خبرنامہ

معرکہ راجستھان عبدالرحمن صدیقی کے قلم سے

معرکہ راجستھان عبدالرحمن صدیقی کے قلم سے
ریگستان کے مزاج میں ایک تنوع اور رنگارنگی ہوتی ہے۔ صبحیں کہر آلود، سہ پہر تُرش اور گھٹی گھٹی سی اور راتیں خنک اور شبنم آلود۔ جھٹپٹاہوتے ہی فضا پراسرار خامشی میں ڈھل جاتی ہے۔ کراںتاکراں مہیب سناٹا پھیل جاتاہے۔ ریگزار کی ان وسعتوں میں ایک ننھی سی چڑیا بھی دکھائی نہیں دیتی اور جب سورج دہکتی ہوئی آگ کا گولہ بن کر فق کے کناروں کوجھک جھک کر چھوتے ہوئے ڈوبنے لگتاہے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ مناظر قدرت کی سحر کاری میں دلکشی پیدا کرنے کے لئے نظر نہ آنے والی پریاں دبے پاﺅں خامشی کی غیر مرئی چادرلئے اترنے لگی ہوں ۔ ایسے میں جس بلندی پر میں چپ سادھے مناظر قدرت کی حنائی پر محوحیرت کھڑا ہوں وہاں سے مجھے دشمن کے مورچے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔میں دیکھ سکتاہوں کہ سپاہی اپنے رات کے گشت پرجانے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔ اس وسیع و عریض ریگستان میں رات ہی ایک ایسا وقفہ ہے جب سپاہی اور بھی زیادہ شب زندہ دار و بیدار ن©ظر آتاہے۔ اسے چوکنا اور ہو شیار رہنا پڑتاہے۔ کیا پتہ سامنے والے ریت کے تودوں کے پیچھے دشمن گھات میں بیٹھا ہو؟ اس وقت دشمن کی عیارانہ چالوں اور خفیہ نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنا پڑتی ہے۔بغیر اس بات کا خیال کیے ہوئے کہ اسے شکست و ریخت کے بعد بہت پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور وہ ریت کے بے پناہ انبار میں منہ چھپائے د بکا پڑا ہے۔ مگر اس کے باوجود ذراسی چوک اور غفلت سے بھی نقصان پہنچنے کا احتمال باقی رہتاہے اس لئے چاق و چوبند رہنا بہت ضروری ہوتاہے۔
اور جب نیا چاند شفق کے لال گوں پاروں کو جلو میں لئے نیلی آسمان کی چادر کی اوٹ سے باہر آتاہے تو کسی انجانے جذبے سے مغلوب ہو کر دل کی گہرائیوں سے عروس شعر کابانکپن آپ سے آپ ہونٹوں پر آکر سازو آواز میں ڈھل جانے کےلئے بے چین ہونے لگتاہے۔ اور غیر شعوری طور پر ایک والہانہ انداز میں آپ کے ہونٹوں سے بہادر صحرا نشینوں کے پرانے رجزیہ نغمے پھوٹ پڑتے ہیں، اور اس طرح آپ کے ذہن میں اسلام کے نورین کارناموں کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے۔ آپ کو وہ کہانیاں یاد آجاتی ہیں جو عرب کے صحرا نشینوں نے ریت کے ذروں پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ثبت کر رکھی ہیں اور آپ حال سے ماضی کی طرف لوٹ کر ماضی کی تابناکیوں میں بہنے لگتے ہیںلیکن دفعتاََ آپ پھر ماضی کی تاریخ سے حال کی طرف پلٹ آتے ہیں اور آپ کو احساس ہوتاہے کہ تاریخ آپ کے نقش قدم سے وابستہ ہے۔
راجستھان میں پاکستان آرمی نے ایک طاقتور اور عیار دشمن کے مقابلے میں ایک بار پھر تاریخی کارنامے سر انجام دیا ہے۔ یہاں ہماری فوج کو ایک بار پھر اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا ہے۔ ایک ایسے دشمن کے خلاف جو چوری چھپے اپنے توپ خانے اور بکتر بند دستوں کے ساتھ ہم پر چڑھ آیا تھا۔ یہاں اس ریگزار کی وسعتوں میں پاکستانی فوج نے جان بازی و دلیری کی وہ داستان رقم کردی ہے جو ابدالا باد تک قائم رہے گی۔ یہاں ہم نے نہ صرف دشمن کی یلغار کا سارا طلسم پارہ پارہ کردیا بلکہ اسے افراتفری میں سرپر پاﺅں رکھ کر بھاگنے اور اپنی مملکت کا بہت بڑا حصہ ہمارے حوالے کرنے پر مجبور کردیا۔ یہاں ہمارے جوانوں نے ثابت کر دیا کہ وہ جب اور جہاں چاہیں دشمن کو جالیتے ہیں۔خواہ وہ سر چکر دینے والی ٹیٹوال کی بلندی ہو یا پنجاب کے میدانی علاقوں سے لے کر راجستھان کے نشیبی ریگزار ہوں ۔ وہ ان کی پیش قدمی کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔
صبح کے چھ بجے ہوں گے اور میں اپنے فلم یونٹ کے ساتھ ایک ٹرالی میں فورس ہیڈکوارٹر ز کی طرف جارہا تھا۔ گردوپیش کا منظر کہر کی دبیز چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ چھ سات فٹ سے آگے کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اوس کے قطروں سے دامن صحر بھراہوا تھا۔ اور شبنم کی نمی دھیرے دھیرے ہمارے کپڑوں میںگھستی اوررچتی جارہی تھی۔ میری عینک کے شیشوں پر دھند چھاگئی تھی ۔ میں نے اسے اتار کر صاف کیاتاکہ اپنے آس پاس کی چیزوں کو اچھی طرح دیکھ سکوں حالانکہ ریگستان کی اکتادینے والی غیر مختتم یکسانیت کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہ تھی جسے دیکھا جاسکے۔ہماری ٹرالی ایک دھچکے کے ساتھ ریت کی ایک اور پہاڑی کے پاس آکر رک گئی ۔ اس پہاڑی کے پیچھے فورس ہیڈکوارٹر ز تھا جہاں سے ہندوستانی جارحیت کے خلاف ایک بہت بڑے جوابی حملے کامنصوبہ تیار کرکے اس پر عمل کیا گیاتھا۔ میں ٹرالی سے نیچے اتر پڑا اور ریت میرے پاﺅں کے بوجھ سے بکھر کر نیچے دھنسنے لگی اور میرے جوتوں میں گھس گئی اور مجھے ایک قسم کی کھسکھساہٹ سی محسو س ہونے لگی ۔
جب میں اس پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا تو میں نے دھند میں ایک مضبوط مورچے کے آثار دیکھے جسے اچھی طرح قلعہ بند اور محفوظ بنایا گیا تھا۔ اس کے اوپر جو جھاڑ جھنکاﺅ لگائے گئے تھے وہ گردوپیش کا ایک حصہ نظر آرہے تھے ۔ فضا میں ریڈیو اور ٹیلی فون کی پیغام رسانی سے دبا دباسا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ یہ پیغام ہیڈکوارٹر سے دور دراز چوکیوں تک پہنچائے جا رہے تھے۔ اس جگہ پہنچنے پر ایک ” جے سی او“ نے میرا خیر مقدم کیا اور مجھے سیدھا اپریشن روم میں لے گیا جو اپنی ہیئت میں مٹی کے ایک پیالے سے مشابہ تھا اور جس کی دیواروں پر محاذ کے نقشے لٹکے ہوئے تھے۔ یہاں دو افسر ایک میجر اور دوسرا کیپٹن اپنے کاغذات پر جھکے ہوئے تھے۔ ان کی وردیاں استری اور کلف سے جاذب نظر بنی ہوئی تھیں۔ انتہائی مصروفیت اور انہماک کے باوجود ان کے چہروں پر طمانیت او خوش دلی جھلک تھی۔
حُسن اتفاق سے میں میجر صاحب کو جانتاتھا۔ ان سے میری ملاقات آٹھ ماہ قبل رن کچھ میں ہوئی تھی۔ انہوں نے تھوڑی مدت کے علاو ہ گرمی کے سارے مہینے ریگستان میں گزارے تھے مگر ان کا چہرہ پھر بھی تازگی اور بشاشت کی تصویر بناہوا تھا۔ ریگستان کی سخت زندگی ان کے اند رکوئی تبدیلی پیدا نہ کر سکی تھی ۔ میں حیرت سے سوچنے لگا کہ انسان کیوں اور کس حد تک یہ سختی او رصعوبت برداشت کر سکتا ہے۔ آٹھ مہینے تک اپنے جسم و جان کو گزند پہنچائے بغیر زندگی بسر کرنے کے لئے قوت برداشت کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صبر و استقامت کی ایک ایسی مثال تھی جو طویل فوجی تربیت ہی سے ظہور میں آسکتی ہے۔
