خبرنامہ

فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی سازشیں….اسد اللہ غالب

فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی سازشیں….اسد اللہ غالب

پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اپنے خطاب میں بجا طورپر کہا ہے کہ دشمن عوام اور افواج میں دراڑ ڈالنے کی سازشیں کررہا ہے۔ آرمی چیف کے اس بیان پر کوئی تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ میرے جیسے دوردراز کنارے پربیٹھے شخص کو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک جہاں دیدہ،تجربہ کار اور دنیا کی سب سے مانی ہوئی ماہر فوج کے کمانڈر انچیف کو مشورہ دینے کیلئے اپنی زبان کھولے۔ کیونکہ صورتحال پو ری طرح الم نشرح ہوچکی ہے۔ فوج کے پاس پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ کھلی آنکھوں اور سنتے کانوں سے صورتحال کا مکمل جائزہ لے سکے۔ دشمن جو بھی سازش کررہا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ دشمن اب اپنے حربے دن کی روشنی میں آزما رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میں نے آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ سے کہا تھا کہ اگلی جنگ چونڈہ،واہگہ اور سلیمانکی کے محاذوں پر نہیں، بلکہ موبائل فون کی اسکرینوں پر لڑی جائے گی۔ جس میں ایٹم بم اور میزائل نہیں، بلکہ ذہنی صلاحیتوں کا مقابلہ ہوگا۔ دماغ سے دماغ ٹکرائیں گے، لوگ ایسے ایسے فقرے کسیں گے، کہ جو یک دم پوری دنیا میں پاک فوج کو بدنام کرنے کا باعث بنیں گے۔
1970-71ء میں شیخ مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی کو عالمی میڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ ان سیاسی لیڈروں کی زبانیں شعلے اگل رہی تھیں، جن کا زہر مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں کو آلودہ کررہا تھا۔ اس وقت یحییٰ خان جیسے آرمی چیف نے مشرقی پاکستان میں جنرل ٹکا خان کو فوجی آپریشن کیلئے بھیجاتھا۔ مشرقی کمان کو صرف 30ہزار فوجی میسر تھے، جبکہ پورے صوبے کے کروڑوں عوام آتش فشاں کی طرح بپھرے ہوئے تھے۔ بھارت میں اندرا گاندھی پاکستان کی کردارکشی میں مصروف تھی۔ اس نے چند ماہ میں دنیا کے بڑے بڑے دارالحکومتوں کا دورہ کیا اور امریکہ،روس اور اہل مغرب کو اپنا ہم نوا بنالیا۔ کولکتہ میں مکتی باہنی کے ٹریننگ کیمپ کھول دیئے گئے۔ایک بنگالی فوجی افسر میجر ضیا ء نے یونٹ کمانڈر کو شہید کرکے اپنی چھاؤنی پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرادیا تھا۔ یہی میجر ضیاء بعد میں جنرل ضیاء الرحمن کے نام سے بنگلہ دیش کے مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بنے اور ان کی بیگم خالدہ ضیا ء بھی سیاست میں آئیں اور وزارت ِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچیں۔
1971ء میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کیلئے صرف عالمی میڈیا سرگرم ِ عمل تھا، آج اس عالمی میڈیا کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے۔ واٹس ایپ،یوٹیو ب، انسٹا گرام، فیس بک، ٹویٹراور ٹک ٹاک کے پلیٹ فارم پاکستانی افواج اور سیاستدانوں کیخلاف زہر کے نشتر چلارہے ہیں۔ اگر میں غلطی پر نہیں،تو اب دشمن کو تلاش کرنے کیلئے سرحد پار جھانکنے کی ضرورت نہیں۔ سال ڈیڑھ سال قبل، جب پاکستان کے ایک سیاستدان نے مخالفین کو تگنی کا ناچ نچایا،اس وقت بھارتی میڈیا دانتوں میں انگلیاں دبائے ہنس رہا تھا کہ جو کام ہم اربوں روپے خرچ کرکے75برس میں نہیں کرسکے، وہ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی نے کر دکھایا۔ کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف کو میرجعفر اور میرصادق جیسا غدار قرار دیا گیا، اسے نیوٹرل کہا گیا۔ اورپھر کہا گیا کہ نیوٹرل تو جانورہوتا ہے۔ پاکستان کی فوجی قیادت کو سہولت کار اور مددگار قراردیا گیا۔
کس قدر ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کی سینئر ترین ریٹائرڈ فوجی قیادت اپنے ہی ملک کو رگیدنے میں مصروف تھی۔ بلوچستان میں سیلاب زدگان کی مدد میں مصروف ایک فوجی ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار ہوا تو ایک شہید فوجی کمانڈر کیخلاف گالم گلوچ اور غلیظ زبان استعمال کرنے کی ہر حد پار کردی گئی۔ میں پھر کہتا ہوں کہ مجھے کوئی مشورہ یا تجویز دینے کی ضرورت نہیں، کوئی چند ہفتے قبل قومی سلامتی کونسل کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تو اس میں صاف کہا گیا کہ ماضی کی حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات شروع کئے، انہیں پاکستان میں آبادکاری کیلئے سہولت فراہم کی۔ بیرونی ممالک میں پاکستان دشمن لابیوں کو ہائیرکیا گیا، جنہوں نے سوشل میڈیا پر اوورسیزپاکستانیوں کے نام سے ہزاروں جعلی اکاؤنٹس کھولے اور پاک فوج کیخلاف ان جعلی اکاؤنٹس سے پروپیگنڈاکیا گیا۔
