خبرنامہ

ہوائی فوج پینسٹھ کی جنگ میں

ہوائی فوج پینسٹھ کی جنگ میں
وقت کا تیز ردقاصد اپنے پیچھے کچھ ایسی یاد یں ‘ کچھ ایسی کہانیاں چھوڑ جاتاہے جو آنے والی نسلوں کے لئے ایک نئی تاریخ کا عنوان بن جاتی ہیں۔ پچھلے مہینے جب ہماری چھوٹی سی ‘مگر حوصلہ مند ائیر فورس نے اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کو ذلت آمیز شکست دی تو فضائی جنگ لی۔ تاریخ میں ایک ایسے انوکھے باب کا اضافہ ہوا جس نے دنیا کوورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ جب ہماری ان گزرے ہوئے شب وروز کی تگ وتاز پر نظریں پڑتی ہیں۔ تو صرف یہی حقیقت روشن نہیں ہوتی کہ دشمن کی فضائی قوت ہم سے کہیں زیادہ تھی بلکہ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے پاس ہم سے بہتر طیارے اور سازوسامان بھی تھا۔
ان حقائق اور دشمن کے مقابلے میں ہمارے فضائی کارناموں نے ایک ایسا طلسماتی ماحول پیدا کردیا ہے جس پر غیر ملکی مبصروں اور چوٹی کی شخصیتوں کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں۔ اور چہرے پر شک و شبہ کے سائے پھیل جاتے ہیں۔ لیکن جب ان کے سامنے ٹھوس ثبوت پیش کیا جاتاہے۔ تو انہیں دشمن کے خلاف پاکستان ائیر فورس کے دعوﺅں کی صداقت پر ایمان لاتے ہی بن پڑتی ہے۔ دنیا نے ہمارے دعووں کو یونہی نہیں مان لیا ہے ۔ اس نے ہمارے بیانات کو ہر کسوٹی پر رکھ کر دیکھا ہے۔ اس نے ہمارے دعوﺅں کو اس وقت تسلیم کیا جب کسی غیر جانبدارگواہ نے ان کی تصدیق کی ، یا جب انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے طیاروں میں لگے ہوئے کیمرے کا عمل دیکھ لیا۔یہ کیمرے ہر طیارے میں لگے ہوتے ہیں اور طیارے میں لگی ہوئی مشین گن کی کارکردگی اور عمل کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔
ایک برطانوی نامہ نگار کوریا اور ویت نام کی جنگیں دیکھ چکا ہے ’ اپنے ایک مراسلے میں لکھتاہے:
”پاکستان کے کہن سال سیبر طیاروں کا مقابلہ ہنٹر، مگ، ، نیٹ مسٹیئر اور ویمپائر سے رہا۔ سیبرطیارے فضائی جنگ پر چھائے رہے اور جدید طرز کے ایف ۴۰۱ لڑاکا طیارے تھوڑے ہی جہاز گراسکے ۔ نیٹ طیارے بہت تیز رفتار اور جھپٹنے پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہنٹر رفتار میں سیبر طیاروں سے کہیں زیادہ تیز ہیں۔ اس لئے میری سمجھ میں نہیں آتا پاکستان کو یہ جیت اور فضائی برتری کس طرح حاصل ہوئی؟“
پاکستان ائر فورس کے کمانڈر انچیف ائر مارشل نو رخان نے اس کا جوا ب اس طرح دیاہے۔
” پرواز کی صلاحیت اور حوصلہ مندی کے سامنے ‘ سازو سامان کی کوئی حقیقت نہیں۔ ہندوستان کے پاس ملک گھیری کی ہوس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا۔ ہم اپنے وطن عزیز کی سالمیت اور بقا کے لئے سینہ سپر ہو کر آگے بڑھے تھے۔ اس لئے بڑی سے بڑی آزمائش سے گزر سکتے تھے ۔ بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتے تھے۔ صرف طیاروں کی تعداد سے لڑائی کا فیصلہ نہیںہوتا۔ اس کے لئے اعلیٰ فنی تربیت ‘ جذبہ و ہمت اور سب سے بڑھ کر فداکاری وجانثاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ایک ایسا جوہر ہے جس سے فضائی جنگیں فیصلہ کن انداز اختیار کرتی ہیں۔“
