خبرنامہ

say no to war…اسد اللہ غالب

بھارتی فوج کی کنٹرول لائن پر

say no to war…اسد اللہ غالب

میں نہ بزدل ہوں نہ پاکستان کو ایک کمزور ریاست تصور کرتا ہوں لیکن میں آج اپنی سابقہ پوری زندگی کی روش سے ہٹ کر بات کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔

پاکستان میں ایک نئی حکومت آئی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ملک کی معیشت پٹڑی پر چڑھ جائے۔ باہر سے نقد امداد بھی مل رہی ہے۔ قرضے بھی مل رہے ہیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی آرہی ہے۔ پٹرول بھی م¶خرا دائیگی کی شرط پر ملنے کی آس پیدا ہوئی ہے۔ ایک سی پیک ہی سرے چڑھ جائے تو ہمارے سارے دلدر دور ہو جائیں گے۔ہمیںپرامن ماحول کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ نئی حکومت کرپشن کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے اور چوروں ڈاکووں کو ان کے انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔ نیب اور ایف ا ٓئی اے بھی بڑے مالی مجرموں پر ہاتھ ڈال چکی ہے اور ڈھیر ساری تحقیقات ہنوز زیر عمل ہیں جنہیں کسی منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لئے ملک کو سکون کے طویل وقفے کی ضرورت ہے۔

بھارت اس ماحول کو پراگندہ کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے الجھ رہا ہے۔بھارت کو پاکستان سے لڑائی جھگڑے کی ضرورت اسلئے بھی ہے کہ وہاںنئے الیکشن ہو رہے ہیں اور مودی ان میں فتح حاصل کرنے کے لئے انتہا پسندی کے جذبات بھڑکا رہا ہے۔ پلوامہ کے سانحے کو اس نے خوب اچھالا۔ یہ سانحہ ایک کشمیری نے کیا ۔ پاکستان کا اس سے دور کاتعلق بھی نہ تھا مگر اس نے پاکستان کے خلاف وہ دھول اڑائی کہ خدا کی پناہ۔ا ور اسی دھول میں اس نے پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کرنے کا دعوی کر دیا۔ ایساہی ایک دعوی اس نے چند برس قبل اڑی حملے کا بدلہ لینے کے لئے بھی کیا تھا۔ بھارت کو پاکستان مخالف جذبات بھڑکا کر فائدہ پہنچتا ہے۔ مگر ہمارے لئے جذبات کی رو میں بہنا سودمند نہیں۔ جب ہم کہہ رہے ہیںکہ بھارت کی گزشتہ رات کی سرجیکل سٹرائیک محض ایک ڈرامہ تھی اور اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیںہوا، ہم نے عالمی میڈیاا ور مبصرین کودعوت دی ہے کہ وہ موقع پر آ کر آنکھوں سے دیکھ لیں کہ بھارتی طیاروںنے کون سے جہادی کیمپ تباہ کئے ہیں تو پھر اتنا اطمینان ہی کافی ہے۔

میں خود ان لوگوںمیں شامل رہاہوں جو قوم سے بارہا

کہتے رہے ہیںکہ ہمیں لڑنے کی نہیں مرنے کی تیاری کرنی چاہئے۔ ہمارا یہ بھی نظریہ ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو دن کی زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن جب وقت آئے گا تو یہ سب کچھ کریں گے اور ضرور کریں گے۔ یہ ہم نے پینسٹھ میں کر دکھایا تھا۔ پھر بھی کر سکتے ہیں مگر آج بھارت کی انگیخت کا اثر ہمیں قبول نہیں کرنا چاہئے۔ وہ سو ارب آبادی کا ملک ہے۔ اس کی معیشت کا حجم ہم سے کئی سو گنا بڑا ہے۔ ہمارے پاس چند ماہ کے ریزرو ہیں۔ ہم سیاسی بکھیڑوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے کبھی جنگ مسلط کی تو ہم ضرور آخری قطرہ خون اورآخری سانس تک لڑیں گے۔

