خبرنامہ

افتخار نامہ—معاصرین کی نظر میں!

افتخار احمد سندھو کسی تعارف کے محتاج نہیں، وہ کاروباری حلقوں میں بامراد ہیں۔دانشوروں کے درمیان سرمایہ افتخار ہیں۔ ان کی آپ بیتی افتخار نامہ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ میں خود لکھنے والا ہوں، ناشر بھی ہوں،میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ دعویٰ برملا کرسکتا ہوں کہ افتخار سندھو نے کم سے کم مدت میں کتاب لکھنے کا ریکارڈ قائم کردیا ہے ،اور پھر جھٹ سے شائع ہوکر بازار میں بھی آگئی۔ کتاب کے بارے میں معاصرین نے اپنے تاثرات بیان کئے ، جنہیں کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ سب سے پہلا تبصر ہ برادرم مجیب الرحمن شامی کا ہے۔ شامی صاحب میڈیا کے ہر شعبے کی صف اول میں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تبصرے میں دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
افتخار احمد سندھو اپنی ڈھب کے آدمی ہیں۔ سب سے جڑے ہوئے لیکن سب سے الگ۔ لاکھوں کیا کروڑوں میں ایک ہیں۔ رہن سہن کے لحاظ سے خالص پنجابی، لیکن ان کا اندیشہ افلاکی، اور پرواز لولا کی ہے۔ اصل شاہینی تو ہے ہی، آنکھوں میں بے باکی بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ پاکستان ہی کے نہیں عالم اسلام کے بھی شہری ہیں، اس میں بستے، اس کے لیے سوچتے اور سوچ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی خود نوشت میں وہ سب کچھ موجود ہے،جو اْن کی آنکھوں، دل اور دماغ میں پایا جاتا ہے، یا پایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے مشقت کی ہے اور راحت کا لطف بھی اٹھایا ہے۔ غربت سے پالا پڑا ہے، اور لاکھوں، کروڑوں میں بھی کھیلے ہیں بلکہ کھیل رہے ہیں۔
کاشتکاری کی، مویشی پالے، بیرون ملک جاتے جاتے ارادہ ترک کردیا، پراپرٹی کے کاروبار میں قدم رکھا اور وارے نیارے ہو گئے۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست پر ان کی نظر ہے، گہری یا طائرانہ، اس بارے میں اپنی اپنی رائے رکھی جا سکتی ہے۔ قرآن کریم کے وہ ایک سچے اور پکے طالب علم ہیں۔ جس حال میں رہے اور جیسے بھی رہے، ان کے اندر کا انسان زندہ رہا اور انسانوں سے محبت کرتا رہا۔ ان کی آپ بیتی دلچسپ ہے ا ور پْر لطف بھی۔ اْن کے خیالات اور ان سے اخذ کردہ نتائج سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کی پسند نا پسند پر بھی اْنگلی رکھی جاسکتی ہے، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے حلقہ تعارف کے لیے سرمایہ افتخار ہیں، جو اْن کو جانتا ہے وہ تو جانتا ہی ہے، جو نہیں جانتا وہ ’’افتخار نامہ‘‘ پڑھ کر جان لے گا۔ وہ پرواز سے نہ صرف خود تھک کر نہیں گرتے بلکہ دوسروں کو بھی گرنے نہیں دیتے۔ اْنہیں پڑھیے، ان سے ملئے اور کمر ہمت کس لیجیے،’’افتخارنامہ‘‘ آپ کا اعمال نامہ بھی بن سکتا ہے۔
میں نے خود بھی کوشش کی کہ ہزار رنگوں سے مزین اس کتاب کے بارے میں اظہار خیال کروں، ظاہر ہے لکھنے والے کو اپنی تحریر اچھی لگتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ قارئین ہی کرسکتے ہیں۔ کہ انہوں نے میری تحریر سے اس کتاب افتخار نامہ کے بارے میں کیا تاثر قائم کیا۔؟
افتخار سندھو کی شخصیت کے بارے میں کوئی دوسرا شخص ان کے کردار کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتا۔ اچھا ہوا کہ اب انہوں نے خود ہی قلم اٹھالیا اور اپنی آپ بیتی خود لکھ ڈالی ہے۔ ان کے دامن میں جو کچھ بھی تھا، وہ انہوں نے اس کتاب میں سمو دیا ہے۔یہ کتاب‘ایک دیہاتی شخص کی سادگی کا بھی عکس ہے، اور ایک کاروباری شخص کی تہہ در تہہ کامیابیوں کا انبار بھی۔ یہ کتاب ایک سادہ منش انسان کے علم وفضل سے بھی لبریز ہے۔ افتخار سندھو نے اپنی آپ بیتی میں اپنے احساسات،مشاہدات،تجربات اور واقعات کا خلاصہ قلمبند کیا ہے۔ جھوٹ کے حوالے سے انہوں نے قومی سطح کے تضادات کو بھی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہماری سب سے بڑی خرابی کرپشن نہیں، سیاسی طالع آزمائوں کا جھوٹ ہے۔ جب تک ہم جھوٹ بولنا نہیں چھوڑیں گے، ترقی نہیں کرسکتے۔افتخار سندھو ہر بات کو منوانے کیلئے دلیل کا سہارا لیتے ہیں اور دلیل کو ہی مانتے ہیں۔