جونہی ہندوستان نے بغیر اعلان جنگ کیے ‘ پاکستان پر چوری چھپے حملہ کیا تو پاکستان ائیر فورس ”تیل پلائی ہوئی“ عمدہ مشین کی طرح فوراََ حرکت میں آگئی ۔ رگ وپے زندگی کا گرم خون دوڑنے لگا۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ائر فورس کا سارا عملہ اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگاکر جنگی مساعی میں جت گیا۔ جارحانہ کاروائی کی کامیابی کا انحصار محض ہوابازوں کی کارکردگی اور فنی صلاحیت پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں ریڈار‘ مواصلاتی نظام ‘ کنٹرولرز ‘ طیاروں ‘ہوابازوں ‘ طیاروں کی دیکھ بھال کرنے والوں اور دوسری بے شمار سرگرمیوں میں مکمل ہم آہنگی اور تال میل کابڑا دخل ہے۔ ان تمام اجزاءکا توازن ‘ ایک بھر پور عمل کی صورت میں ظاہر ہوتاہے اور دشمن کے نا پاک ارادوں کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ ہمارا یہی بھر پور عمل پوری شدت کے ساتھ ہماری فضائی جنگ میں ظاہر ہوا‘ اور ہندوستان کے لئے موت کا پیغام بن گیا۔ اور آج جب قوم اپنے جیالے ہوابازوں کو ان کی دلیری اور بلا کسی خوف و خطر دشمن پر عقابی شان سے جھپٹنے پر خراج ِ عقیدت پیش کر رہی ہے تو اسے ان افسروں اور جوانوں کی کو ششوں کو بھی نظر انداز نہیں کر نا چاہیے‘ جنہوں نے دن رات کام کرتے ہوئے طیاروں کو ایسی حالت میں رکھا کہ حکم ملتے ہی ہمارے ہوا باز آناََ فاناََ میں انہیں لے اڑے اور دشمن کے پر پرزے نوچ کر فضا میں بکھیر دئیے۔
پاکستان ائیر فورس نے یہ اعلیٰ عسکری معیار‘ ایک خاص جذبے اور سر فروشانہ امنگ میں ڈوب کر قائم کیا ہے۔ لڑائی کے دوران تمام عملہ نے جم کر کام کیا اور طیاروں کو لڑائی کے لئے اس طرح تیار رکھا کہ دنیا انگشت بہ دنداںہے۔ لڑائی کے دوران طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام اس طرح انجام پاتا رہا کہ آپ سے آپ کی کارکردگی کا ایک انتہائی اعلیٰ معیار حاصل ہو گیااور جنگی ٹوٹ پھو ٹ ہمارے عملہ کے لئے ایک بے معنی چیز بن کر رہ گئی۔
”ہماری مختصر مگر فرض شناس ائیر فورس نے چھ گنا بڑے دشمن پر تابڑتوڑ حملے کر کے نہ صرف اس کی قوت پیکار کو ناکارہ بنا دیا۔ بلکہ جنگ کو دشمن کے علاقہ میں دھکیل کر اس سے پہل کرنے کا جذبہ و حوصلہ بھی چھین لیا۔ اس پوری قوت میں ہماری ائیر فورس نے قدیم المثال خردمندی ‘ جرات اور مردانگی کے شاندار کارنامے انجام دیے ۔ فضا پرا س کا مکمل تسلط رہااور ہر معرکہ میں اس نے برّی فوجوں کی اگر گرانقدر مد د کی۔ اس کے کارنامے عرصے تک ہمارے خیالوں میں رہ کر دلوں کر گرماتے رہیں گے۔ اور قوم ان پر فخر کرتی رہے گی۔
ان الفاظ میں صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں نے اپنے اس تاریخی براڈ کاسٹ میں جو انہوں نے ۳۲ ستمبر کو فائر بندی کے موقع پر کیا تھا، پاکستان ائیر فورس کو خراج تحسین پیش کیا اور اس کے کارناموں کو سراہا۔
پاکستان ائیر فورس نے اپنے سے بہت سے زیادہ طاقت ور دشمن کو انتہائی کم وقت میں حد درجہ شرمناک شکست دے کر جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دشمن کے خلاف اپنی کامیابیوں کے متعلق پاکستان ائیر فورس کے دعووں پر غیر ملکی مبصرین اور اعلیٰ فوجی افسروں نے پہلے تو اپنے ماتھے پر بل ڈالے اور شک و شبہ کا بھی اظہار کیا ۔ لیکن ٹھوس ثبوت ملنے کے بعد ان دعووں کو تسلیم کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ ان لوگوں نے پاکستان ائیر فورس کے کسی دعوے کو اس وقت تسلیم نہیں کیا جب تک انہوں نے اپنی آ نکھوں سے طیارہ کی مشین گن میں لگے ہوئے کیمرے کی لی ہوئی تصاویر دیکھ نہیں لی یا دعویٰ کی غیر جانبدار لوگوں نے تصدیق نہیں کی۔
