خبرنامہ

انجام کار اچھا تو سب اچھا!…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

انجام کار اچھا تو سب اچھا!…اسد اللہ غالب

چھلے دنوں میڈیا اور سیاستدانوں کو دو مسئلے درپیش تھے ایک تو ہاہا کار یہ مچی ہوئی تھی کہ ڈی جی آئی ایس آئی کا نویفیکیشن نہیں ہورہا ۔ دوسری طرف تجزیہ کار سنگساری میں مصروف تھے کہ حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان خوں ریز تصادم ہوا کہ ہو ا ۔اب یہ چائے کی پیالی کے دونوں طوفان تھم چکے ہیں ،ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفیکیشن ہوگیا ،حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان سیز فائر ہوچکی اور معاہدہ ایک سربمہر لفافے میں ہے جس کی تفصیلات مناسب وقت میں سامنے آسکتی ہیں ۔

ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفیکیشن پر ہزاروں بیانات اور لاکھوں ٹویٹس نشر کیے گئے ،دعویٰ سب کا یہ تھا کہ حکومت اور فوج جس ایک صفحے پر تھیںوہ صفحہ پھٹ چکا ۔حکومتی وزرا کی کسی نے نہ سنی جو ہر سانس کے ساتھ اعلان کر رہے تھے کہ حکومت اور فوج ابھی تک ایک پیج پر ہیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے سلسلے میں نہ کوئی اختلاف ہے نہ ابہام ۔ یار لوگ مگر رائی کا پہاڑ بنانے میں مصروف رہے ،ان کے کان بند تھے اور زبانیں دراز تھیں اور قلم بگٹٹ رواں تھے،ہر شخص کو اپنے من کی مراد پوری ہوتی نظر آرہی تھی۔ تجزیے ،کمینٹریاں ،بیانات ،تبصرے ،جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے چلے گئے مگر ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا اور سارے تجزیے تبصرے بیانات دھرے کے دھرے رہ گئے ،فوج اور حکومت کو لڑتے دیکھنے کی خواہشیں دم توڑ گئیں ۔ادھر ڈی جی آئی ایس آئی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ادھر تجزیہ کاروں کی دور کی عینک کا نمبر درست ہوگیا اور انہیں وہ صفحہ واضح طور پر نظر آنے لگا جس پر حکومت اور فوج ایک ساتھ ہیں ۔
ٹی ایل پی کے مظاہرے دیکھنے کو دھواں دار ہوتے ہیں ،فیض آباد کا دھرنا تو سب کو یاد رہے گا جب وزیر داخلہ احسن اقبال کی آنکھیں ساری رات کے مذاکرات کے بعد سوجی ہوتی تھیں۔ کچھ عرصے تک اس دھرنے نے چوکھا رنگ دکھایا ،اسلام آباد اور راول پنڈی ایک دوسرے سے کٹ گئے اور ملک سے بھی کٹ گئے ،تب بھی پردہ غیب سے ایک معاہدہ جلوہ افروز ہوا ،دھرنا دینے والوںکو واپسی کا کرایہ دیا گیا اور سارا مسئلہ ٹھنڈا پڑ گیا ،ٹی ایل پی کا دھرنا لاہور میں بھی ہوا ،اسمبلی ہال چوک میں دھماکہ خیز دعوے بھی کیے گئے۔فضا دھواں دار تھی مگر دھواں ہٹا تو پتہ چلا کہ آگ تو کہیں لگی ہی نہیں تھی ،یتیم خانہ چوک میں البتہ ریاستی اداروں اور ٹی ایل پی کے درمیان خوفناک تصادم ہوا، یہ تصادم خونی تھا مگر پھر ایک معاہدہ ہوگیا اور راوی چین لکھنے لگا ،اس معاہدے کو دو سال گزر گئے ٹی ایل پی نے حکومت کو پہلے تو پر امن مظاہروں سے یہ یاد کرانے کی کوشش کی کہ دو سال قبل کا معاہدہ زنگ آلود کیوں ہوتا جارہا ہے ،ریاستی مشینری نے ہوش مندی کا راستہ اختیار نہ کیاتو ٹی ایل پی والوں نے جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ شروع کردیا ،جگہ جگہ سکیورٹی اداروں اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کے مابین تصادم بھی ہوا۔ دونوں طرف سے دعوے کیے گئے کہ لاشیں گر رہی ہیں اور لوگ زخموں سے چور چور ہیں ،ٹی ایل پی والے پنڈی پہنچنا چاہتے تھے مگر انتظامیہ نے روایتی اقدامات اختیار کیے ،جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ خندقیں کھود دی گئیں،مظاہرین کے سامنے دیو ہیکر کنٹینر کھڑے کر دیے گئے ،چناب اور جہلم کے پلوں کو ویلڈنگ کرکے سیل کر دیا گیا ۔انتظامیہ کے ان ہتھکنڈوں سے ٹی ایل پی کے کارکنوں کا حوصلہ نہ ٹوٹ سکا۔وہ آگے بڑھنے پر تلے نظر آتے تھے اور حکومت کا اعلان تھا کہ جس نے سرخ لکیر عبور کی اسے گولی سے اڑا دیا جائے گا ۔یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں ریاستی ادارے اپنے عوام کو لاٹھی گولی سے ڈرانے کی کوشش نہیں کرتے لیکن پاکستان میں باوا آدم نرالاہے ۔پولیس ہمیشہ ہتھ چھٹ واقع ہوئی ہے ۔بھٹو دور میں پی این اے کے مظاہرین کو پولیس اور ایف ایس ایف نے گولیوں سے چھلنی کیا ،ماڈل ٹائون میں بھی پولیس نے لاشوں کا ڈھیر لگایا ۔ڈاکٹروں کا مظاہرہ ہو یا نابینا نوجوانوں کا یا بوڑھے اور بیمار پنشنرز کا،یا سکول ٹیچرز کا ،یا لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کا ،پولیس کے ڈنڈوں کو چین نہیں آیا ۔انہوں نے ہر کسی کا سر پھاڑا ،ہر کسی کی ٹانگیں توڑیں ۔ریاستی اداروں نے شاید ہی کبھی صبر و تحمل کا ثبوت دیا ہو ۔ریاست کے پاس طاقت اور مکمل اختیار ہوتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اسے استعمال کیا جائے ۔ہم نے دیکھا کہ ریاستی اداروں نے مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی اور موت کی کوٹھری میں بند کیا،ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گئے مگر بھٹو بد قسمت نکلے ،انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا۔نواز شریف کو، بے نظیر کو، نصرت بھٹو کو،زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو قید و بند کا شکار کیا گیا۔آئین کے ایک آرٹیکل کا سہارا لے کرحکومتیں توڑی گئیں ،نواز شریف کو تیسری مرتبہ اقتدار سے ہٹانے کے لیے غیر روایتی طریقہ استعمال کیا گیا ۔اس پس منظر میں وزیرآباد میں دھرنا دینے والے ٹی ایل پی کے کارکنوں کے خلاف ریاستی اداروں کی طرف سے کوئی بھی ایکشن کیا جاسکتا تھا جس کا انجام ملک اور قوم کو بھگتنا پڑتا ۔سننے میں آیا ہے کہ ایک بار پھر عسکری قیادت نے حکومت کی مددکی اور اسے طاقت کے استعمال سے باز رہنے پر آمادہ کیا۔ پھر حکومت اورٹی ایل پی کے نمائندوں کے مذاکرات ہوئے اور ایسے معاملہ طے ہوا کہ جیسے کوئی مسئلہ درپیش ہی نہیں تھا ۔انجام کار اچھا ہو تو پچھلے واقعات بھلا دیے جاتے ہیں ۔