کس چینل اور اخبار کو کتنے کروڑ کے اشتہار ملے، تفصیلات ملت آن لائن پر
لاہور(ملت آن لائن millat.com )حکومت نے گزشتہ چار سالوںمیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو 12 ارب روپے سے زائد کے اشتہارات دئیے. الیکٹرانک میڈیا کو پونے 4 ارب اور الیکٹرانک میڈیا کو سوا آٹھ ارب روپے کے اشتہارات دئیے گئے.
جنگ گروپ کو 61 کروڑ
جیو نیوز کو 43 کروڑ
جیو تیز کو سوا کروڑ
جنگ اخبار کو ساڑھے سولہ کروڑ
جیو ٹی وی کو ساڑھے بارہ کروڑ
دنیا نیوز ساڑھے 37 کروڑ
کیپیٹل ٹی وی کو 26 کروڑ
روزنامہ دنیا کو پانچ کروڑ
ایکسپریس چینل کو 27 کروڑ
روزنامہ ایکسپریس کو 7 کروڑ
چینل 92 کو 12 کروڑ
ڈان نیوز کو ساڑھے 14 کروڑ
ڈان اخبار کو ساڑھے بارہ کروڑ
آج نیوز کو 12 کروڑ
سما نیوز کو 10 کروڑ
اے آر وآئی کو 4 کروڑ
اے ٹی وی کو 6 کروڑ
وقت نیوز کو 10 کروڑ
چینل 24 کو تین کروڑ
دن نیوز کو ایک کروڑ اکاون لاکھ
جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ کا متن پڑھنے کے لئے یہاںکلک کریں
اسی سے متعلقہ خبر:
قطری سرمایہ کاری کے بدلے لندن فلیٹس کا ملنا محض افسانہ ہے: جے آئی ٹی
جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ، شریف خاندان کے رہن سہن اور ذرائع آمدن کے درمیان عدم توازن کی نشاندہی، نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش۔
اسلام آباد: (ملت آن لائن) جے آئی ٹی نے اپنی 256 صفحات پر مبنی رپورٹ میں شریف خاندان کے رہن سہن اور ذرائع آمدن کے درمیان عدم توازن کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، نواز شریف، حسن اور حسین کے مالی معاملات کا معاملہ نیب کے سیکشن 9 کے تحت آتا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتا سکے، بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی، ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی، یو اے ای کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں کے ذریعے کی گئیں، برطانیہ میں شریف خاندان کے کاروبار سے کئی آف شور کمپنیز بھی لنک ہیں اور وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی ظاہر آمدن اور اثاثوں میں واضح تضاد ہے۔ رپورٹ میں جے آئی ٹی نے شریف خاندان کی منی ٹریل پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ مریم نواز کی نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی ملکیت ثابت ہو گئی ہے، شریف خاندان کی بڑی رقوم اور تحائف میں بہت بے ضابطگیاں ہیں، وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی ظاہر آمدن اور اثاثوں میں واضح تضاد ہے۔ پانامہ کیس کی تحقیقات میں مصروف جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی میں آف شور کمپنیاں بنانے کے وقت نواز شریف کے پاس سرکاری عہدہ بھی تھا، یو اے ای کی کمپنی ایف زیڈ ای سے بھی غیرقانونی ترسیلات کی گئیں، یہ کمپنیاں بینکوں اور دوسرے اداروں سے قرض لے کر بنائی گئیں، کمپنیوں کے قیام کے وقت معمولی رقم مالکان نے اپنی طرف سے دی، اکثر کمپنیاں مکمل طور پر فنکشنل نہیں ہیں یا خسارے میں جا رہی ہیں، ان کمپنیوں میں محمد بخش ٹیکسٹائل ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی، حمزہ بورڈ ملز، مہران رمضان ٹیکسٹائل ملز شامل ہیں۔ خراب کارکردگی اور نقصان میں جانے کے باعث چند سالوں کے علاوہ ان کمپنیوں کے منافع کو ظاہر نہیں کیا گیا