ایک غیر ملکی اخباری نمائندہ نے جو جنگ کی خبریں بھیجنے پر مامور تھا، اپنے مراسلوں میں سے ایک مراسلہ میں سوال کیا ہے کہ پاکستان کو یہ کامیابی کیوں کر ہوئی؟ جبکہ اس کی جنگی طاقت زیادہ تر کہن سال سیبر طیاروں پر مشتمل تھی اور جن کے مقابلہ میں ہنٹر ، مگ، نیٹ ، مسٹیئر اور ویمپائر قسم کے طیارے صف آراءتھے۔ فضائی جنگوں کا زیادہ تر بوجھ سیبر طیاروں پر پڑا اور طرز جدید کے ایف ۴۰۱ اسٹار فاسٹر دشمن کے صرف چند ہوائی جہازوں کو تباہ کرنے میں کامیا ب ہوئے ۔ نیٹ قسم کے طیارے بہت ہی تیز رفتار ہیں اور زیادہ تیزی کے ساتھ حرکت میں آسکتے ہیں۔ اسی طرح ہنٹر طیاروں کی رفتار بھی سیبر طیاروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ اس سوال کا جوا ب دیتے ہوئے پاکستان کے کمانڈر ان چیف ائیر مارشل ایم نور خان نے کہا:۔
” پرواز کی صلاحیت اور عزم راسخ کے سامنے سازوسامان کی عمدگی کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔ ہندوستان کے پاس کوئی مقصد نہ تھا۔ ہم اپنے ملک کے دفاع کے لئے لڑ رہے تھے اور بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتے تھے۔ صر ف تعداد میں برتری فضائی جنگوں کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے معیاری تر بیت ‘قیادت کی صلاحیت ‘ بلند حوصلہ اور سب سے بڑھ کر جان نثاری کے جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔“
اشتراک عمل:۔
جنگ کا اعلان کیے بغیر پاکستان پر ہندوستان کے مکارانہ حملہ کے فوراََ بعد ہی پاکستان ائیر فورس ایک ایسی مشین کی طرح جسے پورے طور پر تیل دیا جاچکا ہو ، حرکت میں آگئی۔ ائیر فورس کے عملہ کا ہر رکن خواہ وہ بڑا افسر ہو یا سب سے چھوٹاعہدے دار ، کمر بستہ ہو کر مید ان میں آگیا۔ اور جنگی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگا۔ آگے بڑھ کر حملہ کرنے یا دفاعی مہم کو کامیابی کے ساتھ سر انجام دینے کا انحصار صر ف ہوابازوں کی ماہرانہ صلاحیتوں پر ہی نہیں بلکہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے مختلف شعبوں جن میں ریڈار، مواصلات، کنٹرولر، ہوائی جہاز اور ہوا باز ۔ دیکھ بھال کرنے والا عملہ اور متعدد دوسری سرگرمیوں کے مابین اشتراک عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جبکہ قوم ان بہادر ہوابازوں کی شان میں رطب اللسان ہے جنہوں نے حددرجہ نامساعد حالات میں انتہائی بہادری کے ساتھ دشمن کامقابلہ کیا ۔ ان لوگوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا جنہوں نے رات دن کام کرکے ہوائی جہازوں کو بالکل درست حالت میں رکھا۔ جنگ کے دوران ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اگر چہ ہوائی جہازوں کی مرمت اور ان کو درست حالت مین رکھنے کا کام اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتاہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ہوائی جہازوں کی مرمت کا معیا ر جو زمانہ امن میں دنیا کے بلند ترین معیاروں میں سے ایک تھا۔