطین گئے، فلسطینی بچوں اور بیواﺅں کی مدد کرتے رہے، وہ افریقہ بھی گئے۔ افریقہ میں نادار طالب علموں کو ڈالروں میں ماہوار وظیفہ دیتے۔ میں نے انھیں تجویز دی کہ وہ ایسے ہی وظیفے کا ایک پروگرام پاکستان میں بھی ذہین مگر نادار طالب علموں کے لیے شروع کریں۔ میرا خیال ہے یہ سلسلہ بھی انھوں نے بڑی ہی خاموشی سے شروع کر دیا ہے۔
محمد سرور پاکستان آئے تو میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مختلف میٹنگز میں شرکت کی اور جنرل الیکشن کی ٹکٹوں کی تقسیم میں انھوں نے اہم فیصلے کیے۔ اکتوبر 99ءمیں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد انھیں کسی سیف ہاﺅس میں منتقل کیا گیا تو محمد سرور پہلے شخص تھے جو اس سیف ہاﺅس میں جا کر میاں نواز شریف سے ملے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے، وقت بدلتا رہتا ہے۔ اس سے پہلے جب ابھی نواز شریف کی حکومت قائم تھی تو میں بار بار وہاں پیغام بھیجتا رہتا تھا، اور اگر وہاں جاتا تھا تو تب بھی میں چودھری سرور سے کہتا تھا کہ آپ پاکستان آئیں، وہاں پہ ایک وسیع حلقہ آپ کا منتظر ہے، ان کا ایک ہی اصرار تھا کہ میں جب تک اس مقدمے سے بری نہیں ہو جاتا، میں پاکستان نہیں آﺅں گا اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ فیصلہ محمد سرور کے حق میں ہوگیا۔
چودھری سرور بری ہونے کے بعد پاکستان تشریف لائے تو میں نے پروگرام بنایا کہ ان کو پورے ملک میں سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں کراتا ہوں۔ پہلے تو لاہور میں اپنی تنظیم پی سی آئی اے کی محفل میں ان کو مدعو کیا۔ پھر ہم راولپنڈی اور اسلام آباد گئے، وہاں پر میں نے تمام سینئر کالم نگاروں اور صحافیوں کو درخواست کی کہ وہ چودھری محمد سرور سے ملاقات کریں۔ انھوں نے ون ٹو ون وہاں ملاقاتیں کیں۔ ہماری اگلی منزل پشاور تھی جہاں ڈی جی پی آر اجمل ملک نے ہمیں ناشتے پر بلایا اورمرحوم رحیم اللہ یوسف زئی سمیت پشاور اور صوبہ سرحد کے سینئر کے صحافیوں کو بھی مدعو کیا۔ پھر ہم لوگ کراچی چلے گئے جہاں گورنر ممنون حسین نے ہمیں چائے پلائی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ کا میں نے پتا کیا تو وہ اسلام آبادتھے مگر انھوں نے کہا کہ محمد سرور آج کراچی سے روانگی کو ملتوی کر دیں، میں اپنے جہاز پہ فوری طور پر کراچی آ رہا ہوں اور مجھے ملے بغیر نہ جائیں۔ اس طرح غوث علی شاہ صاحب نے بھی ان کا پر تپاک استقبال کیا اور سندھی چادریں ہمارے کندھوں پہ پہنائی گئیں۔ یہ ہمارے لیے سید غوث علی شاہ صاحب کا بڑا تحفہ تھا۔ پھر میں نے نفیس صدیقی صاحب سے محمد سرور کی ملاقات کرائی۔ اس سے پہلے سرور صاحب برطانوی پارلیمنٹ کے چند ارکان کیساتھ ایک کشمیر ڈیلی گیشن بنا کر پاکستان پہنچے، وہ کنٹرول لائن پر صورتحال کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے اور وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ملاقات کرنا بھی ان کے پروگرام میں شامل تھا مگر ایوان وزیراعظم سے انھیں کوئی مثبت جواب نہ آیا تو شام کو میں نے سردار عبدالقیوم خان صاحب سے کہہ کر ایک عشائیے کا اہتمام کروایا، وہاں سید مشاہد حسین صاحب بھی آئے ہوئے تھے جو وزیر اطلاعات تھے، میں نے انھیں کہا کہ شاہ صاحب برطانوی پارلیمنٹ کا ایک کشمیر ی وفد پاکستان آیا ہوا ہے اور پاکستان کے کشمیر ی نڑاد وزیراعظم ان کو ملاقات کا ٹائم نہیں دے رہے۔ اگلی صبح سرور صاحب نے وزیراعظم کے ساتھ ناشتہ کیا اور ان کے وفد کے دیگر برطانوی ارکان چکوٹھی کی طرف چلے گئے۔
یہ دن بڑا ہنگامہ خیز تھا، ہوٹل میں آئی ایس آئی کے ایک برگیڈیئر بار بار سرور صاحب سے کہہ رہے تھے کہ وہ انکے ساتھ چلیں، آئی ایس آئی کے سربراہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ بہرحال انھوں نے انکی بات نہ ٹالی اور وہ ان سے ملنے چلے گئے۔ بعد میں میں نے بریگیڈئیر صولت رضا سے کہہ کر راشد قریشی سے ملاقات کا ٹائم لیا جو اس وقت آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے تاکہ وہ سرور صاحب کو حالات کے بارے میں بریف کریں۔ راشد قریشی نے کارگل کی جنگ پر بریفنگ دی۔ اتنی دیر میں باہر ایک گاڑی آئی اور پیغام ملا کہ صدر پرویز مشرف سرور صاحب سے ملنا چاہتے ہیں تو سرور صاحب نے وہ بریفنگ چھوڑی اور صدر پرویز مشرف سے ملنے چلے گئے۔
پاکستان میں عام انتخابات ہوئے، مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت گئی اور خبر آئی کہ چودھری سرور کو برطانیہ میں پاکستان کا ہائی کمیشن لگایا جا رہا ہے۔ میں نے فوری طور پر ان کو اپنی تنظیم پی سی آئی اے کے اجلاس میں بلایا اور صرف ایک نقطے پہ میں نے ان سے بات کی کہ آپ برطانوی شہری ہیں اور پاکستان کے سفارت کار بھی بنیں گے، وہاں پہ تو کسی بھی آزمائش کے وقت آپ برطانیہ کے خلاف نہیں جائیں گے اور پاکستان کا ساتھ آپ کو چھوڑنا پڑے گا، اس سے سفارتی طور پر پاکستان کو نقصان ہوگا۔ ان کے ذہن نے یہ نقطہ قبول کیا۔ اگلے دن مجھے ان کا فون آیا کہ میں مال روڈ پر اواری ہوٹل کی لابی میں بیٹھا ہوں، آپ کہاں ہیں، میں نے کہا کہ اوپر پی سی آئی اے کا ایک اور اجلاس ہو رہا ہے، میں بیٹھا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ آپ ذرا نیچے آ جائیں، میں نیچے آیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کا مشورہ مان لیا ہے۔ اب میں کوئی اور سیاسی عہدہ لے لوں گا اور اپنی برطانوی شہریت بھی چھوڑ دوں گا تو یہی ہوا۔ انھوں نے برطانوی اپنی شہریت چھوڑی اور وہ پنجاب کے گورنر مقرر ہوگئے۔ میں ایک واقعہ بیان کرکے کالم ختم کرتا ہوں۔ پاکستان نے آزادی کی گولڈن جوبلی منائی تو مجھے شوکت بٹ صاحب نے گلاسگو اور ایڈنبرا میں منعقد ہونے والے تقریبات میں مدعو کیا، میں گلاسگو ائیرپورٹ پر جہاز سے اترا تو مجھے شوکت بٹ سیدھے ’آزادی ریڈیو ‘ کے دفتر میں لے گئے۔ وہاں میرا انٹرویو شروع ہوا، پانچ منٹ گزرے ہوں گے کہ محمد سرور بھی اپنی گاڑی کے ریڈیو پر میرا انٹرویو سن کر مجھے ملنے آگئے۔ اسے کہتے ہیں محبت اور اخوت کا رشتہ!