خبرنامہ

کچھ میری ،کچھ دفاعی ترجمان کی باتیں…اسد اللہ غالب

کچھ میری ،کچھ دفاعی ترجمان کی باتیں…اسد اللہ غالب

انہوںنے تو مجھ جیسے چھتیس فیصد بڈھے بابوں سے خطاب ہی نہیں کیا تو پھر وہ میرے تجزیئے کو کیا اہمیت دیں گے۔ مگر میرا پیشہ تو لکھنا ہے اور لکھتے ہی رہنا ہے۔ توایک طریقہ یہ ہے کہ میں لفظ بہ لفظ ان کی تقریر نقل کردوں تاکہ قارئین کے لئے ایک دستاویز محفوظ ہو جائے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں صرف واہ واہ کہنے پر اکتفا کروں۔ اور سبحان اللہ کہہ دوں ۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی تقریر جھاڑدوں اور پاکستان سے بھارت کی عداوت کی الف لیلی نوائے وقت کے نقطہ نظر سے پیش کروں کیونکہ بھارت کے خلاف لکھنے والے کو نوائے وقتیا کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور وہ تو میں ہوں۔ مگر جنرل صاحب تو پاکستان کی چونسٹھ فی صد نئی نسل کے لئے تاریخ کے حقائق پیش کر رہے تھے۔ یہ وہ نسل ہے جس کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں مگر روزگار نہیں، جو صرف موبائل فون پر وقت گزارتے ہیں۔سوشل میڈیا پر ہی محبت یا نفرت کرتے ہیں،وہیں بے روزگاری کے دن کاٹتے ہیں یا وہیں سے کچھ کمائی بھی کر کے پیٹ پالنے کی کوشش کرتے ہیں، ریاست کے پاس ان کے لئے روزگار نہیں، صحت کی سہولتیں نہیں۔ حتی کہ پینے کو صاف پانی تک نہیںجنرل صاحب نے بھارتی میڈیا کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا کے رویئے پر اطمینان کااظہار کیا۔ بھارتی میڈیا واقعی ہتھ چھٹ واقع ہوا ہے ۔ اس کی پہلی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ بس ایٹمی بٹن دبا کر ہی دم لے۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا ایسے لگتا ہے کہ جیسے دھنیا پی کر سو گیا ہو یا بھاٹی گیٹ میں سپیرے کے شو میں سانپوں کی طرح اسے افیم کھلا کر مست کر دیا گیا ہو۔ مگر یہی پاکستانی میڈیا ملکی سیاست پر طوفان کھڑا کر دیتا ہے اور اس کے ٹاک شو کے مہمان چیخ چیخ کر گلا پھاڑ لیتے ہیں۔ بھارت پر بات کرتے ہوئے پاکستانی میڈیا بے بہرہ بن جاتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ کہیں سے کوئی حکومتی یا دفاعی ترجمان ہی کوئی بات کرے توا سکے ٹکر چلا کر سنسنی پھیلانے کا شوق پورا کر لے۔یہی اس کے لئے بڑی عیاشی ہے۔بھارت پر منہ کھولنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی یہ فتوی نہ لگا دے کہ حافظ سعید کی زبان بول رہے ہو۔ بھارت کے خلاف بولنا صرف حکمرانوں کا استحقاق ہے۔ بولیں یا نہ بولیں۔ کبھی کوئی حکمران یہ کہہ دے کہ بھارت سے کشمیر پر ہزار سال تک جنگ لڑیں گے اور کبھی کوئی حکمران یہ کہہ دے کہ یہ واہگہ کی لکیر کیوں ہے۔ کبھی یہ کہہ دے کہ بھارت سے کولڈاسٹارٹ یا ہاٹ اسٹارٹ کے لئے تیار ہیں اور کبھی کوئی یہ کہہ دے کہ سیاچن پر تو گھاس تک نہیں اگتی۔ یہ حکمران کی مرضی ہے کہ وہ اپنے آئی ایس آئی چیف کو حکم دے کہ وہ بھارت جا کر ان کی تشفی کرے ۔ کبھی کوئی حکمران یہ کہہ دے کہ بھارت ثبوت دے،۔ ہم خود مجرموں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ویسے افغانوںنے بھی امریکہ سے کہا تو یہی تھا کہ اسامہ کے خلاف ثبوت دے ۔ ہم خود مقدمہ چلائیں گے۔ امریکہ نے یہ شرط نہیں مانی تو بھارت کیوںمانے گا ۔ امریکہ سپر پاور ہے اور بھارت اپنے آپ کو منی سپر پاور سمجھتا ہے۔میں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہماری فوج میںحمیت اور غیرت باقی ہے۔ جنرل صاحب کا ایک ایک لفظ اسی حمیت اور غیرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ انہوںنے قوم کو یاد دلایا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔وہ کئی بار پاکستان کے خلاف جارحیت کر چکا ہے۔ اسے دو لخت بھی کر چکا ہے اور موقع پا کر سیاچن پربھی قابض ہو گیا جہاں دنیا کے بلند تریںمحاذ جنگ میں ہماری افواج سیسہ پلائی دیوار بنی بیٹھی ہیں۔جنرل صاحب نے بار بار کہا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر جارحیت کا جواب دینے کے لیئے پوری طرح تیار ہے۔ اصل میں جنرل صاحب نے اس بیانیے کو ذرا تفصیل سے پیش کیا ہے جسے وزیر اعظم نے انتہائی مختصر خطاب میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی۔ لگتا یہ ہے کہ جنرل صاحب کی بریفنگ وزیراعظم کی تقریر کی تشنگی دور کرنے کے لئے کی گئی۔ وزیر اعظم نے انتہائی سنگین مسئلے پر انتہائی مختصر بات کی۔ چھ ستمبر پینسٹھ کو ایوب خان کا خطاب بھی انتہائی مختصر تھا مگر ان کی تقریر نے پوری قوم میں ایک ولولہ پیدا کر دیا تھا۔ ایوب خان کے الفاظ ان کے دل سے نکل رہے تھے۔ آج بھی ایوب خان کی تقریر سن لیں تو انسان وطن عزیز کے لئے مر مٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے،حکمران کی تقریر ایسی ہی مختصر ہونی چاہئے اور ایسی نہ ہو کہ ا سکی تشریح کے لئے کسی اور کو لمبی چوڑی تقریر کی زحمت اٹھانی پڑے۔ چلیے یہ رموز مملکت ہیں اور مملکت چلانے والے جانیں۔ میں اپنے ا س نکتے کو پھر سے دہراناچاہتا ہوں کہ جنرل صاحب نے پلوامہ حملے کی ذمہ داری ایک کشمیری نوجوان پر ڈال کر پلوامہ کا سارا بیانیہ ہی بدل ڈالا۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ یہ ناٹک خود مودی کا رچایا ہوا ہے کہ وہ الیکشن مہم میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ مگر جنرل صاحب نے کشمیری نوجوان کی طرف توجہ موڑ دی۔ تو پھر مودی نہیں ، ہمیں اس کشمیری نوجوان کو دوش دینا چاہئے۔اگر ہم یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ بھارت ہمارے لئے مصائب کھڑے کرتا ہے تو اس بیانیئے کے ساتھ ہی ہم کشمیری نوجوان کا ذکر نہ کرتے تو ہمارا موقف مزید مضبوط ہو جاتا۔ بھارت یقینی طور پر پاکستان کے لئے مصائب پیدا کرتا ہے اور پاکستان کو بڑے بڑے فوائد سے محروم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ سی پیک کو سبو تاژ کرنے کے لئے اس کے کل بھوشنوں کی فوج سرگرم عمل ہے۔اب تو بھارت نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ پاکستان آنے والے تین دریا کلی طور پر بند کر دے گا۔ یہ دریا پہلے ہی بھارت کے تصرف میں ہیں۔ بیاس کہیں بھی پاکستان میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ ستلج کو فیروزپور ہیڈورکس پر بند کر دیا گیا اور ہیڈ سلمانکی تک پاکستان کی سرزمین بے آب و گیاہ پڑی ہے۔ راوی کی حالت بھی لاہور کے پلوں پر کھڑے ہو کر دیکھی جا سکتی ہے۔ رہے جہلم اور چناب تو ان پر بھی بھارت نے اتنے ڈیم تعمیر کر لئے ہیں کہ پاکستان کا سرسبز ترین علاقہ پنجاب بھی اگلے چند برسوں میں صحرا کا منظر پیش کرنے لگے گا، بھارتی جارحیت صرف یہ نہیں کہ وہ ہماری طرف چند گولے پھینکے بلکہ آبی جارحیت کو بھی اسی طور لینا چاہئے جس پر ہم من حیث القوم خاموش اور مہر بہ لب ہیں ۔ بھارت نے اگلے مرحلے میں سندھ کے پانی سے بھی پاکستان کو محروم کرنے کے لئے ہمارے اندرایک مضبوط لابی پیدا کر لی ہے جو اس دریاپر ہمیں کوئی مزید ڈیم تعمیر کرنے سے روکتی ہے۔ بھارت کو کل بھوشن بھیجنے کی ضرورت نہیں،ہم خود کل بھوشن کا کردار ادا کرنے کے لئے اپنی خدمات بھارت کو پیش کر رہے ہیں۔ ہماری افواج کو ایسے عناصر پر بھی نظر رکھنی چاہئے اور اگر یہ عناصر دہشت گردوں سے بڑھ کر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو ایک ضرب عضب یا رد ا لفساد ان کے خلاف بھی ترتیب دیا جانا چاہئے۔پاکستانی قوم کو فوج کے ساتھ ہونا چاہئے لیکن یہی پاکستانی قوم اکہتر میں اپنی کاروں پر کرش انڈیا کے اسٹکر لگائے راوی کا پل پار کرنے میں پیش پیش تھی۔ اب ایسا نہ ہو کہ کڑا وقت ا ٓنے پر دبئی کی پروازیں بھر جائیں۔میں تین دنوں میں اپنی ایک بات تیسری بار دہرانا چاہوں گا کہ آپس کی لڑائی سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کو بھارت سے لڑائی کا انتظار کر لینا چاہئے۔۔ یہ لڑائی نہ ہو تو پھر شوق سے آپس میں لڑنا لڑنا کھیلتے رہیں۔ آخر میں جنرل صاحب سے گزارش ہے کہ جب تک ہم چھتیس فیصد بڈھے بابے سانس لے رہے ہیں تو کبھی ہم سے بھی مخاطب ہوں ، کبھی ہم سے بھی مکالمہ کریں۔