جنگ کے دوران اور بھی بلند ہو کر پچاسی فیصد کے نا قابل یقین ریکارڈ تک پہنچ گیا۔ کام کی رفتار کی تیزی کا اندازہ اس سے بخوبی کیا جا سکتا کہ زمانہ امن میں مرمت کا جتنا کام چار روز میں ہوتا تھا اتنا کام جنگ کے دوران راتوں رات مکمل کرلیا جاتاتھا۔ پاکستان ائیر فورس یکم ستمبر کو پہلی مرتبہ اس وقت حرکت میں آئی ۔جب انڈین فورس کے چار جنگی طیاروں نے چھمب کے علاقہ میں آزاد کشمیر کی فوجوں کی پیش قدمی کو روکنے کےلئے ان پر مشین گنوں سے آگ برسانا شروع کی۔ہندوستان کی اس کارروائی کے صرف چند منٹ کے اند رپاکستان ائیر فورس کے دو سیبر طیارے دندناتے ہوئے وہاں پہنچ گئے ۔ا ور حملہ آور ویمپائر جیٹ لڑاکا طیاروں کا ذرا سی دیر میں کام تمام کر کے رکھ دیا۔ اسی معرکہ میں ہمارے دونوں طیارو ں کے ہوا بازوں کو کامیابی ہوئی اور دشمن کا طیارہ مار کھانے کے بعد ہماری لائنوں کے عقب میں جا گرا۔ اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس پہلی فضائی جنگ نے دشمن کے حوصلے پست کر دئیے۔ اور اس نے پوری جنگ کے دوران ویمپائر جیٹ لڑاکا طیاروں کو پاکستان ائیر فورس کے لڑاکا طیاروں کے مقابلہ میں نہیں بھیجا۔
ایک اور جھپٹ:۔
۳ ستمبر کو دشمن پر ایک اور ضرب کاری اس وقت لگائی گئی۔ جب چھ ہنٹر اور نیٹ طیاروں کے مشترکہ دستے نے بھمبر کے علاقے پر حملہ کیا۔ ان ہوائی جہازوں کا مقابلہ پاکستان ائیر فورس کے دوسیبر طیاروں نے کرکے ایک نیٹ طیارہ کو پاکستان کے حدود میں گرالیااور دو ہنٹر طیاروں کو شدید نقصان پہنچایا، جو مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں جاگرے۔ اس فضائی جنگ میں پی اے ایف کے ایک سیبر طیارہ کو نقصان پہنچا۔ لیکن اس کے باوجود اس کے ہوا باز فلائٹ لفٹنٹ یوسف علی خاں اس وقت تک جنگ جاری رکھی جب تک دشمن کے باقی جنگی طیارے فرار نہیں ہو گئے جس کے بعد فلائٹ لفٹنٹ یوسف علی خان اپنے طیارے کو حفاظت کے ساتھ اپنے مستقر پر واپس لے آئے۔ لیکن اسی شام کو جب انہوں نے آل انڈیا ریڈیو کا یہ اعلان سنا کہ ان (فلائٹ لیفٹنٹ یوسف علی )کے طیارہ کو تباہ کرنے کے صلہ میں انڈین ائیر فورس کے سکا ڈرن لیڈر کو بہادری کا اعزاز دیا گیا ہے تو ان کو سخت حیرت ہوئی۔ ایک دوسرے موقع پر پاکستان ائیر فورس کے سیبر طیاروں نے ہندوستان کے ایک نیٹ طیارہ کو جو سیبر کے مقابلہ میں بہت تیز رفتار ہے ‘ گھیر کر سیالکوٹ کے قریب پاکستانی علاقہ میں اُترنے پر مجبور کر دیا او راس کے ہواباز سکاڈرن لیڈر برج پال سنگھ کو جو دشمن کے حملہ آور طیارو ں کا فارمیشن کمانڈر تھا گرفتار کرلیا۔ اس کے بعد پھر آل انڈیا ریڈیو نے اعلان کیا ” اس کے تمام طیارے بخیریت اپنے مستقر پر واپس آئے۔“
دوسرے دن ہندوستانیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے چالیس طیاروں سے جن میں مگ اور ہنٹر طیارے شامل تھے۔ حملہ کرنے کی کوشش کی‘ مگر سیبر طیاروں نے ان کا مقابلہ کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ دشمن نے یہ حملہ تین سمتوں سے کرنے کی کوشش کی ، کچھ ہوائی جہاز پٹھان کوٹ کی طرف سے آئے تھے۔ کچھ نا رووال کی طرف سے اور باقی جموں کی طرف سے پاکستان کے حدود میں داخل ہوئے تھے۔ ان طیاروں کے مقابلہ کے لئے پاکستان کے سیبر طیارے بھیجے گئے اور انہیں دیکھ کر ہندوستانی ہوائی جہاز ا س درجہ سراسیمہ ہوئے کہ وہ لڑے بغیر بھاگ کھڑے ہوئے۔
