محرم کی داستانوں میں ایک کہانی کااور اضافہ ہو گیا۔
پہلے مارشل لاایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل ایوب خاں کے سامنے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تن کر کھڑی ہوئیں تو چوتھے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل پرویز مشرف کے جبر کے سامنے جمہوریت کا پرچم لہرانے کا اعزاز بیگم کلثوم نواز کو حاصل ہوا۔ اس نے اپنے عمل اور قلم سے جبراور جمہوریت کی تاریخ قلم بند کی۔
کچھ لوگوں کے اندر چھپا ہوا بڑا انسان ان کی موت کے بعد اپناجادو جگاتا ہے۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے کے بعد شہرت دوام ملی۔ اور اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔ سید الشہدا امام حسینؓ کی لازوال قربانی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔
Maryam Nawaz Book click here
کلثوم نواز کا جسد خاکی اس قدر طاقتور ثابت ہوا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس مؤخر ہو گیا، نئے صدر مملکت کی پہلی تقریر ملتوی ہو گئی اور قوم پر نئے ٹیکسوں کا عذاب چار دن کے لئے ٹل گیا۔
اس نے ایک ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے موت کو گلے لگا لیا۔
اس نے نقادوں کو خاموش کرانے کے لئے خود خاموشی اختیار کر لی۔
ایک منافق معاشرے کے چہرے سے جھوٹ نوچنے کے لئے اسے سچ مچ سے مرنا پڑا۔
یہ خبر کوئی غیر معمولی نہیں تھی، ایک خاتون کی موت،کینسر کے عارضے میں علاج کے دوران موت۔ ایک سال پچیس دن تک علاج کے باوجود موت۔ کبھی ہوش کبھی بے ہوش، کبھی آئی سی یو کبھی کمرے میں، کبھی منہ پر وینٹی لیٹر، مگر کوئی جتن کام نہ آیا،۔ قدرت کی طرف سے جو منظور تھا، وہ گھڑی آ گئی اور مریضہ دم توڑ گئی۔ یہ معمول کی ایک موت تھی ، ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مگر ساتھ ہی کچھ غیر معمولی واقعات رونما ہوئے۔ اس نے لاہور کے حلقہ ایک سو بیس میں کاغذات داخل کروائے، اگلے روز وہ لندن جانے والے طیارے میں سوار ہو گئی، اس کی حریف پارٹی تحریک انصاف نے کہا کہ ایک یقینی شکست کے خوف سے اس نے باہر چلے جانے میں عافیت سمجھی مگر اس کی بیٹی نے مردانہ وار اس کی انتخابی مہم چلائی، اور وہ الیکشن میں جیت گئی مگر حلف اٹھانے کے لئے واپس نہ آ سکی تو مزید باتیں بنائی گئیں۔ اسے مختلف معانی پہنائے گئے، خبریں آتیں کہ اسکی طبیعت بگڑ گئی، اس کا خاوند اور اسکی بیٹی اس کی دیکھ بھال کے لئے اس کے پاس چند روز کے لئے چلے جاتے تو باتیںبنانے والوں کو نئی بات مل گئی کہ مقدمے اور سزا سے بچنے کے لئے وہ مریضہ کا بہانہ تراش رہے ہیں کسی نے کہا کہ بیماری محض ڈرامہ ہے۔ کسی نے بھی منہ کھولنے سے پہلے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس کا بائو جی اور اسکی بیٹی اس کے سرہانے کھڑے تھے کہ انہیں سزا سنا دی گئی، کہتے ہیں انصاف کی دیوی اندھی ہوتی ہے، یہ ایک یونانی الف لیلٰی کی کہانی تھی۔ باتیں بنانے والوںنے پھر باتیں بنائیں کہ باپ بیٹی سزا بھگتنے واپس نہیں آئیں گے اور مریضہ کی تیمار داری کے بہانے وہیں قیام بڑھا دیں گے مگر ایک دن دونوں باپ بیٹی نے واپسی کی ٹکٹیں کٹوائیں۔ پاکستان کے تمام ہوائی اڈوں پر ایف آئی اے کے لوگ ہتھکڑیاں لے کر انتظار میں کھڑے ہو گئے ، انہوں نے باپ بیٹی کو گرفتار کر کے اڈیالہ پہنچا دینا تھا۔ لاہور میں ان کے استقبال کے لئے میاں شہباز شریف نے اہل شہر کو کال دی۔ صوبے میں اسوقت ایک نگران حکومت تھی۔ اس کے وزیر داخلہ شوکت جاوید نے رعونت سے کہا کہ لاہور ایئر پورٹ کے ارد گرد خاردار تاروں میں بجلی چھوڑ دی گئی ہے۔ ایئر پورٹ کا علاقہ وفاقی حدود میں آتا ہے مگر اس کا کنٹرول غیر آئینی طور پر صوبائی حکومت نے غصب کر لیا تھا۔ باپ بیٹی کا طیارہ لاہور اترا، انہیں دوسرے جہاز میں بٹھا کر اڈیالہ لے جا کر بند کر دیا گیا۔ یہ بات لندن کے ہسپتال میں موت و حیات کی جنگ لڑنے والی مریضہ کو اسکے خاندان نے نہ بتائی، وہ ا س کے دکھوں میں کوئی نیا اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے وہ روزانہ مریضہ کو فون کرتے تھے، اب جیل والے انہیں ہفتے میں ایک بار فون کرنے کی اجازت دیتے، دکھوں کی ماری، قسمت کی ہاری مریضہ تڑپ کر پوچھتی تم لوگ کیا اتنے ہی مصروف ہو گئے ہو کہ اب دنوں بعد فون پر حال چال پوچھتے ہو۔ پھر ایک دن باپ بیٹی کمرہ عدالت میں تھے کہ سابق وزیر اعظم کے ایک ذاتی سٹاف افسر نے ان کے کان میں آ کر بتایا کہ لندن میں ان کی بیگم کی حالت تشویش ناک ہے، نواز شریف نے گھبراہٹ میں کہا کہ دوبارہ معلوم کرکے بتائو کہ اب ان کی حالت کیسی ہے۔ سٹاف افسر کمرہ عدالت سے باہر گئی اور آٹھ دس منٹ کے بعد آکر بتایا کہ ابھی حالت خطرے میں ہے۔ اس اثناء میں باپ بیٹی کو واپس اڈیالہ جیل ڈال دیا گیا۔ اور ادھر ملک بھر کے ٹی وی چینل یہ افسوسناک خبر دے رہے تھے کہ محترمہ کلثوم نواز انتقال کر گئی ہیں۔ جو لوگ ان کی بیماری کو ڈرامہ کہہ رہے تھے، ان کے لئے کلثوم نواز نے اس ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھر دیا تھا۔ پھر ہر طرف سے تعزیت کے پیغامات آنے لگے، احسن اقبال کی غیرت نے جوش دکھایا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی کی تعزیت کی ضرورت نہیں اور نہ مگرمچھ کے آنسو بہائے جائیں۔ تعزیت کرنے والوں میں وہ سب نمایاں تھے جنہوں نے اس خاتوں کو بیماری میں اکلاپے کا شکار کیا، اس کے خاوند اور اسکی بیٹی کو اڈیالہ میں بند کر دیا، مرنا ہر ایک کو ہے اور ایسی صورت حال کسی کو بھی پیش آ سکتی ہے مگر جو لوگ تکبر کے نشے میں مبتلا ہیں ، وہ اپنے انجام سے بے خبر ہیں اور اس شعر پر ایمان رکھتے ہیں کہ بلھیا اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور۔
تکبر اور نخوت کی کوئی حد نہیں ہوتی، ادھر کلثوم نواز کی رحلت کی خبر چل رہی تھی اور ساتھ ہی یہ متکبرانہ اعلانات ہو رہے تھے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو پانچ گھنٹوں کے لئے پیرول پر رہا کیا جائے گا۔ یہ اذیت ناک خبریں چلوانے والے کبھی اپنے عزیز کا کفن دفن پانچ گھنٹوں میں کر کے دکھائیں، ان کا ذکر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جلی حروف میں درج کیا جائے گا۔
ایک مریضہ جسے کسی ڈرامے کا کردار ظاہر کیا جارہا تھا، اسکی موت کی خبر متواتر کئی گھنٹوں تک چلتی رہی۔ اس پر تبصرے کرنے والے سینکڑوں کی تعداد میں گوہر افشانی فرما رہے تھے، یکا یک وہ خاتون جو جھوٹ موٹ کے لئے مریضہ کا کردار ادا کر رہی تھی، دنیا بھر کی شہہ سرخیوں کا موضوع بن گئی، اس لمحے میں نے سوچا کہ کلثوم نواز اگر اپنی زندگی میں بڑی لیڈر نہیں تھیں تو مر کر لیڈری کے اعلی مرتبے پر سرفراز ہو گئیں۔ ان کا ذکر محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، محترمہ بے نظیر بھٹو اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ کیا جا رہا تھا۔ اسے جمہوریت کی شمع روشن کرنے کا اعزاز دیا جا رہاتھا، فوجی آمر پرویز مشرف کے سامنے تن کر کھڑی ہونیوالے کلثوم نواز یکا یک ایک بیوی، ایک مریضہ، ایک ڈرامے کی اداکارہ سے لیڈر شپ کے بلند مرتبے پر فائز ہو گئیں۔ وہ مر کر امر ہو گئی تھیں۔
