خبرنامہ

کچھ آنسو بچا لیجئے! ….عمار چودھری

کچھ آنسو بچا لیجئے! ….عمار چودھری

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں سپر سٹور کے مالک کے ساتھ جو ہوا‘ اس کے بعد وہ سوچتا ہو گا کہ کاش وہ بھی پاکستان جیسے کسی ملک میں ہوتا تو وہ بھی نواز شریف کی طرح جلوس لے کر نکلتا اور خود کو ہیرو کے انداز میں پیش کرتے ہوئے سڑکوں پر شور مچا کر اداروں کے خلاف ایسا تماشا لگاتاکہ دنیا دیکھتی ۔
چند ماہ قبل ایک خاتون سڈنی کے ایک معروف سٹور Leichhardt میں گراسری کی خریداری کے لئے پہنچی۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔خاتون نے گاڑی پارک کی۔ شیشے میں چہرہ دیکھ کر میک اپ درست کیااور پرس پکڑ کر باہر نکل آئی۔ ٹرالی لے کر وہ سٹور کی جانب لپکی۔ عموماً وہ صبح کے وقت خریداری کرتی تھی کہ اس وقت لوگوں کا ہجوم یا تو کم ہوتا تھا یا اکا دُکا لوگ ہوتے۔ اسے بہت زیادہ بھیڑ سے الجھن ہوتی چنانچہ آج جب وہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے لئے مشہور و معروف سٹور کے اندر داخل ہو رہی تھی تو اسے اپنے اور سٹور کے سٹاف کے علاوہ اور کوئی نظر نہ آیا۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ ایک ایسی چیز وہاں موجود تھی جس پر اُس کی نظر نہیں پڑی اور جس کا اُسے اُس وقت احساس ہوا جب سر سے پانی گزر چکا تھا۔ عین اُسی وقت سٹور کا مینیجر بھی سٹور میں داخل ہو رہا تھا اور ابھی اس نے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ اسے یکا یک بلند چیخ اور کسی کے گرنے کی آواز آئی۔ اس نے فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے وہی اکلوتی خاتون گاہک زمین پر کمر کے بل گری نظر آئی۔ اسے اٹھایا گیاتو معلوم ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ضرب آئی ہے۔ایمبولینس بلا کر اسے فوری طور
پر ہسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر نے ایکسرے وغیرہ کے بعد کہا کہ خاتون کو معمولی چوٹ آئی ہے اور چند دن آرام سے ٹھیک ہو جائے گی۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ خاتون جیسے ہی ٹھیک ہوئی اس نے سٹور مالک کے خلاف عدالت میں ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ اس نے عدالت کو لکھا کہ جب وہ سٹور میں داخل ہوتے ہوئے پھسلی تو گرنے کے بعد اس نے وہاں انگور کا ایک دانہ دیکھا۔ اس کے مطابق سٹور والوں کی غفلت کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا کیونکہ اگر وہ صفائی کا مکمل اہتمام کرتے تو وہ انگور وہاں ہوتا نہ خاتون پھسل کر گرتی۔ عدالت کے تین رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی۔اپنے فیصلے میں تینوں ججوں نے لکھا کہ خاتون جس وقت سٹور میں داخل ہوئی اس وقت صبح کے دس بجے تھے اور یہ اتوار کا دن تھا۔ جیسے ہی خاتون کا پائوں زمین پر پڑے انگور کے ایک دانے پر آیا وہ اس سے پھسل کر گرگئی ۔شبہ ظاہر کیا گیا کہ یہ انگور شاید اس وقت گرا ہو گا جب سٹور کھولنے سے پہلے انگوروں کو قریبی باسکٹ میں ڈالا جا رہا تھا۔ جج اپنے فیصلے کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ہم ان تینوں امکانات کو رد کرتے ہیںجو اس سے قبل ضلعی عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں دئیے۔ مقامی عدالت کے جج نے سٹور مالک کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ انگور گزشتہ رات کو کسی گاہک کے ہاتھوں سے زمین پر گر گیا ہو‘صفائی کرنے کے دوران یہ عملہ کی نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو یا انگور کا یہ دانہ سٹور میں ایک طرف پڑے قالین کے نیچے چھپا رہ گیا ہو اور جب قالین ہٹایا گیا تو یہ فرش پر آ گیا ہو۔ ججوں نے ان تینوں امکانات پر خط تنسیخ پھیر دیااور سٹور انتظامیہ کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ سٹور کھولنے سے قبل ہر طرح کی صفائی اور سکیورٹی کی ذمہ داری سٹور انتظامیہ کی تھی اور وہ یہ ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے چنانچہ وہ نہ صرف خاتون سے معافی مانگے بلکہ ہرجانے کے طور پر پر متاثرہ خاتون کو ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کرے۔