کوئی خلاف وورزی نہیں کی گئی:۔
۶ ستمبر کو مغربی پاکستان پر ہندوستان کے حملے کے وقت تک پاکستان ائیر فورس نے دشمن کی انتہائی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ہندوستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی، لیکن جونہی علانیہ جنگ شروع ہوئی پاکستان ائیر فورس کو دشمن کو سزا دینے کا جس کا وہ عرصہ سے خواہاں تھا موقع مل گیا۔ چنانچہ پی اے ایف نے ضرب لگائی اور کاری ضربیں لگائیں۔ ۶ ستمبر کو خونریزفضائی لڑائیاں لڑی گئیں۔ اس روز صبح کے وقت ہمارے بمبار طیاروں نے ہندوستان کی برّی فوج پر حملے کر کے اس کے سات سے آٹھ ٹینک اور بیس گاڑیاں تباہ و برباد کر دیں اور اس کے کثیر تعداد میں فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ اُسی دن ہندوستانی طیارے چوری چھپے پاکستان کے حدود میں داخل ہوئے اور دو مسافر ٹرینوں پر حملہ کیا۔ پی اے ایف کے جنگی طیاروں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کرکے ایک مسٹیئر طیارے کو گرالیا۔
سہ پہر کو پاکستان ائیر فورس نے ہندوستان کے فضائی مستقروں پر پہلا حملہ گیا۔ سب سے پہلا وار پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر کر کے انڈین ائیر فورس کے تیرہ ہوائی جہازوں کو نذرآتش کر دیا گیا۔ اس حملہ میں تباہ ہونے والے طیاروں میں آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارے مگ ۰۱۲ بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ دوسرے طیارو ں کو بھی نقصان پہنچا۔
پاکستان ائیر فورس کے طیاروں کے حملوں کی زد میں انڈین ائیر فورس کے جو ہوائی اڈے آئے ان میں ہلواڑہ اور آدم پور کے فضائی مستقر بھی شامل ہیں۔ ہندوستان کے جنگی ہوائی جہازوں نے پی ایے ایف سیبر طیاروں کا متعدد مقامات پر مقابلہ کیا۔ ان معرکوں میں دشمن کے آٹھ ہنٹر طیارے تباہ و برباد کیے گئے۔ جبکہ ہمارے صرف دو طیارے کام آئے۔ شام تک پاکستان ائیر فورس نے ہندوستان کے بائیس جنگی ہوائی جہازوں کو تباہ و برباد کر کے ایک شاندار ریکارڈ قائم کردیا۔ رات کے وقت پی اے ایف کے بی ۷۵ قسم کے بمار طیاروں نے نیچی پرواز کرکے پٹھان کوٹ، آدم پور، بلواڑہ اور جام نگر میں انڈین ائیر فورس کے ہوائی اڈوں پر حملہ کیا اور انہیں شدید نقصان پہنچایا۔
ضرب کاری:۔
۷ ستمبر کی صبح کو سرگودھا میں پاکستان ائیر فورس کے ہوائی مستقروں کے اوپر فضا میں نہایت سنسنی خیز لڑائیاں لڑی گئیں۔ آفتاب کے طلوع ہوتے ہی دشمن کے طیارے جن میں مگ، نیٹ اور ہنٹر قسم کے ہوائی جہاز بھی شامل تھے۔ قطار و قطار سرگودھا کے ہوائی اڈے پر حملہ کی غرض سے آنا شروع ہوگئے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح اس موقع پر پی اے ایف کے طیارے ان کی سرکوبی کے لئے مکمل طور پر تیار تھے ۔ یہ فضائی جنگ پاکستان اور ہندوستان کی جنگ میں فضائی برتری کے لئے فیصلہ کن جنگ ثابت ہوئی ۔ اس جنگ میں پاکستان کے بہادر ہوا بازوں نے ہندوستان کی جو پٹائی کی ہے اس نے فضائی برتری کے متعلق ہندوستان کے دعووں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ اس سرزنش کے بعد دشمن دفاعی لڑائیاں لڑنے پر مجبور ہو گیااور روز روشن میں اس نے پاکستان کے حدود میں داخل ہونے کی کوششیں ترک کردیں۔ البتہ اس نے چوری چھپے سرحدی مقامات پر حملوں کا سلسلہ ضرور جاری رکھا۔ ۷ ستمبر کو غروب آفتاب کے وقت پاکستان ائیر فورس نے دشمن کے اکتیس ہوائی جہاز تباہ و برباد کیے۔ اس کے بعد اتنی بڑی تعداد میں پھر کسی دن ہندوستانی طیارے تباہ نہیں کئے گئے ۔ ان فضائی حملوں میں سے ایک جنگ میں جو بہ مشکل ایک منٹ جاری رہی تھی۔ سکاڈرن لیڈ محمد محمود عالم نے دشمن کے پانچ ہنٹر طیارے تباہ و برباد کر کے ایک تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ عالم جو سیبر طیارے کے ہواباز تھے۔ اس سے پہلے مختلف معرکوں میں ہندوستان کے چار ہنٹر طیارے تباہ کر چکے تھے۔ اس طرح انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کی حالیہ فضائی جنگ میں ہندوستان کے نو ہنٹر طیاروں کو تباہ کیا۔
پاکستان ائیر فورس کے بمبار جنگی طیاروں نے سری نگر کے فضائی مستقر پر بھار ی حملہ کیا، جس میں دو ہندوستانی ہوائی جہازوں اور ہوائی اڈے کو شدید نقصان پہنچا ۔ اس دن کی کارروائیوں میں پاکستان ائیر فورس کے صرف ایک سیبر جیٹ طیارے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسی روز پو پھٹنے کے وقت ہندوستان کے کینبر اطیاروں نے ڈھاکہ جیسور، چٹگاﺅں ، لال منیر ہاٹ اور رنگ پو رکے غیر فوجی علاقے پر حملے کر کے فضائی جنگ کے دامن میں مشرقی پاکستان کو بھی شامل کر لیا۔ اس کے جواب میں مشرقی میں متعینہ پی اے ایف کے طیاروں نے کالا کنڈامیں انڈین ائیر فورس کے فضائی مستقر پر حملہ کرکے کھڑے ہوئے گیارہ کینبرا اور چار دوسرے طیاروں کو تباہ و برباد کیا۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان میں دشمن ایک ایک اور طیارہ گرالیا گیا۔ جنگ کے آغاز کے بعد پاکستان ائیر فورس کے بمبار طیاروں نے ہر رات نچلی پر وازیں کر کے پٹھا کوٹ ، آدم پور، جو دھپور، انبالہ اور جام نگر میں ہندوستان کے ہوائی اڈوں پر کامیاب حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان حملوں میں آئی اے ایف کے طیاروں اور ہوائی اڈوں پر لگے ہوئے آلات نذر آتش کر دئیے گئے۔ جنگ کے دوران پی اے ایف کے ان کامیاب حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان حملوں کے جواب میں انڈین ائیر فورس کینبرا بمبار طیارے بھیجتی تھی جو راولپنڈی اور کراچی کے قریب بے تحاشہ بم گرا کر بھاگ جاتے تھے۔ دشمن نے پاکستان ائیر فورس کے ہوائی اڈوں پر حملے کی بھی کوشش کی مگر وہ ان مستقروں کو نقصان پہنچانے میں کامیا ب نہیں ہوا۔
صدر مملکت کا پیغام:۔
غرض پاکستان ائیر فورس شروع سے آخر تک فضا پر چھائی رہی اور جنگ کے مختلف محاذوں پر دشمن کے کثیر تعداد میں ٹینکوں ، بکتر بند گاڑیوں اور فوجی مقامات اور فوج بردار گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا کر پاکستان آرمی کو گرانقدر امداد دی۔ ۸ستمبر کی شام تک پی اے ایف نے ہندوستان کے تقریباََ ستر (۰۷) ہوائی جہاز تباہ و برباد کیے ۔ جبکہ اس کے صرف پانچ طیارے کام آئے۔ صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے دشمن پر ضرب کاری لگانے پر پاکستان ائیر فورس کے کمانڈر ان چیف کو مبارک باد کا جو پیغام بھیجا۔ اس میں وہ لکھتے ہیں ” پاکستان ائیر فورس کے بہادرانہ کارناموں نے قوم کے حوصلوں کو بلند کر دیا ہے اور ملک کے دفاع کے متعلق ان توقعات کو پورا کیا۔ جو قوم نے اس (پاکستان ائیر فورس) سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ ہم سب کو آپ پر فخر ہے۔“