اس نے بڑے طعنے سنے کہ نواز شریف نے برسوں حکومت کی مگر اپنی بیوی کے علاج کے لئے ڈھنگ کا ایک ہسپتال بھی نہ بنوا سکے اور وہ شخص جو ایک ایک سانس میں دو کینسر ہسپتالوں کی تعمیر کا بلند بانگ دعوی کر رہا تھا ، وہ اس مریضہ کو یہ پیش کش نہ کر سکا کہ آیئے میرے ہسپتال میں علاج کروا لیجئے،۔ کیا فائدہ ان دو کینسر ہسپتالوں کا جن میں اس ملک کی تین بار فرسٹ لیڈی کلثوم نواز کو علاج کروانے کی پیش کش بھی نہ کی گئی۔ اور وہ دیار غیر کے آئی سی یو کے ایک گوشے میں دم توڑ گئی، اس کے سرہانے نہ اس کا بائو جی تھا، نہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹی، اگر انہیں اجازت دے دی جاتی کہ وہ جائیں اور آخری لمحات میں کلثوم کے سرہانے کھڑے ہو جائیں تو کیا وہ واپس نہ آتے۔ یہی اندیشہ تھا نا جس وجہ سے انہیں اڈیالہ کی کال کوٹھریوں میں بند رکھا گیا۔کیا بھٹو بھاگ گیا تھا، اگر نواز شریف اور مریم نواز نے بھا گناہی ہوتا تو وہ واپس کیوں آتے، کون لا سکتا تھا انہیںواپس۔ کوئی مشرف کو تو لا نہیں سکا۔
کلثوم نواز اس بدسلوکی کی مستحق تو نہ تھی جو اس سے روا رکھا، ایک طرف طاقتور ریاستی ادارے اور دوسری طرف کینسر کی ماری ایک نحیف ونزار خاتوں۔
اسی خاتون کے شوہر بھی لندن میں بائی پاس کروانے گئے۔ ان کی سرجری کو بھی ڈرامہ قرار دیا گیا۔ شریف خاندان بہت ہی شریف واقع ہوا ہے شاید کسی ملامتی فرقے سے تعلق رکھتا ہے کہ غالب کی طرح گالیاں کھا کے بھی بدمزہ نہ ہوا۔ تب مجھے اس خاندان کے ایک قریبی دوست سعید احمد چمن سے ایک تصویر ملی جس میں ہائیڈ پارک میں نواز شریف چہل قدمی کر رہے ہیں اور بیگم کلثوم نواز ساتھ ساتھ ہیں، نواز شریف کا چہرہ کیمرے کی طرف نہیں۔ اس پر تھکن اور اضمحلال طاری ہے، وفا شعار بیوی کی نظریں اپنے تھکے ہارے شوہر کے چہرے پر مرکوز ہیں کہ شاید وہ چلتے چلتے بے دم نہ ہو جائیں۔ ان کی نظریں تشویش سے لبریز ہیں۔ سعید احمد چمن نے مجھ سے حلف لیا کہ میں یہ تصویر کسی کے ساتھ شیئر نہیں کروں گا مگر میرے اندر کے اخبار نویس نے حلف توڑ دیا، اسے ملکی ٹی وی چینلز کو بھی جاری کیا اور انٹرنیٹ پر بھی ڈال دیا، یہ تصویر ملک بھر کے اخباروں کے صفحہ اول پر شائع ہوئی، اس تصویر میں بیگم کلثوم نواز کی بے چین نظریں دنیا کو یقین دلا رہی تھیں کہ ان کا خاوند کس اذیت میں مبتلا ہے، وہ ان اذیت ناک لمحوں میں اپنے شوہر کے قدم بہ قدم چل رہی تھیں مگر جب وہ خود آخری سانس لے رہی تھیں تو ان کا شوہر ان کے بستر مرگ سے ہزاروں میل کی مسافت پر تھا اور اڈیالہ کے ایک پنجرے میں بند۔ اس اکلاپے کی موت کو گلے لگا کر بیگم کلثوم نواز امر ہو گئیں اور دنیا کے صف اول کے لیڈروں میں ان کا شمار ہو رہا ہے۔ بہت کم لوگ اس صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ ایک ڈرامے کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے موت کو گلے لگا لیں۔ کلثوم نواز نہیں مریں، ہماری انتقامی سیاست کا جنازہ اٹھ گیا۔
میں نوازشریف اور مریم نواز کی جگہ ہوتا تو پیرول پر رہا ہونے سے انکار کر دیتا، امر اور زندہ جاوید انسانوں کو ابدیت کی قبر میں اتارنے کے لئے کسی کے کندھوں کی ضرورت نہیں ہوتی، نواز شریف اور مریم نواز نے میاں شریف کی تدفین میں شمولیت سے محرومی کا عذاب برداشت کیا تھا، ایک جھٹکا اور سہہ لیتے۔ حسن اور حسین کا فیصلہ درست ہے کہ وہ فریکنسٹائن نما چہروں پر مبنی اس معاشرے سے دور رہیں۔