ہم آخر چاہتے کیا ہیں….محمود بھٹی
محمود بھٹی کی داستان میں آنسو بھی ہیں‘ عزم بھی اور کامیابی کا تاج بھی‘ یہ لاہور سمن آباد میں پیدا ہوا‘ والدین ہوش سے قبل فوت ہو گئے‘ بہن بھائی بڑے تھے‘ مصروف تھے اور وہ اسے ’’اون‘‘ نہیں کرتے تھے‘ پانچ چھ سال کی عمر میں محنت مزدوری شروع کی‘ وہ اینٹیں‘ بوریاں اور چھان بورا اٹھا کر بڑا ہوا‘ کھانا داتا دربار سے کھاتا تھا‘ اسکول ٹاٹ والا تھا اور یتیم ہونے کی وجہ سے چند آنے کی فیس بھی معاف تھی‘ وہ گلیوں میں خوار‘ خراب اور پریشان ہو کر بی اے کر گیا‘ بی اے کے بعد کیا کرے؟
یہ اس کی زندگی کا مشکل ترین سوال تھا‘ اس کا ایک دوست علی اس دوران پیرس چلا گیا‘ وہ اس سے خط وکتابت کرتا رہتا تھا‘ علی نے محمود بھٹی کو پیرس آنے کی دعوت دے دی‘ پاکستانیوں کو 1970ء کی دہائی میں فرانس کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
محمود بھٹی نے اپنے تمام عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں سے ادھار لیا اور یہ 1977ء میں پیرس چلا گیا‘ اس کی عمر اس وقت صرف 17 سال تھی‘ وہ اٹیچی کیس لے کر دوست کے گھر گیا‘ دوست علی دو لڑکوں کے ساتھ ایک گندے اور بدبودار کمرے میں رہتا تھا‘ اس نے اسے کھانا کھلایا لیکن ساتھ رکھنے سے انکار کر دیا‘ وہ اٹیچی کیس اٹھا کر باہر نکل گیا‘ باہر برف باری ہو رہی تھی‘ درجہ حرارت منفی دس تھا اور محمود بھٹی اس منجمد موسم میں سر پر اٹیچی کیس رکھ کر لنڈے کا ہلکا سا کوٹ پہن کر اجنبی ملک کی ٹھنڈی گلیوں میں پھر رہا تھا‘ مشکلات کا وہ دور انتہائی مشکل تھا‘ وہ ان دنوں کچرہ گھروں سے کھانا نکال کر کھاتا تھا‘ کوئی دروازہ کھلا ملتا تھا تو وہ انگلیوں کو نوالے کی شکل دے کر منہ تک لاتا تھا اور پھر ہاتھ پھیلا دیتا تھا۔
لوگ رحم کھا کر اسے کھانے کی اشیاء دے دیتے تھے‘ وہ میٹرو اسٹیشنوں اور پلوں کے نیچے سوتا تھا اور دس دس گھنٹے رو رو کر خدا سے مدد مانگتا تھا‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ایک پاکستانی نے اسے فرنچ زبان کا ایک فقرہ سکھا دیا‘ وہ فقرہ ’’میں بے روزگار ہوں‘ مجھے کام چاہیے‘‘ تھا‘ وہ ہر دکان‘ ہر ریڑھی اور ہر دروازے پر جا کر یہ فقرہ دہراتا تھا اور جواب میں انکار سن کر آگے بڑھ جاتا تھا‘ وہ کام کی بھیک مانگتے مانگتے درزیوں کی ایک چھوٹی سی دکان پر پہنچ گیا‘ وہ دکان یہودی کی تھی اور یہودی ایک چھوٹا سا فیشن ڈیزائنر تھا‘ یہودی نے اسے ورکشاپ کی صفائی کا کام دے دیا۔
وہ سارا دن سویپر کا کام کرتا تھا‘ شام کو پیکنگ کرتا تھا اور جب تھک جاتا تھا تو ورکشاپ کے ٹھنڈے فرش پر سو جاتا تھا‘ اللہ تعالیٰ نے اسے آگے بڑھنے کا جذبہ دے رکھا تھا چنانچہ وہ ورکشاپ کے فرش اور باتھ روم دھوتے دھوتے فیشن ڈیزائننگ‘ لباس کی تیاری اور لباس کی مارکیٹنگ کا کام سیکھ گیا‘ مالک نے اسے سیل ڈیپارٹمنٹ میں شفٹ کر دیا‘ وہ ٹوٹی پھوٹی فرنچ بھی بول لیتا تھا‘ خوبصورت‘ جوان اور بھولا بھالا تھا لہٰذا وہ بہت جلد گاہکوں میں پاپولر ہو گیا‘ اللہ نے مدد کی‘ کمپنی کے ورکروں اور کمپنی کے مستقل گاہکوں نے اس کا ساتھ دیا اور محمود بھٹی نے 1981ء میں اپنی کمپنی بنا لی۔