دشمن کی فضائی طاقت کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے بعد پاکستان ائیر فورس نے دن دہاڑے انڈین آرمی کے فوجی ٹھکانوں اور رات کو انڈین ائیر فورس کے مستقروں پر پے درپے حملے شروع کر دیئے۔ ایک حملہ میں پی اے ایف کے بمباروں نے انبالہ کے ہوائی اڈے کو شدید نقصان پہنچایااور زمین پر کھڑے ہوئے کثیر تعداد میں کینبر ا طیارودں کو تباہ و برباد کر دیا۔
مشرقی پاکستان میں متعینہ پاکستان ائیر فورس کا مختصر سا دستہ بھی شروع سے آخر تک چوکنا رہا اور اس نے شمالی بنگال میں باغ ڈوگرا کے مقام پر انڈین ائیر فورس کے ہوائی اڈے پر حملہ کرکے ہوائی اڈے کو بھی شدید نقصان پہنچایا اور دشمن کا ایک ہنٹر اور ایک ویمپائر طیارہ بھی تباہ و برباد کر دیا۔ پی اے ایف کے ان کامیا ب حملوں کی وجہ سے دشمن اس درجہ سراسیمہ ہو گیا تھا کہ پاکستان ائیر فورس کے طیارے کسی روک ٹوک یا مزاحمت کے بغیر پاکستان آرمی کو گرانقدر امداد دینے لگے ۔
حاصل ضرب:۔
۳۲ ستمبر کو فائر بندی کے وقت تک ہندوستان ایک سودس ہوائی جہازوں سے ہاتھ دھو چکا تھا اور اس کے انیس طیاروں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ان میں سے پی اے ایف نے ۵۲طیارے فضائی جنگوں میں تباہ کئے تھے۔ ۳۴ طیارے ہوائی اڈوں پر کھڑے ہوئے تباہ و برباد کیے گئے اور ۲۳ہوائی جہازوں کو طیارہ شکن توپوں کی گولہ باری نے نیست و نابود کیا۔ تباہ کیے جانے والے طیاروں میں مگ ، کینبرا ، نیٹ، ہنٹر اور دو ویمپائر طیارے شامل ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان نے دشمن کے ۹۴۱ٹنیک اور بھاری گاڑیاں اور ۲۶ بھار ی توپیں بھی تباہ و برباد کیں۔اس کے برعکس پاکستان ائیر فورس اس جنگ میں تقریباََ صحیح و سالم رہی۔ اس کے صرف ۶۱ ہوائی جہاز کام آئے ۔ جن میں ۴۱ سیبرا اور دوبی۔۷۵ قسم کے بمبار طیارے شامل ہیں۔ ۴۱ سیبر طیاروں میں سے آٹھ طیارے دشمن کی کاروائیوں میں کام آئے ۔ یعنی چار فضائی جنگوں میں گرائے گئے۔ دو ہندوستان کی توپوں کا نشانہ بنے ۔ ایک طیارہ اس وقت کام آیا جبکہ وہ دشمن کی ایک ٹرین پر‘ جو فوجی سازوسامان لے جارہی تھی ، مشین گنوں سے فائرنگ کر رہا تھا کہ وہ پھٹ گئی اور طیارہ اس کی زد میں آگیا۔ ایک طیارہ اپنے ہی اڈے پر کام آیا۔ ہمارے آٹھ ہوا باز اور دو نیوی گیٹر لا پتہ ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کی اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستان ائیر فورس کی اعلیٰ کارکردگی اور شان دار کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے ائیر مارشل نور خان نے فرمایا:
”ہندوستان کے خلاف سترہ روزہ جنگ میں پاکستان ائیر فورس کے خراش تک نہیں آئی اور یہی نہیںبلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوگئی ہے۔ اگر ہندوستان نے پھر جنگ شروع کی تو وہ ہمیں پہلے سے بھی زیادہ چا ق و چوبند اور تیار پائے گا۔“