خبرنامہ

کیا مودی کو ابھی نندن نے جتوایا….اسد اللہ غالب

کیا مودی کو ابھی نندن نے جتوایا….اسد اللہ غالب

کیا مودی کو ابھی نندن نے جتوایا….اسد اللہ غالب

ہر کوئی کہہ رہاتھا کہ مودی جیت تو جائے گا مگر مودی چاہتا تھا کہ بے پناہ اکثریت سے جیتے۔اس کیلئے اس نے پاکستان کے خلاف سخت گیر رویہ اختیار کیا۔

میرا یہ سوال اس تناظر میںہے کہ مودی نے وکٹری تقریر میں تین بار ابھی نندن کا ذکر کیا۔ ظاہر ہے وہ اسے ہیرو کہہ رہے تھے اور اس پر فخر کا اظہار کرر ہے تھے ۔ یہ بھی ہانک رہے ہوں گے کہ انہوںنے ابھی نندن کو پلک جھپکنے میں رہا کروا لیا۔ یہ بھی کہا ہو گا کہ انہو ں نے پاکستان میں ایک بار، نہیں دو بار گھس کے مارا۔ پہلے سرجیکل اسٹرائیک انہوںنے بالا کوٹ پر کی جو پاکستان کی سرحد کے اندر اسی میل کے فاصلے پر ہے ۔ ہم نے بالا کوٹ تک آنے والے بھارتی طیاروں کو نشانہ نہیں بنایا۔ دوسرے دن بھی اس جہاز کو گرایا جو آزاد کشمیرکی سرحد کے اندر تھا ۔

بھارتی الیکشن میں پاکستان بھی ایک فیکٹر تھا اور مودی نے اسے کامیابی سے استعمال کیا۔ اس نے پلوامہ کی آڑ میںپاکستان کے خلاف شعلے اگلے اور کہا کہ اب بھارتی افواج کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ جیسے چاہیں، جب چاہیں ،جہاں چاہیں پاکستان کو نشانہ بنائیں۔مودی اپنے عوام کے جذبات بھڑ کانے میں کامیاب ہو گیا۔ بھارتی میڈیا ایسے کلپ دکھا رہا تھا جس میں راجستھان کی جانگلی عورتیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ اس پاکستان کو ایک ہی وار میں مزہ چکھا دیا جائے ، اس نے کہا کہ وہ اپنے چار بیٹوں کو اس جنگ میں قربان کر سکتی ہے اور بعد میں دس اور پیدا کر لے گی مگر پاکستان کے خطرے کا ایک ہی بار سد باب کر دیا جائے۔ مودی کو کسی نے ڈرایا کہ پاکستان کے پاس ایٹم بم ہیں تو مودی نے جوب دیا کہ کیا ہمارے ایٹم بم دیوالی کے لئے رکھے ہیں،مودی کے مخالفین نے الزام لگایا کہ بی جے پی پلوامہ میںمرنے والوں کی تصویریں اپنے جلسوں کے سٹیج پر سجا رہی ہے اور ان کے خون کی قیمت پرالیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ مودی کوکو الیکشن جیتنا تھا۔وہ اس کے لئے کوئی بھی حربہ اختیار کر سکتا تھا۔ اس نے پاکستان فیکٹر کے ساتھ ساتھ اپنے حریفوں کو آڑے ہاتھوں لیاا ور ایک جارحانہ الیکشن مہم چلائی۔ اسے جو گالیاںپڑیں ۔اس نے انہیں مالا میں پرویا اور ان گالیوں کو گلے کاہار بنا لیا۔ اس نے راہول اور ممتا بینر جی پر جوابی وار کئے اور راجیو گاندھی تک کو کرپشن کا پہاڑ کہہ دیا ،اس نے برسوں پرانا بوفورس اسکینڈل اچھالا اور اعلان کیا کہ الیکشن کے بعد اس کی نئے سرے سے تحقیقات ہو گی۔ مودی پر الزام لگا کہ اس نے رافیل سودے میں پیسے کھائے۔ اسے چوکیدار چور کہا گیا اور اس نے کہا کہ میں چوکیدار تو ہوں مگر کسی کو چوری نہیں کرنے دوں گاا ور جس نے چوری کی ہے، اس سے واپس لے کر چھوڑوں گا، اس لحاظ سے مودی کی الیکشن مہم کم و بیش پاکستان میںعمران خان کی الیکشن مہم کا چربہ بن گئی۔ نہیں چھوڑوں گا۔ جیلوں میں ڈالوں گا، مقدمے بنیں گے، یہی کچھ بھارت میںبھی کہا گیا۔مودی کو اس جارحانہ لب و لہجے کا فائدہ ہوا۔ خاص طور پر وہ پوچھتا تھا کہ کانگرس نے ستر برس تک راج کیا اور بھارت کو کھلواڑ بنا ڈالا۔ پاکستان میں عمران خان نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو یہی طعنہ دیا تھاا ور لوگوںنے اس کی باتوں کا یقین کر لیا تھا پاکستانی عوام اب بھی یہی سن رہے ہیں کہ ستر برسوں کی لوٹ مار کو راتوں رات ٹھیک نہیںکیا جا سکتا، مودی بھی کہتا ہے کہ وہ بیس پچیس برس تک حکومت میںرہے گاا ور دوسری طرف وہ اپنے حریفوں کی دولت کے انبار کی طرف اشارے کررہا تھا۔ الیکشن جیتنے کیلئے داخلی ایجنڈامودی کے لئے کافی تھا مگر اس نے تہیہ کر لیا کہ اس بار تین سو کو پار کرنا ہے اور اب وہ اکیلا تین سو باون سیٹیں جیت چکا ہے ۔ اس شاندار کامیابی کے لیے اسے پاکستان فیکٹر کو استعمال کرنا پڑا۔ اور یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہا۔ اس نے پلوامہ کا الزام جیش محمد کو دیا، تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ یو این او میں چین نے اظہر مسعود کے خلاف ویٹو استعمال نہیں کیا اور اب اسے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے ۔بھارت نے واویلا مچا کر حافظ سعید کو بھی اندر کروا دیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے فیصلوں کی ٹائمنگ مودی کے حق میںگئی۔ مودی نے عوام سے یہ بھی کہا ساری عمر صرف روس ہی بھارت کے حق میں ووٹ دیتا تھا اور باقی دنیا اس کے خلاف ووٹ دیتی تھی مگر بھارتی پروپیگنڈے کی وجہ سے اب کایا پلٹ گئی ہے اور پاکستان کا ساتھ صرف چین دیتا ہے اورساری دنیا ا سکے خلاف ووٹ دیتی ہے۔ آگے چل کر اظہر مسعود کے مسئلے پر چین بھی پاکستان کا ساتھ چھوڑ گیا۔ مودی نے ایک منطق یہ بگھاری کہ ہمیں ساری عمر دنیا سے کشمیر کا طعنہ سننا پڑتا تھا مگر اب پہلی بار دنیا کشمیر کا نام نہیں لیتی صرف دہشت گردی کے خاتمے کی بات کرتی ہے۔ مودی کا مطلب یہی ہے کہ وہ کشمیر کی جنگ آزادی کو دہشت گردی ثابت کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اور آگے چل کر خدشہ یہ ہے کہ وہ کشمیریوں کی مبینہ دہشتگردی کی سرپرستی کا الزام پاکستان پر دھرے گا اورا سے دنیا میں نکو بنا دے گا۔

