خبرنامہ

Pervez Elahi Always Prevails (4)…اسد اللہ غالب

Pervez Elahi Always Prevails (4)…اسد اللہ غالب

کرکٹ میں گوگلی انداز میں عبد القادر نے عروج پر پہنچایا۔ گو گلی سیاست کی جادو گری ہم نے چودھری پرویز الٰہی کی شکل میں دیکھی۔ اور یہ زمانہ ہے مشرف کے زوال کا، مگر یہ زمانہ پرویز الٰہی کے عروج کا ثابت ہوا۔اور یہ سب کچھ میری سمجھ سے باہر اور بالا تر ہے۔ کیا صرف یہ کہہ دیا جائے کہ قسمت قسمت کی بات ہے۔ اللہ جسے چاہے چھپر پھاڑ کر دے۔لیکن نہیں یہ پرویز الٰہی کی ایسی کرشماتی صلاحیتوں کا ظہور تھا جو اب تک اسکے ذہن میں چھپی ہوئی تھیں۔ شطرنج کی چالوں اور سیاست کی چالوں میں بہت زیادہ فرق نہیں۔پرویز الٰہی نے گوگلی پہ گوگلی ماری۔کیسے ۔ دانتوں میں انگلی دبایئے اور سنتے جایئے۔بے نظیر شہید ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ مارک سیگل کو ایک ای میل ڈال گئی تھیں کہ میں شہید ہو جائوں تو جن لوگوں پر مقدمہ چلے ان میں پرویز الٰہی کو بھی شامل کیا جائے،لاڑکانہ میں زرداری نے صف ماتم پہ بیٹھے ہوئے کہا کہ ق لیگ قاتل لیگ ہے مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ زرداری کو اپنی حکومت بچانے کے لیے بندوںکی ضرورت پڑ گئی ،وہ بھول ہی گیا کہ اس نے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار دے رکھا ہے، بس چشم فلک نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا کہ پیپلز پارٹی نے ق لیگ کی طرف دست تعاون بڑھایا اور اگلے ہی لمحے بے نظیر کی ای میل کا نامزد قاتل اور زرداری کے بقول قاتل لیگ کا لیڈر چوہدری پرویز الٰہی، یوسف رضا گیلانی کے پہلو میں ڈپٹی وزیر اعظم بن کر براجمان ہوگیا ، سیاسی اور حکومتی ضروریات بڑے بڑوں کا ذہنی خمار جھاگ کی طرح بٹھا دیتی ہیں ۔ کچھ یہی صورتحال اٹھارہ کے الیکشن کے بعد دیکھنے میں آئی ۔ جب تحریک انصاف کو مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانے کے لیے بندوں کی ضرورت پڑی ، زرداری کی طرح عمران خان کو بھی اپنی ماضی کی باتیں بھولنا پڑیں کیونکہ جب انہوں نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا دے رکھا تھا تو وہ اپنی ہر تقریر کے کلائیمیکس پر یہ طعنہ ضرور دیتے کہ پرویز الٰہی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے۔سیاسی تقریریں اور حکومتی تقاضے بالکل الگ الگ باتیں ہیں ،عمران خان کو پرویز الٰہی کی طرف دست تعاون بڑھانا پڑا ، پرویز الٰہی کو ایک سنہری موقع ہاتھ آیا تھا، انہوں نے عمران خان کا ہاتھ جھٹکا نہیں، اسے آگے بڑھ کر تھام لیا۔پرویز الٰہی نے مرکز میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے میں مدد دی اور پنجاب میں بزدار کی حکومت کو سہارا دیا ۔اس تعاون کے صلے میںعمران خان نے کچھ وعدے کیے تھے، ایک وعدہ تو فورا ایفا کر دیا کہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا اسپیکر بنا دیا، باقی وعدے ،وعدہ فردا ثابت ہوئے۔عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کے صبر کا امتحاں لینا چاہا۔چوہدری پرویز الٰہی نے کسی لمحے بھی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب بھی کوئی نازک وقت آیا تو بس وہ عمران خان کو ان کے وعدے یاددلا دیتے ،ایک باپ کے طور پر چوہدری پرویز الٰہی کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا مونس الٰہی وفاق میں وزیر بنے ،پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور نے ایک بار مونس الٰہی سے ملاقات بھی کی اور یار لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مونس وزیر بنا ہی بنا مگر معاملہ ٹال مٹول کا شکار ہو کر رہ گیا۔وفاقی حکومت اپنے ہی بندوں اور چہیتوں کے ہاتھوں بحرانوں کا شکار ہوئی تو چوہدری پرویز الٰہی کی امید کی کلی کھل اٹھی ۔ انہوں نے اپنی خاندانی اور روایتی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہنے کا اشارہ دیا۔ اس پر مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ کا حلف دے دیا گیا ،میں اپنی کم علمی اور ناقص فہم کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں اپنے قارئین کو یہ نہیں بتا سکتا کہ مونس الٰہی کو محکمہ کیا دیا گیا۔ اس صورتحال کے باوجود پرویز الٰہی نے عمران خان کا ہاتھ اور ساتھ نہیں چھوڑا ۔وفاق اور پنجاب کی حکومت پر کڑا وقت روز آتا ہے اور پرویز الٰہی روز کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کی ٹرم پوری کرے گا اور پنجاب کا وزیر اعلیٰ بزدار بھی کہیں نہیں جائے گا۔ پرویز الٰہی کو عمران خان سے گلے شکوے بہت ہیں، انکے بڑے بھائیوں جیسے چوہدری شجاعت حسین جرمنی میں علاج کروانے گئے اور صحت یاب ہوکر واپس آئے تو عمران خان ان کا حال پوچھنے ان کے گھر نہ جا سکے ،اس کا گلہ چوہدریوں نے کئی بار کیا ،اندر کی کہانی جاننے والے کہتے ہیں کہ عمران خان کو گلہ ہے کہ جب فضل الرحمٰن نے دھرنا دیا تو چوہدریوں نے اپنے گھر پر فضل الرحمن کو کیوں ٹھہرایا اوراس کی خاطر تواضع کیوں کی ۔چوہدری صاحبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ وضع داری میں کیا اور عمران خان کے بھلے کے لیے کیا کیونکہ ان کی خاطر تواضع کے نتیجے میں مولانا فضل الرحمن دھرنا ختم کرکے اسلام آباد سے واپس چلے گئے تھے۔چوہدری کہتے ہیں کہ ہم نے حکومت پر احسان کیا اور حکومت نے الٹا ہم پر شک کیا ۔کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی جو پرویز الٰہی کے گھر پر بنی تھی ۔اس ویڈیو میں وہ جہانگیر ترین کی خاطر تواضع کرتے نظر آتے ہیں ۔دونوں حضرات بلند آواز سے یہ گلا کرتے سنائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بلا وجہ ان دونوں کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں ۔اب ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں چوہدری سرور خوشی کے مارے کہتے ہیں کہ ان کی چوہدری پرویز الٰہی سے گاڑھی چھنتی ہے ۔سیاست کے بازار میں اتار چڑھائو کوئی غیر فطری اور غیر معمولی بات نہیں ،سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اگر ہوتا بھی ہے تو وہ موم جیسا، کبھی ایک پیارا بن جاتا ہے کبھی دوسرا پیارا لگنے لگ جاتاہے ۔زرداری کے دور میں چوہدری پرویز الٰہی کا ڈپٹی وزیر اعظم بن جانا اور عمران خان کے دور میں پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بننے والا،عقل اور سمجھ میں آنے والی باتیں نہیں ہیں،آپ اسے مقدر کا کھیل کہہ لیں ،آپ اسے چوہدریوں کی وفاداری کہہ لیں یا آپ اسے سودے بازی قرار ددے لیں مگر جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور میں پھر کہتا ہوں کہ یہ عقل اور فہم سے ماورا ہے