کتاب کوپڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا حافظہ بلا کا ہے،وہ لکھتے ہیں کہ میں زندگی میں سا ت بار موت کے منہ سے بچا۔ جن میں سے چار دفعہ تو پانی میں ڈوبتے ڈوبتے بچ گیا۔ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی مسیحا ان کو موقع پر آکر بچالیتا۔ اور تین ٹریفک حادثات میں بھی میں بال بال بچا۔
افتخار سندھو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا نہیں ہوئے، بلکہ اپنی محنت اور اللہ پر بھروسے پر آج ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ افتخار سندھو نے علم و ادب کی فضائے بسیط میں ایک نئی کہکشاں کو جنم دیا ہے، اس کہکشاں کی ایک ایک سطر جگمگ جگمگ کررہی ہے۔ لوگوں کو ایک سچے انسان کے اندر جھانکنے کا موقع ملے گا۔ تیسرا تبصرہ جناب حبیب اکرم کا ہے ، وہ الیکٹرانک میڈیا سے ابھرکر اور نکھر کر سامنے آئے ہیں۔ افتخار سندھو صاحب کے ذاتی قریبی احباب میں شامل ہیں۔ وہ کتاب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں۔
افتخار احمد سندھوکی کتاب کی شاید اہم ترین خصوصیت اس کی سادگی اور سچائی ہے۔ زبان ایسی کہ پڑھتے ہوئے لہجے کی مٹھاس بھی خیال میں اتر آئے۔ جہاں جہاں لوگوں کا سراپا کھینچا ہے یوں ہے کہ پڑھنے والوں کو متعلقہ شخص ایسا لگے جس سے وہ مل چکے ہوں۔ میرا چونکہ مصنف کے ساتھ براہ راست ایک تعلق بھی ہے، اس لئے مجھے تو یہ کتاب پڑھ کر یو ں لگا کہ میں کسی چوپال میں بیٹھا ہوں، جہاں کوئی شخص سردیوں کی رات میں آگ کے الائو کے گرد بیٹھا قصہ کہنے لگتا ہے۔ چوپال میں بات سے بات نکلتی ہے ، کہانی سے کہانی جڑتی ہے۔ اس کتاب میں بھی کچھ ایسا ہے۔ بے ساختہ انداز میں بات شروع ہوتی ہے ، موج کے سے انداز میں آگے بڑھتی ہے اور کسی نئی موج کا حصہ بن کر کنارے آلگتی ہے۔ کہیں دلیل ہے تو لٹھ کی طرح سر پر نہیں برستی، بس ہولے سے چھوکر گذر جاتی ہے۔ جہاں مروجہ سوچ سے کوئی اختلاف ہے تو اسے غلط نہیں قرار دیا ، بلکہ اس حوالے سے خالصتاًاپنا کوئی تلخ تجربہ بیان کرکے بات ختم کردی ہے۔ جس کو صحیح سمجھا تو یوں نہیں سمجھا کہ نئی دنیا دریافت کرنے کا سہرا سرپر سجالیا، بس اپنا خیال کہہ دیا اور چل نکلے۔
کسی کتاب کی خوبی یا خامی اس کا تناظر ہوتا ہے ، یعنی وہ زاویہ یا جگہ جہاں سے مصنف کسی منظر کو دیکھتا ہے۔ خودنوشت میں سہولت رہتی ہے کہ لکھنے والا اپنی سہولت سے کبھی منظر بنتا ہے ، کبھی ناظر بنتا ہے اور کہیں بے تعلق تماشائی۔ افتخار سندھو صاحب نے جو کچھ لکھا ہے ، اس میں وہ منظر بھی ہیں اور ناظر بھی ، مگر لاتعلق تماشائی کہیں بھی نہیں۔ کتاب میں جو بھی واقعات آئے ہیں، وہ کسی نہ کسی حوالے سے لکھنے والے کو متاثر کرتے ہیں۔ یوں تاریخ کے بظاہر ایک دوسرے سے جدا واقعات کے درمیان ربط قائم ہوگیا ہے۔ الگ الگ واقعات کے درمیان ذاتی نوعیت کا تعلق قائم کرلینا کافی دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے۔ تاریخی واقعات کے درمیان عام آدمی یوں کڑی بن جاتا ہے ، میں نے یوں کبھی نہیں سوچا تھا۔ تاریخ کے اس انداز کو اگر ہم سبھی اپناتے ہوئے ان تاریخی واقعات کی فہرست بنائیں جنہوں نے ہماری زندگی پر اثر ڈالا ہے تو یہ فہرست بھی دلچسپ ہوگی۔