خبرنامہ

چوہدری نثار علی خان شاید سن لیں! ……. کالم ہارون الرشید

چوہدری نثار علی خان شاید سن لیں! کالم ہارون الرشید

دعا سے نہیں قوموں کے عذاب، جدوجہد سے ٹلتے ہیں۔ قائد اعظم ایک حیرت انگیز استثنیٰ تھے۔ قادر مطلق کرم کرے تو ان جیسا ایک اور اجلا لیڈر ہمیں عطا کرسکتا ہے ۔
محمد علی جوہر تھے، مولانا حسین احمد مدنی موجود تھے، عطاء اللہ شاہ بخاری گونج رہے تھے۔ ابوالکلام آزاد نے اپنا علم بلند کر رکھا تھا۔ محمد علی جوہر دنیا سے اٹھے تو اقبالؔ نے کہا: رفت زاں راہے کہ پیغمرؐ گزشت… اس راہ سے وہ خالق کے پاس پہنچے، جس پہ سرکار ؐ معراج کے لئے عرش بریں تک چلے گئے تھے۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کو شیخ العرب والعجم کہا گیا۔ عرب و عجم کا استاد۔ عطاء اللہ شاہ بخاری‘ اپنے عصر کے سب سے بڑے خطیب۔ امیرِ شریعت کا خطاب انہیں دیا گیا۔ گاندھی سمیت سارا ہندوستان ابوالکلام آزاد کا قائل تھا۔ وہ خود بھی صرف اپنے ہی قائل تھے۔
اللہ کو رحم آ گیا اور اس نے پرچم محمد علی کے حوالے کر دیا۔ غالباً یہ 1931ء تھا‘ حسرت موہانی نے، ایک اجلاس میں کہا: اس شخص کا لباس اسلامی ہے اور نہ زبان۔ شائستہ اطوار سید ابوالاعلیٰ مودودی پاکستان بننے کے بعد بھی قائد اعظم کے قائل نہ ہوئے۔ 1948ء تک ترجمان القرآن کے اداریے اس کے گواہ ہیں۔ یہ 1973ء تھا، جب وائی ایم سی اے ہال میں، انہیں کہتے سنا کہ ہاں! ان کی دیانت و صداقت شک و شبہ سے بالا تھی۔ 2015 ء میں سابق بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے ان کا اعتراف کیا۔ پھر ممبئی کے ایک سبکدوش جج نے بھی کتاب لکھ کر۔ عظمت ان پہ ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے، برستی جائے گی، بڑھتی جائے گی۔
زعماء کرام جن کا ذکر کیا، سیاہ باطن وہ بھی نہ تھے، اب تو نرے خائن ہیں۔ لیڈر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کے کرنا چاہئے۔ عظیم صوفی ابن سیرین نے کہا تھا: سودا سلف خریدنے میں احتیاط کرتے ہو، دین ہر کسی سے قبول کر لیتے ہو۔ واعظوں ہی کو نہیں، شعبدہ بازوں کو بھی ہم رہنما کر لیتے ہیں۔ پھر رویا کرتے ہیں۔
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اِس کو بسر اُس نے کیا
آدم علیہ السلام کی ہر دختر اور ہر ایک فرزند کو اللہ نے 1350 سی سی کا دماغ بخشا ہے۔ کس لئے بخشا ہے؟ احنف بن قیس کے عمر فاروق اعظمؓ بھی قائل تھے۔ وہی کیا پورا زمانہ۔ صحابیت کا شرف نہ پا سکے کہ دور دراز نجد میں تھے۔ چودہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور بنو تمیم‘ ان کی وجہ سے ایمان لائے۔ حسنِ کلام میں ضرب المثل، شجاعت اور حق گوئی میں اس سے زیادہ۔ سب سے بڑھ کر صبر و تحمل میں۔ ان کے فرزند کو بھتیجے نے قتل کیا۔ اس کی ماں کو آپ ؒنے سو اونٹ بھجوائے کہ دیت ادا کر سکے۔ کسی نے پوچھا: یہ مرتبہ آپ نے کیسے پایا۔ ارشاد کیا: عمر فاروق اعظم ؓ کی نصیحت سے۔ آپؓ نے مجھ سے کہا تھا O جو آدمی ٹھٹھہ‘ مذاق میں لگا رہتا ہے، اپنی قدر کھو دیتا ہے O جس کی باتیں زیادہ‘ اس کی لغزشیں بھی زیادہ ہوں گی O جس کی لغزشیں زیادہ، اس میں حیا کم ہو جائے گی O جس میں حیا کم ہو جائے، اس میں تقویٰ کم ہو جاتا ہے O اور جس میں تقویٰ کم ہو جائے، اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ زندگی میں ایک بے ضرر سا‘ جھوٹ بولا تھا، امیرالمومنین کو ایک کپڑے کی قیمت بارہ کے بجائے آٹھ دینار بتائی۔ اس پر رویا کرتے۔
