خبرنامہ

کشمیر میں کون لڑے گا۔۔اسداللہ غالب

بھارت کہتا ہے اور ہم بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا ئے چلے جا رہے ہیں کہ حافظ محمدسعید وہ آنکھ بند کر لے جس میں آزادی کشمیر کے خواب سجے ہیں۔عملی طور پر حافظ محمدسعید کی زبان بندی کی جا چکی ہے اورا س کے ہاتھ پاؤں بندھے نظر آتے ہیں۔
تو پھر قائد اعظم کے اس حکم کی تعمیل کون کرے گا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔
قائد کے ا س قول کو نبھانے والے ایک تو وہ کشمیری ہیں جو وہاں رہتے ہیں اور بھارتی جبر سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ کشمیر کے لئے لڑ رہے ہیں ، وہ فتح مبین تک لڑیں گے ۔
آزاد کشمیر کے لوگوں کو توفیق نہیں کہ وہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے عملی قدم اٹھائیں،اس لئے جب مقبوضہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ہو گا تو آزاد کشمیر کو سرینگر کا باجگزاربننا پڑے گا یا جنوبی پنجاب کی حیثیت سے سدا محرومیوں کا رونا ہو گا۔
کیا پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی یہ لڑائی لڑے گی، اس کمیٹی والوں نے تو کہا تھا کہ ہمارے بزرگ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔ تو اس گناہ گار پاکستا ن میں کشمیر کی شمولیت کے لئے وہ کیسے لڑ سکتے ہیں۔
اس لڑائی کے لئے بائیس رکنی پارلیمنٹیرین وفد بھی پر تول رہا ہے ، اس وفد کے کسی رکن کو شاید ہی کشمیر کے مقدمے کا علم ہو، انہوں نے تو ساری زندگی ایک ہی پروپیگنڈہ سنا ہے کہ کشمیر بھارت کاا ٹوٹ انگ ہے، پاکستان نے تو کبھی یہ نعرہ نہیں لگایا کہ کشمیر بنے گا پاکستان، یہ نعرہ مقبوضہ کشمیر کے لہو لہان نوجوان لگاتے ہیں۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے توا س میں ایک وزیر محترمہ پی او کے(POK) کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں، چلئے، حساب برابر ہوا، کشمیر کے ایک حصے پر پاکستان قبضہ جمائے بیٹھا ہے ا وردوسرے پر بھارت، تو پھر فرق کیا رہ گیا۔ایسی کابینہ کشمیر کاز کے لئے سر دھڑ کی بازی کیسے لگا سکتی ہے۔قائد نے تو حکم دیا تھا کہ بھارتی جارحیت کو بزور طاقت کچل دیا جائے۔
سن دو ہزار میں نیویارک میں قاضی حسین احمد نے جب یہ خبر سنی کہ حزب المجاہدین کے سیکٹر کمانڈر نے جنگ بندی کاا علان کر دیا ہے توانہوں نے نصف شب کوبروکلن کے ایک پاکستانی بلڈر کے گھر پر مقامی صحافیوں سے خطاب کیا ، میں بھی حاضر تھا وہاں۔قاضی صاحب بپھرے ہوئے تھے، انہوں نے طیش بھرے لہجے میں کہا، ایک سیکٹر کمانڈر کو یہ اختیار کس نے دیا۔
سن دو ہزاردو میں جنرل مشرف نے ایڈیٹروں کو بلایاا ور کشمیر کے جہاد پر مشورہ مانگا مگر وہ ایک کابینہ میٹنگ سے اٹھ کے آئے تھے جس میںیہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ جہاد کشمیر آئندہ سے دہشت گردی میں شمار ہو گا اور پاکستان کی سر زمین بیرون ملک( دیکھئے پاکستان کی وفاقی کابینہ نے کس شاطرانہ انداز میں کشمیر کو بیرون ملک کہہ دیا) دہشت گردی( یعنی جہاد) کے لئے استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا۔اسی مجلس میں میرے رشد نظامی نے انگشت شہادت ہوا میں لہراتے ہوئے جنرل مشرف کو خبردار کیا تھا کہ وہ کشمیر سے غداری کریں گے تو اپنی کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ مگر اس روز سے پاکستان نے جنگ بندی لائن کو اس سے زیادہ کنٹرول کر لیاجتنی بھارتی فوج بھی نہیں کر سکتی تھی، کوئی پاکستانی اس کنٹرول لائن کو پار کرنے کی ہمت نہ کر سکتا تھا کیونکہ بھارتی مشین گنوں کا ٹریگر دبنے سے قبل ہی پاکستانی مورچوں سے ان نوجوانوں کے سینے چھید دیئے جاتے تھے، یہی وہ دور ہے جب بھارت نے کنٹرول لائن پر باڑ لگا لی،ا س سے پہلے بھارت ایسی کوشش کرتا تھا تو رینجرز فائر کھول کر بھارتی فوج کو بھگا دیتے تھے۔ورکنگ باؤنڈری ا ور پوری کنٹرول لائن پربھارتی خاردار باڑ جنرل مشرف کے دور کا جبر ہے جو مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ڈھایا گیا۔اور پاکستان کو اس کی شہہ رگ سے کاٹ دیا گیا،ا س پر قائد اعظم کی روح بھی تڑپ اٹھی ہو گی۔