کیا چوہدریوں نے اس مفاہمتی سیاست کی وجہ سے لوٹ مار کا بازار گرم کیا یا ملک کو سیاسی استحکام بخشا ۔یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بظاہر چوہدریوں نے مشرف کا ساتھ نبھایا تو منتخب اداروں نے اپنی آئینی ٹرم پوری کی،چوہدری تو مزید آگے جانے کو بھی تیار تھے انہوں نے تو کہا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو دس مرتبہ وردی میں صدر منتخب کروائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرف نے خود ہی راہ فرار اختیار کرلی ۔

چوہدریوں نے زرداری کا ساتھ نبھایا، تب بھی منتخب اداروں نے پانچ سالہ آئینی ٹرم پوری کی اب چوہدریوں کا گھرانہ عمران خان کے ساتھ ہے تو ہر شخص سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ آج تک عمران خان کی حکومت کو ذرہ بھر نقصان نہیں پہنچا ،چوہدریوں کو گلے پیدا ہوگئے ہیں ،چوہدری پرویز الٰہی نے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ پنجاب حکومت اتحادیو ں کا ساتھ نہیں نبھارہی جبکہ وزیر اعلیٰ بزدار نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم ایک ساتھ چلیں گے ۔حالات اس موڑ پر ہیں کہ تالی بجے گی تو دونوں ہاتھوں سے، ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔اس وقت بڑا فریق پی ٹی آئی ہے اس لیے اسے سسٹم چلانے کے لیے بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔(جاری)