خبرنامہ

ہو سکتا ہے الثانی خاندان نے لندن فلیٹس نوے کی دہائی میں شریف فیملی کیلئے خریدے ہوں :سپریم کورٹ

اسلام آباد (ملت + آئی این پی) پاناما کیس کی سماعت ، سپریم کورٹ نے شریف خاندان کی منی ٹریل سے متعلق کئی سوالات پوچھ لیے ، ہو سکتا ہے الثانی خاندان نے نوے کی دہائی میں لندن فلیٹس شریف خاندان کے لیے خریدے ہوں ، قطری خط میں صرف سرٹیفکیٹس قطر میں ہونے کا ذکر ہے ، دیکھنا ہوگا نواز شریف کا سرمایہ تو لندن فلیٹس میں نہیں لگا ۔ حسن ، حسین نواز کے وکیل کہتے ہیں عمران خان نے کہہ دیا ان کا کام صرف الزام لگانا ہے ، وہ کوئی ثبوت نہیں دے سکے ۔ پانامہ کیس سماعت کے دوران شریف فیملی کی منی ٹریل پر عدالت نے تیکھے ریمارکس دیئے ۔ وزیر اعظم نے کہا جائیداد بچوں کی ہے ، مریم سے پوچھا تو جواب ملا وہ ٹرسٹی ہیں ، حسین نواز کہہ رہے ہیں ہمارے پاس کچھ نہیں ، عدالت کو کچھ نہیں بتانا اور کہیں کرلیں جو کرنا ہے تو پھر کیا ہوگا ؟ ہو سکتا ہے الثانی خاندان نے نوے کی دہائی میں شریف خاندان کے لیے فلیٹس خریدے ، قطری خط میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ جائیداد الثانی خاندان کی تھی صرف سرٹیفکیٹس قطر میں ہونے کا ذکر ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میاں شریف کے 2004 میں انتقال کے بعد جائیداد ورثاء میں تقسیم ہونی تھی مگر تقسیم 2009 میں ہوئی ، دیکھنا ہو گا 2006 میں فلیٹس کے لیے وزیر اعظم کا سرمایہ تو استعمال نہیں ہوا ۔ عدالت نے ریمارکس دئیے آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے ، 13 سال فلیٹس میں رہیں گے تو انگلی آپ کی ہی طرف اٹھے گی ۔ ہر معاہدے میں بینکوں کا ذکر ہے مگر 12 ملین درہم کے معاملے میں کیش کی بات کی جاتی ہے ۔ اونٹوں پر رقم لادنے کے ریمارکس پر سلمان اکرم راجا نے کہا 1980 میں ہزار درہم کا نوٹ ہوتا تھا ، اتنی رقم کے لیے اونٹوں ضرورت نہیں پڑتی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر تھا نہ ہی طارق شفیع کے بیان حلفی میں ، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ قطری خاندان کے ذکر سے پہلے ان کی رضامندی لینا ضروری تھی ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خواجہ سعد رفیق کا نام لیے بغیر کہا کہ جب وزیر اعظم کی کتاب کے صفحے گم ہونے کے ریمارکس پر ایک رکن اسمبلی نے عدالت کو ڈانٹ دیا کہ ہمیں نظر نہیں آتا ۔ سلمان اکرم راجا کے دلائل کل بھی جاری رہیں گے ۔