یہی وہ و قت ہے جب نظریہ پاکستان کے ہیڈ آفس میں تشویش بھرا ایک اجلاس ہوا جس میں میرے مرشد مجید نظامی نے کہا کہ اگر جہاد کشمیر دہشت گردی ہے تو انہیں یہ لیبل قبول ہے اور وہ رضا کارانہ طور پر پیش کش کرتے ہیں کہ ا نہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموں چھاؤنی پر داغ دیا جائے، ان کا ولولہ دیکھ کرآپامہناز رفیع نے بھی کہا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس مہم کے لئے پیش کرتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ حافظ محمدسعید کشمیر پر خاموش رہیں کیونکہ ان کے بولنے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچتا ہے تو پھر کشمیر پر کون بولے گا، کون متحرک ہوگا۔دریائے جیحوں ا ور دریائے آمو کے پا رسے آنے والے لشکر وہیں کہیں سو چکے اور ان کے وہ گھوڑے جن کے سموں سے چنگاریاں اٹھتی تھیں، وہ انہی دریاؤں کے کنارے ہڈیوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے، اب غزنوی، غوری، ابدالی کے بجائے دہشت گرد ہم پر یلغار کرتے ہیں اور ہمارا خون پیتے ہیں، یہ تو خون آشام بلائیں ہیں، ویسی ہی بلائیں جیسی مودی کی بلا نازل ہو گئی ہے۔مودی کی بلا نہتے، بے گناہ کشمیریوں کو زندہ بھون ر ہی ہے۔مودی بھی واویلا مچاتا ہے کہ حافظ سعید کو قابو کرو، ہم بھی کہنے لگ جائیں کہ حافظ محمدسعید کو قابو کرو تو کشمیر کا نام لیوا کون ہو گا۔
کیا وہ کشمیر کانام لیں گے جنہوں نے آپریشن جبرالٹر کا مذاق اڑایا ، کیا وہ کشمیر کا نام لیں گے جنہوں نے کارگل کا مذاق اڑایا، شاید وہ کشمیر کانام لیں جن کے لیڈر نے کہا تھاکہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے مگر وہ تو اپنی زندگی کی جنگ ہار گیا،ا س نے یا اس کے پیرو کاروں نے کشمیریوں کے لئے کیا جنگ لڑنی ہے، شاید اس کے پیرو کار کشمیر کی جنگ لڑیں جس نے کنٹرول لائن پر اپنا دوپٹہ ہوا میں لہراتے ہوئے نعرے لگائے تھے، آزادی ! آزادی! مگر وہ بھی اپنی زندگی کی جنگ ہار بیٹھی اب، اس کے پیرو کار اپنی زندگیوں کو داؤ پر کیونکر لگائیں گے۔
کشمیر کے لئے دہشت گردی کا ارتکاب تو مودی کررہا ہے، حافظ محمدسعید کے ہاتھ میں ہے کیا، وہ تو زبان سے کشمیر کا نام لیتا ہے ، اس کی زبان سے کشمیر کا ذکر سن کر کشمیری نوجوانوں کے ولولے جا گ اٹھتے ہیں۔وہ بھی کشمیر کی آزادی کے نعر ے لگاتے ہیں، چراغ سے چراغ جلتا ہے اور کشمیر کا ہر نوجوان برہان وانی کی طرح اپنی جان نچھاور کر رہا ہے، برہان وانی کے ہاتھ میں بھی حافظ محمدسعید کی طرح کوئی ہتھیار نہ تھا۔مگر بھارت اس کو اپنا سب سے خطرناک دشمن سمجھتا تھ اکیونکہ وہ نعرہ لگاتا تھا، کیا چاہئے، آزادی، کیا مانگیں ، آزدی! آزادی ! آزادی !
اور برلن دیوار کو گرانے والے بھی تو نہتے تھے۔ بس ایک دن ان کا لہو کھول اٹھاا ور انہوں نے مکوں، ٹھڈوں، ہتھوڑوں سے دیوار برلن گرا دی۔
کشمیر کی ۔۔دیوار برہمن۔۔ بھی مکوں، ٹھڈوں اور ہتھوڑوں سے مسمار کر دی جائے گی۔باڑ کے پار بھارتی فوج دہشت گردی کا جو بازار گرم کئے ہوئے،ا سکا خاتمہ ہو کر رہے گا۔
بھارت بھی کہتا ہے کہ حافظ محمدسعید کشمیر پر اپنی زبان بند رکھے، ہم بھی اس کی پیروی میں آ نکھیں بند کر کے کہنے لگ گئے ہیں کہ حافظ محمدسعید خاموشی اختیار کر لیں۔ بھارت اور ہم یہ وعظ در اصل کشمیریوں کو مخاطب کر کے کر رہے ہیں، مگر کشمیری نوجوان، بھارت ا ور ہمارے وعظ کو کیوں در خور اعتنا سمجھیں گے، ان کا تو نعرہ ہے، آزادی ! آزادی! آازادی! اس نعرے سے بھارت کو تو ڈر لگتا ہے، ہمیں کیوں ڈر لگتا ہے۔ ہم جو غزنوی، غوری، ابدالی کی میراث کے والی ہیں، ایک ایٹمی طاقت ہیں۔ پھر بھی ڈرتے ہیں۔