کاغذات سے نظریں ہٹاکر جونہی میجر صاحب نے مجھے دیکھا ان کا چہرہ ایک بار پھر خوشی سے تمتما اٹھا، میں نے گرمجوشی سے جواب دیا اور بہت سی مختصر الفاظ میں اپنے مشن کی نوعیت کا ذکر کیا ۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور فوراََ مجھے فورس کمانڈر کے پاس لے جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ہم بنکر سے (BUNKER ) سے جھک کر باہر نکل آئے۔ سورج کافی اوپر آچکا تھا۔ نئی اور چمکیلی کرنوں نے ہوا میں خوشگوار حرارت پیدا کر دی تھی۔ آسمان دھلی ہوئی نیلی چادر کی طرح چمک رہا تھا جس پر بادلوں کا کوئی نشان تک نہ تھا، کہر کا جادو ٹوٹ چکا تھا، ریگستان کی ہوا میں ابھی ایسی ہمدردانہ تازگی اور توانائی تھی جس کا انسانی جلد پر بُرا اثر نہ پڑے۔
آپریشن روم کے برابر ایک بڑا سا خیمہ نصب تھا جو سامنے سے کھلا ہواتھا۔ میجر صاحب نے پوچھا،” کیا آپ جانتے ہیں ہم اسے کس نام سے موسوم کرتے ہیں؟“ ”ہوٹل انٹر کانٹیننٹل“ انہوں نے خود مسکراتے ہوئے بتایا۔ خیمے کے اندر بہت سی آرام دہ کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میں ان میں سے ایک پر پھیل کر بیٹھ گیا، کرسی عمدہ اور آرام دہ تھی ۔ ایک یا دو منٹ بعد فورس کمانڈر خیمے میں داخل ہوئے۔ میں اٹنشن ہو گیا۔ ”تشریف رکھیے“۔ انہوں نے نرمی کے ساتھ کہا۔ ”آپ کیسے ہیں؟مجھے آپ سے مل کر بڑی مسرت ہوئی ۔“ میں نے شکر یہ ادا کرتے ہوئے اپنے پروگرام کی تفصیل بیان کی۔ مجھے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ میجر صاحب انہیں پہلے ہی سب کچھ بتا چکے تھے۔ ٹھیک ہے ہم ڈالی جارہے ہیں ۔ آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں چلتے ؟“ اور پھر انہوں نے اپنے سٹاف افسر سے ہماری جماعت کے متعلق تذکرہ کرتے ہوئے کہا،” چار، یہی تو آپ نے کہا تھا؟“ ” جی جناب“ میجر صاحب نے جواب دیا۔ پروگرام کے مطابق تقریباََ آدھ گھنٹے کے اندر ہم ڈالی کی طرف روانہ ہو چکے تھے ۔ جہاں ہندوستان سے ایک بڑی جنگ لڑی جا چکی تھی جس میں ان کے کم و بیش دو سو جوان اور افسر کام آئے تھے اور بہت سے ٹینک ، فوجی گاڑیاں ، اسلحہ اور گولہ بارود ہمارے ہاتھ لگاتھا۔
سورج اب ہمارے سر آچکا تھا۔ صبح سویرے کی نرم اور دوستانہ حرارت رفتہ رفتہ جارحانہ گرمی اور تپش میں بدلتی جارہی تھی۔ ہوا کے ساتھ ہماری جیپ ریت کے تودوں پر اچھلتی کودتی جا رہی تھی۔ یہ سفر گھوڑے کے سفر سے زیادہ سخت تھا لیکن اس کے باوصف ریگستان کے اس سفر میں کوئی ایسی انجانی چیز ضرور تھی جو ہمیں تھکن کے احساس سے بچائے ہوئے تھی۔ ریت کے ان تودوں سے پرے سمندر کی اٹھتی گرتی موجوں کی طرح ہمارے راستے میں حائل تھے،ڈالی کوئی چالیس میل جنوب کی طرف تھا۔ ہماری جیپ پندرہ سولہ میل فی گھنٹے کے اوسط سے چل رہی تھی۔ سورج میری آنکھوں کے عین سامنے تھا اور چکا چوند سی پیدا کر رہا تھا۔ لیکن ڈرائیور جو میرے برابر بیٹھا تھا بغیر پلک جھپکائے گاڑی چلا رہا تھا۔ راستہ بڑا ٹیڑھا تھا۔ کبھی ہم ریت کے بلند تودوں پر چڑھنے لگتے اور کبھی ڈھلان سے اترتے ہوئے آگے بڑھتے۔ ریگستان کی ان وسعتوں کو دیکھ کر صر ف یہی ایک خیال بڑی شدت کے ساتھ ابھرتا کہ پاکستان آرمی نے اس علاقہ میں بڑا معرکہ کیا ہے ۔ اگر چہ طبعی لحاظ سے اس علاقے میںدشمن کا داخلہ ہر موڑ سے بڑا آسان تھا اور اس نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیک وقت تین مقامات سے داخل ہونے کی کوشش کی مگر اسے ہر جگہ منہ کی کھانے کے بعد افراتفری میں بھاگتے ہی بن پڑی ۔