اب دو مزید اقدامات ہو چکے ہیں۔ ایک تو پاکستان اور بھارت کی فضائیہ کی ایک مڈ بھیڑ ہوئی ہے اور بھارت کے دو جہازوں کو گرا لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک جہاز کاملبہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں جا گرا۔ بھارت کا پائلٹ ہماری قید میں جو زخمی ہے اور ا س کا علاج ہو رہا ہے۔ فوجی ترجمان نے یہ ساری تفصیل بتاتے ہوئے اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ مسئلہ جنگ سے نہیں، مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ پاک فضائیہ کی کارروائی صرف سیلف ڈیفنس میں کی گئی کیونکہ ہمارے جہازوں کو بھارتی طیاروںنے چیلنج کیا تھا۔ دوسرے ہم نے بھارت کو دکھایا ہے کہ ہم بھی جوابی کارروائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم بھارت کے بعض ٹارگٹس کو نشانہ بنانا چاہتے تھے، ان کا نشانہ بھی لے چکے تھے اور ہماری کوشش تھی کہ کسی انسانی جان کا نقصان بھی نہ ہو مگر بھارتی فضائیہ نے ہمارا راستہ روکا تو پھر ہمیں اپنی حکمت عملی بدلنا پڑی اور ان جہازوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ظاہر ہے پاک فضائیہ کے جہاز ایکشن نہ کرتے تو بھارتی طیارے ایکشن میں پہل کر سکتے تھے۔

آئی ایس پی آر کی بریفنگ میں دیئے گئے پیغام کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے نشری خطاب کیا اور بھارت کو ایک بار پھر پیشکش کی کہ وہ پلوامہ کے مجرموں کی نشاندہی کرے۔ان کے بارے میں ثبوت دے ، ہم پوری کارروائی کریں گے۔ اس کے ساتھ وزیر اعظم نے جنگ کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کو پیشکش کی کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے پر مذاکرات کرے۔

پاکستان مذاکرات کی بار بار پیش کش کر چکا ہے۔ کمپوزٹ مذاکرات کا سلسلہ بھارت ہی نے روکا ہوا ہے۔

سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے بھارت کے ساتھ جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے، اس میں بھی جامع مذاکرات پر ہی زور دیا گیا ہے ۔اعلامئے میں کہا گیا کہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنانا چاہئے۔ اس اعلامئے پر بھارت کے دستخط بھی ہیںمگر بھارت نے محمد بن سلمان کی ایک نہیں سنی اور پاکستان پر چڑھائی کر دی جس کے جواب میں پاکستان کو کارروائی کرنا پڑی۔ اس طرح صورت حال کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔

پاک بھارت تنازعہ کو بڑھاوا دینے میں کسی کا فائدہ نہیں، دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خبردار کر دیا ہے کہ ایٹمی جنگ چھڑی تو یہ جنگ نہ ان کے ہاتھ میں رہے گی نہ مودی کے ہاتھ میں۔ اس لئے تباہی سے بچنے کے لئے بات چیت کی جائے۔

مجھے ذرا امید نہیں کہ بھارت ہماری پیشکشوں پر غور بھی کرے گا۔ وہاں الیکشن کا زمانہ چل رہا ہے۔ مودی ان میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، اوپر سے بھارت پہلے ہی انتہا پسندوں کے نرغے میں ہے۔ بھارتی میڈیا پر جنگی جنون طاری ہے۔ وہ ہر قیمت پر پاکستان کے خلاف اپنے عوام کو بھڑکا رہا ہے۔ عوام بھڑکیں گے تو ان کی حکومت اور افواج کو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ کب تک ہوتا رہے گا۔ کوئی ہے جو اس دیوانگی اور جنون کا راستہ روکے۔ لڑائی کی کوئی وجہ ہو تو لڑائی ضرور لڑنی چاہئے مگر جب وجہ کوئی نہ ہو تو پھر لڑائی کا راستہ اختیارکرنا نری حماقت ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوان ایک ہی سلوگن شیئر کریں: say no to war