ان سے پوچھا گیا: قیادت کس کو سونپنی چاہئے۔ فرمایا: چار صفات ہونی چاہئیں O دین اس کے لئے ڈھال ہو O کوئی وصف اس کی حفاظت کرتا ہو O عقل اس کی رہنمائی کرتی رہے O حیا برائی سے اس کو روکتی رہے۔
اب میں اپنی آواز بلند کرتا ہوں کہ شاید چوہدری نثار علی خان سن لیں۔ درویشوں کا ذکر چھڑا تو ایک عجیب بات انہوں نے کہی: بعض رائج خرابیوں سے بچنے کی کوشش کی ہے مگر دل ہے کہ اب بھی چین نہیں پاتا۔ عرض کیا: ایک صاحب علم کے پاس چلیں گے۔ اللہ کی کتاب کہتی ہے: جب الجھ جائو تو راسخون فی العلم کے پاس جائو۔ سرکارؐ کا فرمان مبارک یہ ہے: علیکم مجالس بالابرار۔ تم پر لازم ہے کہ ابرار کے ہاں جاتے رہا کرو۔ خواجہ نظام الدین اولیا نے کہا تھا: نیکوں کی صحبت نیکی سے بھی بہتر ہے‘ بروں کی صحبت برائی سے بھی بدتر۔
دل نہیں مانتا کہ چوہدری نثار جذباتی ہو گئے ہوں۔ وزیر اعظم سے یہ انہوں نے کہا ہو کہ اگر میں آپ کا با وفا نہیں تو حسن نواز اور حسین نواز بھی نہیں۔ چوہدری صاحب ایسا دانا آدمی اگر سلطان راہی کے لہجے میں بات کرنے لگا ہے تو اس قوم پہ اللہ رحم کرے۔ حسنِ ظن یہ ہے کہ غور و خوض کے بعد وہ بات کرتے ہیں۔ نازک مراحل میں‘ الفاظ احتیاط سے چنتے ہیں۔ سیاسی حقائق کا جیسا اور جتنا ادراک ان میں ہے، کم کسی میں ہو گا۔ انا تو ظاہر ہے کہ بڑی ہے۔ اسی سے لڑنا ہوتا ہے، اپنے ناقص پیدائشی رجحانات سے۔ مشورہ امانت ہے۔ مشورہ یہی ہے کہ اب وہاں کیا رکھا ہے؟
جل بھی چکے پروانے‘ ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایک موڑ مڑ گئی ہے۔ ایک بار پھر اللہ کو ہم پر رحم آیا ہے۔ شریف خاندان کا عہد تمام ہوا۔ دوسروں کے علاوہ حلیف میڈیا گروپ نے کہ بھارت کا حلیف بھی ہے، ایک بالکل ہی غلط راہ انہیں دکھائی۔ ملکی سلامتی کے باب میں وزیراعظم یکسر لا پروا ہو گئے۔ وہی نہیں، زرداری صاحب کا حال بھی یہی ہے۔ کپتان سے عرض کرتا رہتا ہوں کہ فوج سے بے شک اختلاف کرے۔ کبھی تو بہت ضروری بھی ہوتا ہے مگر ملکی سلامتی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ اس کی نزاکتوں کا ادراک کرنا چاہئے۔ چوہدری نثار علی خان کو یقینا ہے اور مکمل طور پر۔ پیپلز پارٹی سے ان کی کھٹ پٹ رہتی ہے کہ تلخ گفتار تو ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت مگر ملک و ملت کا اثاثہ ہے۔ جس ملک میں سیکڑوں بدخواہ پائے جاتے ہوں، جو خود اپنے وطن کی آزادی پر یقین نہ رکھنے والے ہوں‘ وہاں احتیاط کچھ سوا ہونی چاہئے۔ نئی اقوام میں مخمصہ ہوا کرتا ہے اور ژولیدہ فکری بھی۔ صدیوں یہ خطہ ٔ ارض فاتحین کی گزرگاہ رہا۔ احساس کمتری اور عدم تحفظ سمیت اس معاشرے کے کچھ امراض ہیں۔ سیکھنا چاہے تو آدمی سیکھ لیتا ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی میں ایک لگن ہے، حصول علم کی۔ انہیں بالیدگی حاصل کرتے اور رفعت پذیر ہوتے پایا ہے۔ صداقت کے جویا کو عرفان عطا ہوتا ہے۔
تاریخ یہ کہتی ہے کہ قومیں بیمار بھی ہو جایا کرتی ہیں، جیسے ہٹلر کا جرمنی، مسولینی کا اطالیہ اور اب ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ۔ فرمان یہی ہے کہ معاشرہ سدھرے تو اجلے رہنما اسے نصیب ہوتے ہیں۔ دعا سے نہیں قوموں کے عذاب، جدوجہد سے ٹلتے ہیں۔ قائد اعظم ایک حیرت انگیز استثنیٰ تھے۔ قادر مطلق کرم کرے تو ان جیسا ایک اور اجلا لیڈر ہمیں عطا کرسکتا ہے ۔