راجستھان عام ریگستانوں کی طرح بے آب و گیا علاقہ ہے۔ یہاں خاردار جھاڑیوں اور ٹنڈ منڈ درختوں کے علاوہ کوئی نباتات نہیں اُگ سکتی ۔ کوئی چیز جڑ نہیں پکڑ سکتی مگر پاکستان آرمی کی جڑیں پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔ فوجی لحاظ سے اس علاقے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں سے کھو کھرا پار کو سیدھا راستہ جاتا ہے جہاں سے حیدرآباد اور پھر کراچی کی شہ رگ شروع ہوجاتی ہے اور دراصل دشمن اسی نیت سے اس طرف آیا تھا۔ یہی حربہ اس نے سیالکوٹ میں چونڈہ پر آزمایا تھاجس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ فوجی اہمیت کے اس مقام پر تسلط قائم کرکے ڈسکہ اور پھر گوجرانوالہ پہنچ کر جرنیلی سڑک کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ راجستھان میں گدڑو کی طرف سے دشمن کا داخلہ دراصل کھوکر ا پاراور پھر حیدرآباد بڑھنے کی نیت سے تھا جس کے بعد مغربی پاکستان کے علاقے میں اند رتک گھُس کر غلبہ پانے کو ممکن الحصول بنایا تھا۔ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس پر پوری قوت کے ساتھ عمل کیا گیا تھا۔ جس کو ہماری بلند ہمت فوج کے عزم صمیم نے نہ صر ف ناکام بنا دیا بلکہ دشمن کی فوجی برتری کا قلع قمع کرکے اس سے پہل کرنے کی استعداد چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لی۔
ریگستان ہمارے آگے بھی تھا اور پیچھے بھی اور ہم ڈالی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اچانک ہماری نگاہیں انسانوں کے ایک جم غفیر پر جم گئیں جس میں مر د ‘ عورتیں‘ بچے بے ترتیبی کے عالم میں ہماری طرف بڑھ رہے تھے۔ اس مقام کا نام ”پیرانے کا پار“تھا۔ اور یہ حجم غفیر بے خانماں لوگوں کا تھا جو ”گھوج کا پار“ اور ”رسال کا پار“ سے ہندوستانی بربریت کا شکار ہو کر ادھر آرہے تھے۔ یہ بڑا روح فرسا منظر تھا۔ عورتیں بچے بوڑھے سب ہی اس بربریت کا شکار ہو کر اس پرہول ویرانے میں بھٹکتے پھر رہے تھے۔ فورس کمانڈر کو دیکھتے ہی وہ سب کے سب جیپ کے اردگر د جمع ہوگئے اور ہندوستانی مظالم کی دلدوز اور لرزہ خیز داستانیں سنانے لگے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہوس کا نشانہ بنایا گیا۔ اور انہیں ان کے قیمتی سازوسامان سے محروم کر دیاگیا۔ شاید ہندوستانی فوج کا یہی ریگستانی کارنامہ ہے جو شہروں میں ان کے سیا ستدان حاصل نہ کرسکے۔ فورس کمانڈر نے کراہتی ہوئی انسانیت کی ان دبی دبی چیخوں کو بڑے صبرو تحمل سے سنا اور سب کو تسلی دیتے ہوئے اپنے سٹاف افسروں کو ہدایت دی کہ ان کے کھانے پینے کا فوری انتظام کیا جائے۔
جیپ پر تقریباََ تین گھنٹے دشوار گزار راستہ طے کرنے کے بعد ریگستان میں ایک چھوٹا سا نخلستان نمودار ہوا۔ یہ نخلستان ڈالی کے نام سے موسوم ہے۔ جس کے معنی اردو میں شاخ کے ہیں‘ اس وقت تک آفتاب میں پوری تپش پیدا ہو چکی تھی۔ وہ نصف النہار کے قریب پہنچ چکا تھا۔ ریت کے چھوٹے چھوٹے ذرے اڑ اڑ کر میرے چہرے اور گردن کے پچھلے حصے میں لگ رہے تھے اور زبردست سوزش پید اکر رہے تھے۔ ہو امیں بلا کی گرمی تھی اور ہوا کا ہر جھونکا جب منہ پر لگتا تھا تو ایسامعلوم ہوتا تھا کہ سیدھا دوزخ سے آرہا ہے۔ فورس کمانڈر اور ان کے ساتھی افسروں کا استقبال یونٹ کمانڈر نے کیا۔ یونٹ ہیڈکوارٹرز بھی ویسا ہی صاف اور شفاف اور معیاری تھا جیسا فورس ہیڈکوارٹر تھا۔ یہاں ایک استقبالیہ یا تفریحی کمرہ تھا جسے ”ہوٹل کا نٹی ننٹل “ کہا جاتاتھا۔ کمرے کی دیوار پر ایک طرف اخبار اور رسالے نہایت ہی سلیقے کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے اور سامنے ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا ”براہ کرم مجھے اپنے ساتھ نہ لے جائیے۔“
