خبرنامہ

ڈو مور دنیا کی ذمہ داری ہے ہماری نہیں، آرمی چیف جنرل باجوہ کا یوم دفاع کی تقریب سے خطاب

ڈو مور دنیا کی ذمہ داری ہے ہماری نہیں، آرمی چیف جنرل باجوہ کا یوم دفاع کی تقریب سے خطاب

بِسمِ اللہ الرّحمنِ ا لرّحِیم
سپیکر قومی اسمبلی، وفاقی وزراء، مسلح افواج کے سربراہان،ایکسیلنسسیز ایمبیسیڈرز، مہمانانِ گِرامی، افواجِ پاکستان کے آفیسرز، سردار صاحبان، میرے بہادر جوانو اور آج کی تقریب کے مہمانانِ خصوصی؛ ہمارے عظیم شہداء کے لواحقین!
السلام علیکم!
حاضرینِ کرام! میں آپ سب کا شکر گزار ہوں کہ آپ آج کی اِس تقریب میں شریک ہوئے اور دفاع اور شہدائے وطن کے ساتھ اپنی محبت اور وابستگی کا اظہار کیا۔ میں یہاں پر آئے ہوئے اُن غازیوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے اپنے جسموں پر تو گہرے زخم کھائے مگر وطن کو توانا رکھا۔
لیکن سب سے بڑھ کر، میں شہدائے وطن کے ورثاء کا احسان مند ہوں جن کے پیاروں کی قربانیوں کی بدولت آج ہم اس مقام پر ہیں جہاں وطن پر چھائے اندھیرے چھٹ رہے ہیں اور ایک روشن مستقبل کی کرنیں نمودار ہو رہی ہیں۔
شہداء کا خون ہم پر قرض ہے۔ یاد رکھیں، جو قومیں اپنے شہداء کو بھول جاتی ہیں، تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔ یومِ دفاع تجدیدِ عہد اور تجدیدِ وفا کا دن ہے۔ اور اِس وفا کا پاس ان سے بہتر کون کر سکتا ہے جو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ میری طرف سے، پاک فوج کی طرف سے اور تمام پاکستان کی طرف سے
شہدائے وطن کی عظمت کو سلام۔
حاضرینِ کرام!
ہماری قومی زندگی بیشک مشکلات کا شکار سہی مگر دفاعِ وطن ہمارا قومی امتیاز ہے۔ 1947سے لے کر آج تک، ہمارے جانبازوں نے، چاہے وہ باوردی مجاہد ہوں یا عام شہری، وطن کی پکار پر ہمیشہ لبیک کہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک ہمارے بزرگوں کا حوصلہ اور ہمارے جوانوں کی جرأت برقرار ہے، پاکستان کا کوئی نقصان نہیں کر سکتا۔ تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اس جذبے کا تعلق صرف جنگ سے نہیں، بلکہ قومی ترقی کے ہر پہلو سے ہے۔ خصوصاََ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں ہماری مکمل کامیابی کے لیے قوم کا جذبہ، تعاون اور آگاہی بہت ضروری ہے۔

یاد رکھیے کہ فوج دہشتگردوں کو ختم کر سکتی ہے مگر دہشتگردی اور انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ وطن کا ہر شہری ردالفساد کا سپاہی ہو۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کا مثبت کردار بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ یہ جنگ صرف زمینی نہیں بلکہ نظریاتی اور ذہنی بھی ہے۔

آئیے ہم ملکر ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں طاقت کا استعمال آئین اور قانون کے مطابق، صرف ریاست کے ہاتھ میں ہو۔

میں بھٹکے ہوئے لوگوں سے بھی کہوں گا کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے۔ آپ کے طرزِ عمل سے آپ کے وطن اور آپ کے لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ آپ کی لگائی ہوئی آگ کی قیمت نہ صرف تمام پاکستان ادا کر رہا ہے بلکہ ہمارے دُشمن بھی اِس سے بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ ہمارے دین میں واضع حکم ہے کہ جہاد، ریاست کی ذمہ داری ہے اور اسی کا حق ہے۔ اور یہ حق ریاست کے
پاس ہی رہنا چاہیے۔
(Monopoly of violence should be the prerogative of the state, only)
حاضرینِ کرام!
ہم جانتے ہیں کہ “پاکستان کا مطلب کیا ہے؟ ”
لاالہ الاﷲ کے وارث ہونے پر ہمیں فخر ہے۔ ہم اس جھنڈے کے سبز اور سفید دونوں رنگوں پر نازاں ہیں۔ اپنے یقین، اپنے ایمان اور اپنی روایات کے لیے ہمیں کسی کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں۔ قومی اتحاد آج وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی بھی مذہب، فقہ، ذات یا لسان کی بنیاد پر ہماری بنیادیں کھوکھلی کرے۔ ان بنیادوں میں ہمارے لاکھوں شہداء کا خون شامل ہے۔ میں پاک فوج کی طرف سے آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس خون کی حرمت کا پاس رکھیں گے۔
ہم نے ماضی قریب میں بہت نقصان اُٹھا لیا۔ اَب دُشمن کی پسپائی اور ہماری ترقی و کامرانی کا وقت ہے۔ ہمارے دُشمن کوئی حربہ آزما لیں، انشاء اللہ ہم ہمیشہ متحد رہیں گے۔ ہمارا دشمن یہ جان لے کہ ہم کٹ مریں گے لیکن پاکستان کے ایک ایک اِنچ کا دفاع اپنے خون سے کریں گے۔
حاضرینِ کرام!
سیکورٹی کے حوالے سے ہم حکومت اور دیگر اداروں کیساتھ بہت سی ایسی اصلاحات پر رابطے میں ہیں جن کے بغیر قومی ایکشن Plan شرمندہءِ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اِن میں تعلیمی درسگاہوں اور مدارس کی اصلاحات، پولیس اصلاحات اور دہشتگردوں کی سرکُوبی کے لیے قانونی اصلاحات بھی شامل ہیں۔