ایسا ہی دلخراش واقعہ چند برس قبل لاہور میں پیش آیا۔ ایک نجی موبائل فون کمپنی کا ملازم سیف الرحمن اپنے سسر کی عیادت کیلئے اپنی اہلیہ‘ گیارہ ماہ کے سفیان اور تین بیٹیوں سات سال عظمیٰ‘ پانچ سالہ ماریہ اور دو سالہ عفاف کے ہمراہ میو ہسپتال پہنچا۔ بچہ وارڈ میں لیجانے کی اجازت نہیں تھی چنانچہ سیف الرحمن اکیلا ہی اندر چلا گیا جبکہ باقی فیملی دہلی وارڈ کے باہر انتظار کر نے لگی۔ اس دوران ننھے سفیان کو زمین پر کوئی چیز پڑی نظر آئی تو وہ تیزی سے اس جانب رینگنے لگا اور دیوار کے قریب اس جگہ پہنچ گیا جہاں اس کے سر کے عین اُوپر خستہ حال ونڈو ایئر کنڈیشنر نصب تھا۔ یہ دیکھ کر سات سالہ ماریہ اس کے پیچھے لپکی۔ وہ اسے پکڑنے کیلئے جھکی ہی تھی کہ اس کا سر ایئر کنڈیشنر کے ساتھ ٹکرا گیا‘ ایئرکنڈیشنر جو کسی جنگلے میں فکس نہیں تھا بلکہ دیوار میں پھنسایا گیا تھا‘ اپنی جگہ سے سرک گیا اور ایک دھماکے کے ساتھ نیچے موجود ننھے سفیان پر آن گرا۔ اے سی ہٹایا گیا تو نیچے گیارہ ماہ کا سفیان خون میں لت پت پڑا تھا۔ بچے کی حالت دیکھ کر لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ شور سن کر سیف الرحمان بھاگا آیا‘ سفیان کو اٹھایا اور ایمرجنسی کی جانب دوڑ پڑا۔ اس دوران جائے حادثہ سے لیکر ایمرجنسی وارڈ تک خون ہی خون پھیل گیا۔ ڈاکٹروں نے سفیان کو دیکھا تو اس کی موت کی تصدیق کر دی۔ ٹریجڈی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس المناک حادثے کی خبر جب ہسپتال میں داخل سفیان کے نانا کو ملی تو وہ بھی صدمے کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ سفیان تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ سفیان کی ہلاکت کے بعد میوہسپتال کے سابق ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز نے تمام اے سی جلدی جلدی لوہے کے جنگلوں میں فکس کروا دئیے تاکہ کسی انکوائری کی صورت میں بچا جا سکے۔ تین ہفتے بعد سفیان کے والد سیف الرحمن کو کچھ ہوش آئی تو اس نے ہسپتال انتظامیہ کی غفلت پر سوال اٹھائے۔شنوائی نہ ہونے پر اس نے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر ہسپتال انتظامیہ کیخلاف پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کی تصاویر اخبارات میں چھپیں تو ڈاکٹر زاہد پرویز بچے کے گھر پہنچ گئے‘ اپنی انتظامی غفلت تسلیم کی اور کہا وہ استعفیٰ بھی دینے کو تیار ہیں اور قتل خطا پر اسلامی قانون کے مطابق دیت بھی۔ وہاں موجود تمام لوگوں نے دیت کا مطالبہ کیا جو انہوں نے منظور کر لیا۔ دن ہفتے اور ہفتے مہینے بن گئے لیکن ایم ایس نے استعفیٰ دیا نہ دیت۔سیف الرحمن کو کسی نے میرے پاس بھجوایا تو میں نے اس واقعے پر کالم لکھ دیا جس پر اگلے روز سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری نے نوٹس لے لیا لیکن ہسپتال انتظامیہ نے جعلی رپورٹیں اور جھوٹے گواہان پیش کر دئیے جس کے بعد یہ مقدمہ فائلوں کی نذر ہو گیا ۔
سڈنی کی خاتون خوش قسمت تھی کہ وہ پاکستان میں پیدا نہیں ہوئی تھی وگرنہ اسے بھی سیف الرحمن کی طرح چکر پہ چکر لگوائے جاتے اور سٹور انتظامیہ قانونی پیچیدگیوں میں سے راستہ نکال کرصاف بچ جاتی اور خاتون کو ہرجانہ دینے کی بجائے اسے عدالتوں کے پھیرے لگوا لگوا کر پاگل کر دیتی۔ آج نوا ز شریف نے اگر اداروں کے خلاف طبل جنگ بجایا ہے تو اس میں حیر ت کی کوئی بات نہیں۔ سیف الرحمن کے ساتھ جو ہوا‘ یہ اس ملک کے ہر غریب کے ساتھ ہوتا آیا ہے چنانچہ نواز شریف ابھی تک ورطہ حیرت میں مبتلا ہیں کہ جس ملک میں کبھی تگڑے مجرم کو سزا نہ ملی ہو ‘ جس میں سیف الرحمن جیسوں کے بچے یونہی مسلے جا رہے ہوں اور انہیں مارنے والے آزاد ہوں وہاں انہیں ایک اقامے پر کیونکر نا اہل کر دیا گیا۔ بہتر ہو گا نواز شریف اپنی انگلی دانتوں سے کاٹ کر دیکھ لیں تاکہ انہیں یقین ہو جائے وہ خواب نہیں دیکھ رہے بلکہ ایک ایسے پاکستان میں موجود ہیں جس میں عدلیہ اور ادارے قانون اور انصاف کی بالادستی کی ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہے ہیں۔ وہ اقامے کو رو رہے ہیں‘ جبکہ نیب اسی کمٹمنٹ اور اسی جج کے سائے میں کام کا آغاز کر چکی ہے جس کے فیصلے نے نواز شریف کے غرور کے تیس سالہ بت کو پاش پاش کر دیا۔
نواز شریف صاحب! بہتر ہو گا‘ کچھ آنسو بچا لیجئے‘ابھی تو رونے کیلئے بہت کچھ باقی ہے۔