TTP سے جنگ بندی کیلئے مذاکرات میں پیش رفت، حکومت نے کئی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کرلیا
پشاور
TTP سے جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور حکومت نے کئی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحریک طالبان پاکستان سیز فائر کا اعلان کرے گی، پہلے مرحلے میں رہائی پانے والوں میں محمود خان، مسلم خان اور مولوی عمر کے نام شامل ہیں۔
امن معاہدہ چند روز میں منظر عام پر آئے گا۔ امن مذاکرات رواں برس فروری میں شروع ہوئے تھے، جس میں افغان طالبان نے ضامن کا کردار ادا کیا، البتہ پاکستانی حکام اور ٹی ٹی پی ترجمان محمد خراسانی نے باضابطہ طور پر اس پیش رفت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق، حکومت پاکستان اور افغانستان میں پاکستانی طالبان کے درمیان مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور اسلام آباد نے پہلے مرحلے میں 102 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس کے بدلے میں ٹی ٹی پی سیز فائر کا اعلان کرے گی۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ان قیدیوں کو یکم نومبر کو رہا کیا جانا تھا لیکن چند تکنیکی وجوہات کے سبب اس میں تاخیر ہوئی اور پھر 4 نومبر کو رہائی کا فیصلہ ہوا تاہم ناگزیر وجوہات کے سبب ایک بار پھر ایسا نا ہوسکا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ کچھ قیدی جن میں سوات کی اعلیٰ طالبان قیادت بھی شامل ہیں ان میں محمود خان اور مسلم خان کو ممکنہ رہائی کے پیش نظر افغانستان لے جایا گیا ہے۔ مسلم خان، طالبان سوات کے ترجمان تھے۔ انہیں اور محمود خان سمیت کچھ سینئر طالبان رہنمائوں کو سیکورٹی حکام نے 2009 میں اجلاس کے لیے بلایا تھا لیکن اس کے بعد وہ واپس چلے گئے تھے۔ یہ رپورٹس بھی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان مولوی عمر بھی پہلے مرحلے میں رہائی پانے والوں میں شامل ہیں۔
تاہم، پاکستانی حکام اور طالبان ترجمان محمد خراسانی نے باضابطہ طور پر اس پیش رفت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ البتہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ قیدیوں نے اپنے گھروالوں کو 13 برس بعد فون کرکے اپنے بارے میں بتایا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن عمل میں زیادہ تر مسائل ختم کردیئے گئے ہیں اور طرفین نے مستقبل کے ایجنڈے پر اتفاق کیا ہے۔ مذاکرات میں شامل ٹیم کے ایک رکن نے اپنا نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی رہنمائوں کے درمیان متعدد کامیاب اجلاس ہوئے ہیں۔
پہلا اجلاس کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا، جس کے بعد دو سیشنز افغانستان کے سوبہ خوست میں ہوئے جہاں دونوں جانب سے بامقصد مذاکرات کی تجاویز پیش کی گئیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امن مذاکرات پہلے رواں برس فروری میں قبائلی ضلع باجوڑ سے شروع ہوئے تھے جب مولوی فقیر محمد کے قریبی کچھ مذہبی قبائلی رہنمائوں نے حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان فرق کو ختم کروانے میں اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ مولوی فقیر محمد باجوڑ میں ٹی ٹی پی رہنما تھے اور کبھی وہ حکیم اللہ محسود کے بعد سب سے اہم سمجھے جاتے تھے۔ افغان افواج نے انہیں افغانستان میں گرفتار کرکے بگرام جیل منتقل کردیا تھا۔
وہ ان ہزاروں قیدیوں میں شامل تھے جنہیں افغان طالبان نے قابل پر قبضے کے بعد رہا کیا تھا، جب کہ پاکستانی طالبان نے انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ایک بڑے قافلے میں کنڑ لے جایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وہ جب پہلے حکومتی اور فوجی حکام سے ملے تھے تو انہوں نے امن مذاکرات پر اتفاق کیا تھا اور انہیں افغانستان میں پاکستانی طالبان رہنمائوں سے رابطے کا کہا تھا۔
ابتدائی طور پر دو رکنی وفد افغانستان گیا اور وہاں ٹی ٹی پی کے سینئر رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں، جنہوں نے ان سے اتفاق کیا لیکن کہا کہ وہ صرف بامعنی مذاکراتی عمل کا حصہ بنیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد دو مزید رہنمائوں کو مذاکراتی ٹیم کا حصہ بنایا گیا جو حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عدم اعتماد کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خوست میں مزید دو اجلاس ہوئے جو نتیجہ خیز رہے اور طرفین نے فیصلہ کیا کہ امن عمل کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس حوالے سے سرکاری طور پر پہلے ایک بیان جاری ہوا جسے بعد میں واپس لے لیا گیا اور کہا گیا کہ حکومت دوبارہ اس بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری کرے گی۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ کابل فتح ہونے سے بھی امن عمل میں خاصی مدد ملی کیوں کہ پھر افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے درخواست کی گئی کہ وہ طرفین کے درمیان بامعنی مذاکرات میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس کے بعد افغان طالبان نے یہ ذمہ داری سراج الدین حقانی کو سونپی جو کہ افغانستان کے وزیر دفاع ہیں۔ جب کہ مولوی فقیر محمد نے خود بھی امن عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ہم پرامید ہیں کہ امن عمل کی راہ میں زیادہ تر رکاوٹیں ختم ہوچکی ہیں۔ جب کہ امن معاہدہ بھی آئندہ چند روز میں منظر عام پر آجائے گا۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان کے تمام دھڑوں کو امن مذاکرات سے قبل اعتماد میں لیا گیا تھا اور سب نے ہی اس کی حمایت کی تھی۔ جب کہ افغان طالبان نے مجوزہ امن معاہدے میں ضامن بننے پر بھی اتفاق کیا تھا۔