ظاہر ہے اس سارے پروپیگنڈے کی لگامیں پاکستان کے اندر سے ہی کنٹرول کی جارہی ہیں۔ میں نے یہ کوئی راز کی بات نہیں کی، ہر دوست،دشمن کی زبان اسی حقیقت کو بیان کررہی ہے۔براہ کرم آرمی چیف زبان ِ خلق کو نقارہ خدا سمجھیں، کہ جب وہ یہ بتارہے ہیں کہ دشمن فوج اور عوام کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوششیں کررہا ہے، تو وہ قوم کو تسلی دلائیں کہ ان کا حال اور مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ میں بولوں گا تو یہ چھوٹا منہ، بڑی بات کے مترادف ہوگا، لیکن میں پاک فوج کے حق میں اور پاکستان کی سلامتی وآزادی کے تحفظ کے موضوع پر چار کتابیں اور ہزاروں کالم تحریر کرچکا ہوں۔کارگل جنگ کی حمایت کے جرم میں میرا گھٹنا توڑ دیا گیا۔ لیکن میرا قلم اور میری جان پاکستان سے وابستہ اور پیوستہ ہے۔ آج سوشل میڈیا چلانے والوں سے یہ پوچھاجاناچاہئے کہ کیا یہ عناصر پاکستانی فوج کے وقار کو ملحوظ رکھنے پر آمادہ ہیں اور کیا یہ عناصر ملکی آزادی وسلامتی ویکجہتی کیلئے سنجیدہ ہیں؟
اس وقت پاکستان معاشی اور سیاسی دلدل میں دھنستا چلاجارہا ہے۔ اس پر مستزا د آرمی چیف کی یہ وارننگ سامنے آگئی کہ دشمن سازشوں میں مصروف ہے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کر عقل چکراجاتی ہے اور ذہن ماؤف ہورہا ہے اور محب وطن پاکستانی سوچ رہے ہیں کہ ان سنگین خطرات سے انہیں کون نکالے گا۔ کیا ملک بھر میں ایک ہی روز ہونیوالے الیکشن سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور اندرون و بیرون ملک، فوج سے برسرپیکار سوشل میڈیاکو چپ لگ جائے گی۔ آج پاکستان کی سلامتی، یک جہتی اور آزادی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ آرمی چیف نے بجا طور پرکہا کہ آج کی جنگیں محض فوج نہیں لڑتی، اس میں عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔ تو بہتر ہوگا کہ عوامی تعاون کے حصول کیلئے آرمی چیف ایک قابل عمل روڈ میپ وضع کریں۔ لوگ فاقوں کا شکار ہیں۔ ان کی آنکھیں پتھراگئی ہیں۔ان کے دلوں میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔ کوئی تو ہو جو اس آسودگی کے راستے کیطرف رہنمائی کرے۔لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ یہ حالات 1971ء والے نہیں،1947ء والے ہیں۔ جب لوگوں نے گھربار چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ ہجرت کے سفر میں لوگو ں کے سر کرپانوں سے کاٹے گئے، خواتین نے اپنی عصمت بچانے کیلئے کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں، ایسے میں بہت کم خوش نصیب پاکستان کی منزل مراد تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
آج قوم کے ایک طبقے کوخون آشام دہشت گردوں کی حمایت بھی حاصل ہے توان بھیڑیوں سے جان بچانے کیلئے لوگ کس ملک کی طرف ہجرت کریں گے۔ میں اللہ کے کرم سے مایوس نہیں، بلکہ اس کی رحمت کا طلب گار ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اگر یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا تو پھر خدائے لم یزل کی ذات اسے ضرور قائم و دائم رکھے گی۔
ضروری نوٹ:
یہ کالم عمران خان گرفتاری سے پہلے لکھا گیا اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔اس صورتحال پر تبصرہ میں اگلے کالموں میں کروں گا،مگر فی الوقت اتنا کہنے پر اکتفا کروں گا کہ لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس،راولپنڈی کے جی ایچ کیو اور سرگودھا میں فضائیہ کے ایئر بیس کے خلاف جس دہشت گردی کا ارتکاب کیا گیا اس سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی وارننگ کا بیّن ثبوت سامنے آگیا ہے۔میرا تفصیلی تجزیہ ادھار رہا تاہم مجھے ذاتی طور پر جو دکھ اور قلق پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ چند برس پہلے زیارت میں قائد اعظم کے آخری لمحات کی یادگار ریزیڈنسی کو جلانے کے بعد اب لاہور میں قائد اعظم کی یادگار جناح ہاؤس کو خاکستر کر دیا گیا ہے۔