مگراِن تمام کوششوں، بے بہا قربانیوں اور دو دہائیوں پر محیط جنگ کے باوجود آج ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کے عفریت کا بلاتفریق مقابلہ نہیں کیا۔ خواتین و حضرات! اگر پاکستان نے اِس جنگ میں کافی نہیں کیا تو پھر دُنیا کے کسی بھی ملک نے کچھ نہیں کیا۔ کیونکہ اتنے محدود وسائل کے ساتھ اتنی بڑی کامیابی صرف پاکستان کا ہی کمال ہے۔ آپریشن شیردِل سے لے کر راہِ راست، راہِ نجات، ضربِ عضب اور اب ردالفساد تک ہم نے ایک ایک اِنچ کی قیمت اپنے لہو سے ادا کی ہے۔ اور میں اب یہ کہتا ہوں
Now the world must do more)(

ہم اِس جنگ کو جو ہم پر مسلط کی گئی ہے، انشاء اللہ منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک پاکستان امن کا گہوارہ نہ بن جائے۔ یہ ہماری بقا کی جنگ ہے اور ہمیں اِسے آنے والی نسلوں کے لیے جیتنا ہے۔ عالمی طاقتیں اگر اِس کام میں ہمارے ہاتھ مضبوط نہیں کر سکتیں تو ہمیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار بھی نہ ٹھہرائیں۔ آج کا پاکستان دہشتگردی کے خلاف کامیابی کی ایک روشن مثال ہے۔ خدانخواستہ اگر ہم ناکام
ہوئے تو یہ خطہ مکمل طور پر عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔

ہم دُشمن کی ان تدابیر پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں وہ بلوچستان کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں ان تمام ملک دُشمن عناصر کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم پوری توجہ کیساتھ ان کے گھناؤنے عزائم اور دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور چاہے ہم پنجابی، پٹھان، سندھی، کشمیری، گلگتی یا بَلتی ہوں، بلوچستان کے لیے اُسی طرح خون دینے کو تیار ہیں جیسے بلوچستان کے بیٹوں نے اپنے پاکستان کے لیے دیا۔ ہمیں بلوچستان کے غیور عوام پر فخر ہے جنہوں نے دہشتگردوں اور علیحدگی پسندوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ دُشمن کی اِن کوششوں کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے کہ CPECکو نشانہ بنایا جائے اور اس طرح پاکستان کے عوام کے مستقبل کے ساتھ ساتھ پاک چین دوستی پر بھی ضرب لگائی جائے۔
حاضرینِ کرام!
پاک چین دوستی باہمی احترام پر اُستوار تعلقات کی درخشاں مثال ہے اور CPECاِن تعلقات کا ایک عظیم مظہر ہے۔ ہم خلوصِ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ CPEC نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کا سرمایہ اور امن کی ضمانت ہے۔
حاضرینِ کرام!
پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ پاکستانی وہ قوم ہیں جنھوں نے مسلسل چالیس سال کی بد امنی کے باوجود قومی تشخص اور وحدت کو سنبھالے رکھا۔ ہم سے بڑے اور زیادہ وسائل رکھنے والے ملک بہت کم عرصے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چُکے ہیں۔

ہم جنگ اور دہشتگردی کے خلاف ہیں۔ ہم دُنیا کے تمام ممالک کیساتھ عزت اور برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔ کشمیر میں کھلی نا انصافی اور ہمیں دولخت کرنے پر بھارت کا کردار سب کے سامنے ہے۔ اَب اس کوشش میں دہشتگردی کی کُھلی معاونت اور ہمارے پانیوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہو چُکا ہے۔ ہم کشمیریوں کی حالتِ زار پر بجا طور پر دل گرفتہ ہیں۔ ان دونوں ممالک کے کروڑوں عوام کی فلاح، دائمی امن سے وابستہ ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ لائن آف کنٹرول پر معصوم اور نہتے شہریوں کو باقاعدہ منصوبہ بندی
کے تحت نشانہ بنانے کا عمل بند کیا جائے۔