میںنے ابھی نندن کا قصہ چھیڑا تھا۔ ابھی نندن ایک فرد نہیں، ایک علامت ہے جس پر مودی نے الیکشن میں بھاری اکثریت لینے کی کوشش کی۔ ابھی نندن پاکستان میں گھسا تھا۔ پاکستان ہی نے اس کے جہاز کو گرایاا ور اسے گرفتار کیا مگر ادھر اس کی گرفتاری کی خبرچلی ادھر بھارتی جنگ جو میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھا لیا کہ ان کے ہیرو کو فوری واپس کیا جائے۔ عالمی قوانین میں جنگی قیدی کی فوری واپسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اکہتر میں پاکستان کے جنگی قیدی برسوں بعد واپس آ سکے تھے۔ بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے ماہی گیروں کو پکڑتے ہیں مگر ا ن کو بھی فوری واپس کرنے کی کوئی روایت نہیں۔ پاکستان نے کل بھوشن کو پکڑا ہوا ہے ۔ برسوں بعد بھی وہ پاکستانی جیلوںمیں بند ہے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کئی برس سے امریکہ کی قید میں ہے مگر ا س کی رہائی کی کوئی امید نہیں۔

پاکستان نے ریمنڈ ڈیوس کو قتل کے الزام میں پکڑا ۔ اسے بھی راتوں رات واپس نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان ہی نے اپنے ایک ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پکڑ رکھا ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے امریکہ کو اسامہ کے گھر کی خبر دی۔ امریکہ کا دبائو ہے کہ پاکستان اسے رہا کرے مگر ہم اسے رہا نہیںکر رہے۔ پینسٹھ کی لڑائی میں بھارتی فضائیہ کے سرابراہ کا پائلٹ بیٹا پاکستان میں پکڑا گیا۔ ایوب خان اس کے والد کے پرانے دوست تھے۔انہوں نے ا س کے والد کو فون کیا کہ و ہ ا پنے بیٹے کو منگوا لیں مگر بھارتی ایئر مارشل نے جواب دیا کہ جب سارے بھارتی قیدی رہا ہوں گے تو اس کابیٹا بھی آ جائے گا۔ مگر اب سمجھ نہیں آئی کہ ابھی نندن کی فوری واپسی کیسے عمل میں آ گئی۔ بھارتی میڈیا دو باتیں کرتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ امریکہ نے ا سکی فوری واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ بھارت نے اپنے آٹھ براہموس میزائل پاکستان کے نشانوں پر لگا دیئے اور اس خوف سے پاکستان ابھی نندن کو چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ وجہ جو بھی ہو ، ابھی نند ن فوری واپس گیاا ور اس کا استقبال ایک ہیرو کے طور پر کیا گیا۔ مودی نے وکٹری تقریر میں ابھی نندن کا تین بار نام لیا تو وہ بھی یہی ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ اسکی فوری واپسی مودی کی سخت گیر پالیسی کا نتیجہ تھی۔ جب الیکشن ہو رہاہو تو عوام کسی سورما کی تلاش میںہوتے ہیں۔ یا کسی مسیحا کی تلاش میں۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں میںنے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ابھی نندن مودی کی کامیابی کا باعث بنا۔ اس پر بحث ہونی چاہئے۔ مگر مجھے خدشہ ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ مودی کے یار نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل میں بیٹھ کر اس کے لئے مہم چلائی۔

ویسے کوئی بتائے گا کہ ہمارے دو ہزار قیدی سعودی عرب سے واپس آ گئے ہیں یا نہیں جس کا وعدہ پرنس محمد بن سلمان کر گئے تھے