ڈالی ، کھو کھرا پار سے قریباََ تینتیس میل جنوب کی جانب واقع ہے اور حیدرآباد کے چھ چارو، عمرکوٹ گدڑو، کھو کھراپار کے محور کا ایک اہم ترین مقام ہے۔ ہندوستان نے پہلے ڈالی سے پانچ میل کے فاصلے پر ”جاسو کا پار“ نامی مقام پر قبضہ کی کوشش کی۔ کیونکہ اس علاقہ میں صرف یہی مقام ایسا تھا جہاں پینے کا پانی دستیاب ہو سکتاتھا۔ اور ہندوستانیوں کو پانی کی شدید ضرورت تھی۔ اس معرکے میں جو ہندوستانی سپاہی جنگی قیدی بنائے گئے انہوں نے بتایا ہے کہ جو دستہ پانی کی جستجو میں روانہ کیا گیا تھا اس کے ہر ادل دستے میں وہ شامل تھے۔
بعد ازاں ہندوستانیوں نے ڈالی پر بھر پور حملہ کیا۔ اس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی اور پاکستانی فوجوں کے ہاتھوں شدید نقصانات اٹھانے پڑے ۔ ہندوستانی افسروں نے اپنی ذلت آمیز شکست کے بعد اپنی ہی فوج کے ہیڈ کوارٹر ز کو اپنی کامیابی کی غلط اطلاع دے دی ۔ مگر اس کے باوجود جلد ہی دنیا کو یہ معلوم ہوگیا کہ پاکستانی افواج نے ہندوستانی فوج کی کیسی درگت بنائی ہے۔ ایک دن کی لڑائی میں ہندوستانیوں کو اپنے تین ٹینکوں ‘ مختلف قسم کی تیس گاڑیوں اور کثیر تعداد میں مشین گنوں ‘ سٹین گنوں‘ تھری ناٹ تھری (۳۰۳) رائفلوں اور تین انچ دہانے کی توپوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
یونٹ کمانڈر نے بتایا کہ بھاگتے ہوئے ہندوستانی فوجی میدان جنگ میں اپنے پیچھے جو اسلحہ اور فوجی سازو سامان چھوڑ گئے تھے، اسے سنبھالنے میں پورا ایک ہفتہ لگ گیا۔ اس معرکہ میں ہندوستانی فوج کے تقریباََ نو افسر ، بارہ جے سی او ز، اورایک سو ستر سپاہی ہلاک یا مجروح ہوئے اور تقریباََ دو سو گرفتار کیے گئے۔مجموعی طور پر اس جنگ میں ہندوستانی پیدل فوج کے دو مکمل بٹالینوں یعنی ۵ مرہٹہ اور ۷۱ مدارس کا اس بری طرح قلع قمع کیا گیا کہ ہندوستان کی حربی ترتیب ” آرڈر آف بیٹل “ میں ان کا وجود باقی نہیں رہا۔ پاکستانیوں نے ڈالی میں ہندوستانی بٹالین کے ہیڈکوارٹر ز کو تباہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا۔ اس محاذ پر پوری رات جنگ جاری رہی جس میں ہندوستانی پورے طور پر بے دست و پا کردئیے گئے۔ چنانچہ وہ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس بُری طرح بھاگے کہ انہوں نے پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ ہندوستانی جان بچانے کے لئے بھاگنے کے گُر سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہ میدان جنگ میں پیٹھ دکھانا اچھی طرح جانتے ہیں۔
یہ مقام متحرک فلمیں لینے والے کی جنت ثابت ہوا۔ میں نے اپنا کیمرہ چلا کر چھوڑ دیااور ان ہندوستانی ٹینکوں اور گاڑیوں کی تصویریں لے لیں جنہیں اب پاکستانی فوجیں زیادہ بہتر طریقہ پر استعمال کر رہی ہیں۔ ہندوستانیوں نے فائر بندی کے بعد اپنی شدید ناکامیوں اور فاش شکستوں کا انتقام لینے کی غرض سے ایک نام نہاد مہم شروع کر دی ہے جو ان علاقوں کو جن پر پاکستان نے جنگ کے دوران قبضہ کیا ہے واپس لینے کی مجنونانہ کوشش ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی اسی مہم کے تحت سو بھالہ اور کلنور نامی چوکیوں پر حملہ کیا۔ یہ دونوں اس وقت خالی پڑی تھیں ۔ یہ حملہ اقوام متحدہ کے مبصرین کے سروے کے بعد کیا گیا۔ حالانکہ مبصرین دیکھ چکے تھے کہ یہ چوکیاں پاکستان کے علاقے میں ہیں اور ان پر فائر بندی سے پہلے پاکستانیوں نے قبضہ کیا تھا۔