ہندوستان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کے اندر موجود لاکھوں نوجوانوں کی پُرامن جدوجہد پاکستان یا آزادکشمیر سے دراندازی کی محتاج نہیں۔ یہ امر ہندوستان کے اپنے مفاد میں ہے کہ اِس مسئلہ کے دیرپا حل کے لئے پاکستان کے خلاف گالی اور کشمیریوں کے خلاف گولی کے بجائے سیاسی اور سفارتی عمل کو ترجیح دے۔ پاکستان اس مسئلہ کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کے لئے اپنی سفارتی، اخلاقی، سیاسی حمایت جارے رکھے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ہم سے یہ حق چھین نہیں سکتی۔

خواتین و حضرات!
پاکستان ایک ذمہّ دار ملک ہے۔ جنوبی ایشیا میں نیوکلےئر ہتھیار ہم نہیں لائے۔ اور اب بھی، یہ مہلک ہتھیار ہمارے نزدیک صرف ایک طاقت کے نشے میں چُور دُشمن کی یلغار
کے جواب میں امن کی ضمانت ہیں۔
یہی دُشمن جنوبی ایشیا میں غیر روایتی جنگ لے کر آیا ہے۔ 1971 سے لے کر اب تک پاکستان دہشتگردی کا براہِ راست شکار رہا ہے۔ اس کے علاوہ سُپر پاورز کی شروع کردہ جنگوں کی قیمت ہم نے دہشتگردی، انتہا پسندی اور اقتصادی نقصان کی
صورت میں ادا کی ہے۔

ہم نے افغانستان کو بھی اپنی بساط سے بڑھ کر سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑ سکتے۔ ہم نے بہت نیک نیتی سے افغانستان میں مذاکرات اور امن کی کوشش کی ہے۔ تاہم افغانستان ایک خود مختار ملک ہے جو اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ اگر آج بھی افغان دھڑوں کا راستہ صرف جنگ کی طرف ہی جاتا ہے تو ہم اِس جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ تاہم، ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ مکمل غیر جانبداری کیلئے افغان مہاجرین کی جلد اور باعزت واپسی میں مدد کریں اور اپنے بارڈر کی مکمل حفاظت کریں۔ اس سلسلے میں ہم بارڈر پر 2600کلومیٹر طویل باڑ لگا رہے ہیں اور 900سے زائد پوسٹیں اور قلعے اس کے علاوہ ہیں۔ ہم اس پالیسی پر قائم ہیں کہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اور ہم دوسروں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ جن دہشتگردوں نے مغربی سرحد کے پار پناہ لے رکھی ہے, اُن کے خلاف جلد اور مؤثر اقدام ہوں گے۔

حاضرینِ کرام!
امریکہ کے ساتھ حالیہ تعلقات پر قوم کے جذبات بہت واضع ہیں۔ ہم امداد نہیں عزت اور اعتماد چاہتے ہیں۔ ہمارے کام اور قُربانیوں کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ ہم امریکہ اور NATO کے ہر اس عمل کی حمایت کریں گے جس سے خطے میں بلعموم اور افغانستان میں بالخصوص امن کی راہ ہموار ہو۔ تاہم ہمارے Security Concernsکو بھی حل ہونا چاہیے۔

حاضرینِ کرام!
آج ہم ہر مسئلے کا حل بہتر سوچ اور فراست سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ FATA میں امن کا معاملہ ہو یا بلوچستان کی ترقی؛ خطے کے تعلقات ہوں یا اقوام عالم کے ساتھ معاملات، ہم تمام متعلقہ قومی اداروں کو مکمل input فراہم کر رہے ہیں۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو پاکستان مضبوط ہو گا۔ پاکستان میں آےئنی، قانونی اور جمہوری روایات کی مضبوطی
ہم سب کی مضبوطی ہے۔

یہ ہماری آنے والی نسلوں کا ہم پر حق ہے کہ ہم ان کو دہشتگردی، کرپشن اور بدامنی سے پاک، ایک نارمل پاکستان دیں۔ پاکستان کی طاقت کا اصل سر چشمہ درحقیقت ہمارے نوجوان ہیں۔ میں نے پاکستان کے نوجوانوں کی روشن آنکھوں میں آنے والی سحر کا نُور دیکھا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اِن کے توانا بازؤں میں تقدیر بدلنے کی طاقت ہے۔ میرے لیے وہ دن انتہائی خوشی کا دن ہو گا جب پاکستان کی باگ ڈور اِن نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہو گی اور پاکستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

آخر میں، مَیں ایک بار پھر وطن پر نثار ہونے والے شہداء، اُن کے بہادر اہل خانہ، افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تمام پاکستانیوں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ فوج، قوم کے تعاون اور سپورٹ کے بغیر کچھ نہیں۔ اگر قوم کا تعاون اور مدد شامل حال رہی تو عنقریب ہم دہشتگردی کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دیں گے۔ یقین رکھیں کہ پاک فوج ہرمشکل وقت میں آپ کے ساتھ ہے۔
اﷲتعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)

پاک فوج زندہ باد
پاکستان پاےئندہ باد

چیف آف آرمی سٹاف کا
یومِ دفاع و شہداء پاکستان 2017کے موقع پر خطاب
6 ستمبر 2017
(A Tribute to Martyrs of Pakistan)