وہ فرانس کا پہلا ڈیزائنر تھا جس نے ڈیزائننگ کی کوئی فارمل تعلیم حاصل نہیں کی تھی‘ وہ محنتی تھا‘ لگن تھی‘ ہمت تھی اور غربت کی ایک طویل اذیت تھی چنانچہ وہ ڈٹا رہا اور پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک کامیاب ڈیزائنر بن گیا‘ کمپنی میں چھ سو ملازمین ہو گئے‘ ان میں پیرس کے بہترین ڈریس ڈیزائنر بھی شامل تھے‘ اس نے اس بزنس میں اربوں روپے کمائے‘ دنیا بھر کے میڈیا نے اس کے انٹرویوز کیے‘ اس پر تین فلمیں بنیں‘ کتابیں لکھی گئیں‘ ٹیلی ویژن کے لائیو شوز ہوئے‘ اخبارات میں آرٹیکل چھپے اور وہ فیشن کی دنیا کا سیلبریٹی بن گیا۔
محمود بھٹی کامیابی کے اس سفر میں تین خبط میں مبتلا تھا‘ وہ اس پاکستان میں اپنی شناخت چاہتا تھا جس میں اس نے انتہائی غربت دیکھی تھی‘ جس میں اس کی فیملی بھی اسے اون نہیں کرتی تھی اور جس میں وہ اسکول کی کتابیں اور یونیفارم بھی لوگوں سے مانگ کر استعمال کرتا تھا چنانچہ وہ جو رقم کماتا تھا اسے پاکستان بھجوا دیتا تھا‘ اس نے پاکستان میں پراپرٹی بھی بنائی‘ سیکڑوں بچیوں کی شادیاں بھی کرائیں‘ طالب علموں کو وظائف بھی دیے‘ لوگوں کا مفت علاج بھی کرایا اور غریبوں کو گھر بھی بنوا کر دیے۔
دوسراخبط‘ وہ پاکستان میں اسپتال بنانا چاہتا تھا‘کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ تھی‘ وہ دس سال کی عمر میں شدید بیمار ہو گیا ‘ اسے محلے کے لوگ اٹھا کر میو اسپتال لائے‘ وہ کئی دن اسپتال میں رہا‘ان دنوں وارڈ کی چھت ٹپکتی تھی‘ فرش گندے تھے‘ اسپتال میںادویات موجود نہیں تھیں اور ڈاکٹرز نہ ہونے کے برابر تھے‘ فیملی کے لوگ اسے اسپتال میں پھینک کر بھول چکے تھے‘ کوئی اس سے ملنے نہیں آتا تھا‘ وہ عید کے دن بھی اسپتال میں اپنے گھر والوں کا انتظار کرتا رہا۔
اس نے اس وقت اپنے آپ سے وعدہ کیا اگر اللہ تعالیٰ نے ہمت دی تو وہ پاکستان میں ایک اچھا اسپتال بنائے گا اور تیسرا خبط‘ وہ پاکستان کی پہلی فیشن یونیورسٹی بنانا چاہتا تھا‘ اس کا خیال تھا وہ فارمل ایجوکیشن کے بغیر ایک اچھا ڈیزائنر بن گیا‘ اگر پاکستان کے بچوں کو فیشن کی تعلیم دی جائے تو وہ محمود بھٹی سے اچھے ڈیزائنر بن سکتے ہیں‘ محمود بھٹی اپنی پیرس کی کمائی پاکستان شفٹ کرتا رہا‘ اس نے تین ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر 1997ء میں ڈی ایچ اے لاہور میں نیشنل اسپتال کی بنیاد رکھی‘ یہ اسپتال چل پڑا‘ اس میں اس وقت 275 بیڈز اور135 اسپیشلائزڈڈاکٹرز ہیں‘ ملک کے بے شمار نامور ڈاکٹر یہاں کام کرتے ہیں۔
محمود بھٹی نے بیدیاں روڈ پر جگہ خرید کر فیشن یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھ دی‘ یہ یونیورسٹی ابھی شروع نہیں ہوئی‘ یہ اسے ڈیزائن کرا رہا تھا‘ یہ 2007ء میں مکمل طور پر پاکستان شفٹ ہو گیا‘ اپنی ساری دولت باقاعدہ بینکوں کے ذریعے پاکستان منتقل کی اور باقی زندگی اس ملک میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا تاہم اس کے بچے امریکا میں رہتے ہیں‘ اس نے اسپتال پر بہت سرمایہ اور وقت لگایا‘ یہ پاکستان کے چند پرائیویٹ اسپتالوں میں شامل ہے جس میں 6 کنال کا پارکنگ پلازہ ہے اور اس پلازے کی تعمیر پر 18 کروڑ روپے خرچ ہوئے لیکن پھر 30ستمبر2018ء کا دن آگیا‘ اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا‘30 ستمبر کو محمود بھٹی کے ساتھ کیا ہوا ؟وہ کلپ اب تک پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔
محمود بھٹی نے دو اکتوبر کی رات مجھے فون کیا اور ہچکیوں کے ساتھ رونا شروع کر دیا‘ وہ بار بار کہہ رہا تھا یہ میرا ملک تھا‘ میں پوری دنیا سے پیسہ کما کر یہاں لایا‘ میں اپنی آخری زندگی یہاں گزارنا چاہتا تھا لیکن مجھے آج پتہ چلا یہ ملک میرا نہیں‘ میں یہاں صرف پیدا ہوا تھا‘ میرا اصل ملک وہ فرانس یا امریکا ہے جس نے مجھے رزق بھی دیا‘ شناخت بھی اور عزت بھی‘ میں فرانس میں جب سویپر تھا اور فرش پر سوتا تھا تو اس وقت بھی کسی نے میری عزت نفس اپنے پاؤں میں نہیں روندی تھی‘ لوگ اس وقت بھی میری عزت کرتے تھے‘ وہ کہہ رہا تھا میں ڈاکٹر نہیں ہوں‘ میں نے صرف یہ اسپتال بنایا اور میں اس کی مینجمنٹ دیکھتا ہوں۔
یہ ایک پرائیویٹ اسپتال ہے‘ ہم نے اس پر دو ارب روپے سے زیادہ سرمایہ لگایا‘ آپ صرف اس کی ہیٹنگ اور کولنگ کے بل اور لوئر اسٹاف کی تنخواہیں نکال کر دیکھ لیں‘ ہم پٹی‘ سرنج اور پانی تک بازار سے خریدتے ہیں‘ہم اگر افورڈ کرنے والوں سے پیسے نہیں لیں گے تو یہ اسپتال کیسے چلے گا؟ مریض یہاں اپنی مرضی سے آتے ہیں‘ہماری فیسیں طے ہیں‘ جو نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے‘ ہم اسے زبردستی نہیں لاتے‘ یہ اسپتال ملکی قوانین کے مطابق ریاست کی مرضی سے بنا۔
اگر ریاست کو پسند نہیں تھا تو ریاست ہمیں اجازت نہ دیتی‘ ہم اسپتال نہ بناتے‘ ریاست کو اگر آج بھی یہ اسپتال نہیں چاہیے تو یہ بند کر دے‘ دوسرا اگر اسپتال کا معیار ٹھیک نہیں یا ہم زیادہ چارج کر رہے ہیں تو آپ اسے سیل کر دیں لیکن آپ کو میری بے عزتی کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ میں نے کس رنگ اور کس قسم کے کپڑے پہننے ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص یہ اعتراض نہیں کر سکتااور وہ بار بار کہہ رہا تھا ’’میں کل فرانس واپس جا رہا ہوں‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ملک جا رہا ہوں‘‘۔
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا‘ مجھے اگلے دن پتہ چلا محمود بھٹی نے اپنے تمام پراجیکٹس بند کر دیے ہیں‘وکلاء کواپنی پراپرٹی اونے پونے بیچنے کا اختیار دے دیا ہے اور وہ پیرس واپس چلا گیاہے‘ میری کل اس سے دوبارہ بات ہوئی‘ وہ پیرس پہنچ چکا تھا‘ اس نے روتے ہوئے کہا‘ میں پاکستان کو چھوڑ آیا ہوں‘ میں اپنے ملک آ گیا ہوں اور اب میری زندگی کا صرف ایک مقصد ہے میں پوری دنیا میں بکھرے ہوئے سابق پاکستانیوں کو بتاؤں گا پاکستان آپ کا ملک نہیں‘ آپ کے ملک وہ ہیں جو آپ کو روزگار‘ شناخت اور عزت دے ر ہے ہیں‘ محمود بھٹی کی بات سن کر میرا دل لرز گیا ۔
میری اس مملکت کے تمام صاحبان اقتدار سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر یہ فیصلہ کر لیں کیا آپ کو واقعی محمود بھٹی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے! ہم کیا لوگ ہیں‘ ہم ایک طرف کشکول اٹھا اٹھا کر پوری دنیا میں پھر رہے ہیں‘ ہمارے وزیراعظم ڈیم کے لیے لوگوں کی منتیں کر رہے ہیں اور ہم دوسری طرف محمود بھٹی جیسے لوگوں کو ذلیل کر کے نکال رہے ہیں‘ ہم خود اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں نہیں بنا پاتے‘ ہم سے اسپتال بھی نہیں بنتے اور اگر بن جائیں تو ہم چلا نہیں سکتے لیکن اگر محمود بھٹی جیسا کوئی مقدر کا مارا آ جائے تو ہم پہلے اسے سسٹم کے ہاتھوں ذلیل کرتے ہیں اور پھر آخر میں اسے رلا کرباہر نکال دیتے ہیں‘ ہم آخر چاہتے کیا ہیں؟۔