اپنی عادت کے مطابق ہندوستانیوں نے اقوام متحدہ کے مبصرین کی موجودگی کا خیال کئے یا حقائق کو تسلیم کئے بغیر چوری چھپے احمقانہ کاروائیاں اس وقت تک جاری رکھیں جب تک پاکستانی فوجیں جوابی کاروائی کرنے پر مجبور نہیں ہوگئیں۔ پاکستانی فوج کے بھر پو ر جوابی حملہ کے بعد وہ شدید نقصانات اٹھا کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔اس حملہ میں ہندوستانی فوج کی ۴ مرہٹہ لائٹ انفنڑی اور ۳ گارڈز کی بڑی درگت بنی اور وہ بہت بڑی تعداد میں اپنے جوانوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ اٹھے۔ جو ہندوستانی جنگی قیدی بنائے گئے ہیں ان کا بیان ہے کہ ۴ مرہٹہ لائٹ انفنٹری کو اس بری طرح نقصان پہنچا ہے کہ اب اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔ جو ہندوستانی اس جنگ میں بچ گئے وہ اپنے زخموں کو چاٹتے ہوئے انتہائی افراتفری کے عالم میں بارمرکی سمت بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ہندوستانی فوج کے جو تازہ ترین پیغام ہماری فوجوں نے پکڑے ہیں ان سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان تمام ہندوستانی بٹالیوں کی ازسر نو تنظیم کی جارہی ہے جنہیں جنگ میں شدید نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد ازسر نو حملوں کے لئے ہندوستانی فوج کو تیار کرنا ہے۔
ہم نے ڈالی میں دوپہر کا کھانا کھایا جو بہت ہی لذیذ تھا۔کھانے میں مرغ بھی تھا، چاول بھی تھے، کٹلس ، سبزیاں اور تازہ پھل بھی۔ ان چیزوں کو ہضم کرنے کے لئے مشروبات بھی کثیر مقدار میں موجود تھیں۔ کلب میں برف سے ٹھنڈا کیا ہوا شربت خاص اہمیت نہیں رکھتالیکن ریگستان میں اس کا ہر گھونٹ انسانی جسم میں زندگی کی نئی لہر دوڑاتاہے۔ اس کا سہرا پاکستان آرمی کے اعلیٰ نطم و نسق کے سر ہے۔ جو تازہ چیزیں اور مشروبات محاذ کی دور افتادہ چوکیوں تک کو نہایت ہی باقاعدگی کے ساتھ روزانہ بہم پہنچایاکرتاہے۔ اس کے برعکس ہندوستانیوں کا انتظام بہت ہی ناقص ہے اور حقیقی معنوں میں ان کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ چنانچہ یہی وہ امر ہے جس کی بناءپر گرفتار کئے جانے والے ہندوستانی سب سے پہلے جو چیز مانگتے ہیں ‘ وہ کھانا ہوتاہے اور پانی۔ ایسے قیدی بھی ہمارے ہاتھ آئے جو کئی کئی دن سے بھوکے اور پیاسے تھے ‘ البتہ ہندوستان اپنے فاقوں سے مرتے ہوئے فوجیوں کو جو چیز باقاعدگی کے ساتھ اور وافر مقدار میں بہم پہنچاتاہے وہ تیز قسم کی شراب ہے۔ غ©الباََ اس کا مقصد ان کے پست حوصلوں کو بلند کرناہے۔ وہ اکثر نشہ میں دھت ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن ہماری فوج کو دیکھتے ہی مقابلہ کے بغیر اپنے اسلحہ پھینک دیتے ہیں ۔ ہاتھ اٹھا لیتے اور اطاعت قبول کرلیتے ہیں۔
راجستھان میں ہندوستان نے فوج کشی کرکے ”کچھ نہ کچھ کر گزرنے“ کے لئے جو حرکت کی تھی اس کا انجام نامرادی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ہوسکتا تھا۔ ۹ ستمبر کو گدڑو میں پاکستان رینجرز کی چوکی پر اچانک حملہ کیا گیا تھا۔ اس دن سے لے کر ۳۲ ستمبر تک (جب کہ فائر بندی کا اعلان ہوا) اور پھر آج تک ہندوستانیوں نے تمام جتن کر ڈالے تاکہ انہیں ہمارے ہاتھوں جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس کی تلافی وہ کرسکیں لیکن ہر بار انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ انہوں نے پوری طاقت سے گدڑو پر حملہ کیا تھالیکن وہ ایک قدم آگے نہ بڑھاسکے ۔ بلکہ ہوا یہ کہ چوبیس گھنٹے سے بھی کم عرصہ میں سار ا نقشہ ہی بدل گیا۔ ہماری فوجوں نے دشمن کو پیچھے ہٹا کر اس کے علاقہ پر چڑھائی کردی ۔ موناباﺅ کے سامنے دشمن کا دباﺅ بڑھا تو ہماری توپوں نے اس کی صفوں میں کھلبلی مچادی۔ ۱۱ستمبر کو آدھی رات کے لگ بھگ مونا باﺅ کا فوجی اہمیت کا ریلوے سٹیشن ہمارے قبضے میں آچکا تھا۔ ہماری فوجوں کے ہاتھوں ہندوستانی فوجوں کی یہ پہلی اور زوردار ٹھکائی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ کئی روز تک صاف انکار کرتے رہے کہ مونا باﺅ کا ریلوے سٹیشن پاکستان کے قبضہ میں جا چکا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ہندوستان کے حملہ کا سارا زور ٹوٹاتھا۔ جو تھوڑا بہت زور اس میں باقی رہ گیاتھا وہ بعد میں ڈالی اور سندرا میں جا کر ختم ہوگیاتھا۔
مونا باﺅ ریلوے سٹیشن ‘ جودھ پور‘ کھو کھراپار‘ میر پور خاص کے لئے ایک اہم مقام ہے۔ اس پر پاکستان کے قبضہ سے ہندوستان کے حملہ کا زور ہی نہیں ٹوٹا بلکہ اس کا سلسلہ بھی بُری طرح درہم برہم ہو گیا۔ ہندوستانی سپاہ کو کھانے پینے کی بڑی سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان کے پاس پانی تک کے وسائل ختم ہوگئے۔ ہندوستانی مونا باﺅ سے بڑی عجلت میں بھاگے تھے اس کا اندازہ سامان کے ان ڈھیروں سے ہوتاہے جو وہ پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ جو کپڑے ادھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے وہ کوئی دس ٹرکوں کا بوجھ تھا۔ ان کے علاوہ وہاں بے شمار ایسی عیاشی چیزیں بھی تھیں جن کا عام طور پر میدان جنگ میں کوئی گزر نہیں ہوتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہندوستانی یہاں پوری بے فکری کے ساتھ پکنک منانے آئے تھے۔ مگر جب وہ بھاگے تو اس شان سے کہ کنڈالیوں میں آٹا گوندھا رکھا تھا۔ بے چاروں کو چپاتیاں پکانے کی بھی مہلت نہ مل سکی۔ بھجیا کی ہنڈیاں چولہوں پر ابل رہی تھیں ۔ اس سامان کو سنبھالنا ہمارے آدمیوں کے لئے بجائے خو د ایک بہت بڑا کام تھا۔ اس میں پورا ایک ہفتہ لگ گیا۔
فائر بندی تک ہندوستان کا بارہ سومربع میل سے زیادہ علاقہ ہمارے قبضہ میں آچکا تھا۔ اقوام متحدہ کے مبصر پہنچے تو ہندوستانیوں نے یہ ثابت کرنے کی نا کام کوشش کی کہ یہ سارا علاقہ پاکستان نے فائر بندی کے بعد چھینا ہے۔ اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اتنے بڑے علاقہ پر ایک آدھ دن میں کیسے قبضہ ہو سکتاہے؟ مگر ہندوستانیوں کے ساتھ عقل و ہوش کی بات کرنا بے کار ہے۔ان کے اپنے مخصوص طور طریقے ہیں۔ ان کا ایک طریقہ یہ کہ جھوٹ بولے جاﺅ، یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کم از کم آدھا سچ تو نظر آنے لگے۔ ایک غیر ملکی مبصر نے ہندوستانیوں کے کردار کے اس پہلو کے متعلق بڑے مزے کی بات کہی تھی ‘ اس نے کہا کہ ان کے پراپیگنڈے کی ہر بات سچی ہوتی ہے سوائے حقائق کے۔
اپنے کھوئے ہوئے علاقے کو ہر حیلے بہانے واپس لینے کی سر توڑ کوشش کرتے ہوئے ہندوستان نے فائر بندی کے کوئی ایک ہفتہ بعد شمال میں ہماری ایک چوکی سندرا پر زور کا حملہ کیا۔ انہوں نے توپ خانہ اور مارٹروں کی مد د سے ایک پوری انفنٹری بٹالین لڑائی میں جھونک دی۔ حملہ کے چند گھنٹے کے اندر بٹالین کمانڈر ، لیفٹیننٹ این کے نمبیار (جو جنوبی ہند کے باشندے ہیں)نے اپنے دو جونیئر کمیشنڈ افسروں اور بہت سے سپاہیوں سمیت ہتھیار ڈال دیئے ۔ بٹالین کمانڈر نے خود تسلیم کیا کہ پچھلے دو تین روز سے انہیں کھانے پینے کو کچھ نہیں ملا۔ وہ اور ان کے ساتھی اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ انہوں نے پہلی فرمائش یہ کی کہ ہمیں کچھ کھانے پینے کے لئے دو۔ پاکستانی فوج نے اپنی مہمان نوازی کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے انہیں پیٹ بھر کر کھلایا۔ اور ان کی خوب خاطر مدارت کی ۔ ہماری فوج تمام جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہے۔ ہم نے فائر بندی کی خلاف ورزی کی شکایتیں اقوام متحدہ کے مبصروں سے کی تھیں۔ہندوستانیوں نے ان شکایتوں کو بالکل ہی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہماری شمالی چوکی پر بڑا حملہ کردیاتھا۔
جب میں سندرا کی چوکی پر پہنچا تو انڈین ائیر فورس کا ایک ویمپائر طیارہ اوپر آیا اور اس طرح وہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزیوں میں ایک او رکا اضافہ کر گیا۔ طیارہ نیچے آیا مگر دفعتاََ دُم پھیر کر وہ یوں بھاگا جس طرح ہندوستانی فوجی زمین پر بھاگتے ہیں ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ عین اس روز پیش آیا جب اقوام متحدہ کے مبصروں کے مشن کے سربراہ میجر جنرل بروس میکڈانلڈ اپنے کئی سٹاف افسروں کے ساتھ راجستھان کے علاقہ کا دورہ کرنے آئے تھے۔
راجستھان کے علاقہ میں جنوب میں ڈالی سے مونا باﺅ اور شمال میں سندرا تک میں نے جوانوں سے بھی باتیں کیں اور افسروں سے بھی ۔ ان کی گفتگو سے ایک تو مجھے اس علاقہ میں رونما ہونے والے مختلف واقعات کی تفصیل ملی۔ دوسرے ان کی باتوں سے میرے اندر ایک خاص قسم کا ہیجان پید ا ہو گیا۔ ہر اعتبار سے برتر اور فائق دشمن پر ہمیں جو فتح نصیب ہوئی ‘ وہ جرا¿ت بے باک‘ حوصلہ بلند‘ مقصد کی صداقت پر غیر متزلزل یقین ‘ خدائے پاک پر پورے توکل ‘ مل جُل کر کام کرنے کے جذبہ اور اعلیٰ قیادت کی جیت تھی۔ اس کے برعکس ہندوستانی فوج کی یہ کیفیت تھی کہ جوانوں کو افسر شاذ ہی نظر آتے تھے۔ ہمارے افسر اپنے جوانوں کے دوش بدوش کام کرتے تھے۔ جوانوں کو اپنے افسروں پر مکمل اعتماد تھا۔ اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر حال میں جان تک کی بازی لگانے کو تیار رہتے تھے۔
ہندوستان کے ایک جنگی قیدی کے کہنے کے مطابق ان کے افسر ان کی کمان نہیں کرتے تھے ان کو ہانکتے تھے۔ جب ڈالی میں ہندوستان کے بٹالین ہیڈکوارٹرپر قبضہ کیا گیا تو کمانڈنگ افسر وہاں موجود نہ تھا۔ جنگی قیدیوں نے بتایا کہ جب جنگ پورے زوروں پر تھی کمانڈنگ افسر یہ بہانہ کر کے پیچھے چلاگیا کہ میں تمہارے لئے راشن لانے جارہا ہوں ۔ ایک جے سی او جنگی قیدی نے کہا،” ہم میں سے بیشتر ایسے تھے جنہیں یہ بھی نہ پتہ تھا کہ ہمارے بریگیڈیر اور ڈویژن کے کمانڈر وں کے نام کیا کیا ہیں۔ ہم نے بریگیڈ کمانڈر کو پہلی اورآخری بار اس وقت دیکھا جب بر یگیڈئیر نے ہم میں سے کچھ آدمیوں کو اس بات پر گو شمالی کرنے کے لئے طلب کیا کہ لڑائی میں ہم اتنے پھسڈّی کیوں ثابت ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان آرمی کے افسر جب اپنے جوانوں کو حملہ کا حکم دیتے تھے تو خود آگے ہوتے تھے۔ ایک موقع پر آٹلری کے ایک افسر نے یہ پیش کش کی کہ مجھے انفنٹری کی فلاں چوکی کی کمان کے لئے بھیج دو۔
یہی وہ جذبہ تھا جس کی بدولت راجستھان میں ہمیں قدم قدم پر فتح و کامرانی نصیب ہوئی ۔ ہماری نفری بے شک کم تھی مگر ہمارے حوصلے بہت بلند تھے۔ دشمن سے دو دو ہاتھ کرکے اسے تہس نہس کر دینے کا جذبہ چٹان کی طرح مضبوط تھا۔ اعلیٰ اور ادنیٰ میں افسروں اورجوانوں میں مکمل اعتماد اور بھروسے کی فضا تھی ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ایک ہی اجتماعی جذبہ کارفرما تھا۔