خبرنامہ

مئی 28کے قابل فخر لمحات

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

میں آج کے یوتھیوں کے سامنے تاریخ کا ایک اور ورق پلٹ رہا ہوں۔ یہ 1998ءکی بات ہے اور تاریخ تھی مئی کی اٹھائیس۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان یوتھیوں میں سے 90فیصد اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ نہ انکے ماں باپ نے قومی تاریخ کے ایک روشن پہلو کے بارے میں ان کو کچھ بتایا۔ ذرا کان کھول کر سن لیجئے کہ ایک باغیرت قوم نے ایک باغیرت راستہ اختیار کیا تھا۔
کچھ ففتھ کالمسٹوں نے بے غیرتی کا راستہ دکھانے کےلئے پورا زور لگا یا تھا ، لیکن پاکستان ایک باغیرت ،باوقارملک تھا،پاکستانی قوم نے اب تک ملکی غیرت اور ملی وقار کو قائم رکھنے میں کسی کو تاہی کا مظاہر ہ نہیں کیا تھا۔انڈیا کے تین ایٹمی دھماکے، پاکستان کی غیرت اورملی وقار کے لئے سنگین چیلنج ثابت ہوئے،پاکستان کو ثابت کرنا تھا کہ وہ اپنی غیرت ،اپنی آزادی ،اپنی سلامتی اوراپنے وقار پر کوئی سودے بازی نہیں کرسکتا۔
افسوس !کہ ایک ”وصولی گروپ“نے سراٹھایا ،وہ چلانے لگا،”دھماکہ نہیں،مال بناﺅ ،وصولی کرو، بریف کیس سمیٹو“۔ پورے پندرہ دن تک اس وصولی گروپ نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ خدا کی پناہ۔ پاکستانی قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا تھاکہ انگریز اور ہندو کے خلاف ہمارے اسلاف نے جوقربانیاں دی تھیں وہ شاید اکارت چلی گئیں،مشرقی پنجاب میں ہماری ماﺅں ،بہنوں کی عصمتوں کو لوٹا گیا،ان کو بھلا دیا جائے، ننھے بچوں کو سنگینوں سے ذبح کر دیا گیا ،ان کے معصوم خون کو ضائع سمجھا جائے، گویاخون صد ہزار انجم سے پھوٹنے والی سحر کی بات محض سراب تھی۔دھماکہ نہیں ”مال بناﺅ“ ٹولے نے اس پر بس نہیں کی ،وہ قوم کو بے غیرتی کی آخری حدیں پار کرانے پر تلا بیٹھا تھا،کشمیر میں باحیا ،باصفا پاکستانی خواتین کی عصمتیں لٹ رہی ہیں۔پھول سے جگر گوشوں کے ٹکڑے کئے جارہے ہیں،ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی کی یا نہیں ، لیکن ہندو نے کشمیری مسلمانوں کی نسل مٹانے کےلئے سفا کی اور بہیمیت کا بازار گرم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ”دھماکہ نہیں ،مال بناﺅ“ٹولہ چاہتا تھا کہ ہم کشمیری عفت مآب خواتین کی لٹی ہوئی عصمتوں اور چناروں کی وادی میں بہنے والے جواں گرم خون کی تجارت کرگزریں!۔
خداکی قسم! یہ ٹولہ بھول گیا تھا کہ عصمت اورخون کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ،کوئی بے غیرت سے بے غیرت قوم بھی عصمت اور خون کی قیمت وصول کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ،پا کستانی قوم کی غیرت اس سودے بازی کے لئے کیوں کر تیار ہو سکتی تھی۔
پاکستانی قوم نے غیرت اورحمیت کا راستہ نہ چھوڑنا تھا اور نہ چھوڑا ، پاکستان کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہیں رہ گیا تھا، سو پاکستان اسی راستے پر آگے بڑھا ، مال بناﺅ گروپ ملعون اور مردود ٹھہرا۔ تاریخ اور آنے والی نسل اس پر ہزار نفرین کہتی رہے گی۔
اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ایک عظیم اور تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ جمعرات 28مئی 1998ءکی سہ پہر کی اس ساعت سعید کو سلام ،جب بلوچستان کے پہاڑوں میں یکے بعد دیگرے پانچ ایٹم بم پھٹے ،پوری قوم کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوگئی، گھر گھر مبارکباد کا شور گونجا،پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگے ،قوموں کی برادری میں ہم سر بلند وباوقار ٹھہرے ،سقوط بغداد اور سقوط غرناطہ کا انتقام لے لیا گیا، سقوط اسلام آباد کا چانکیائی ہندوخواب چکنا چور کر دیاگیا۔
زندہ قومیں زندہ فیصلے کرتی ہیں،حوصلہ مند قیادت حوصلوں کا کوہ گراں ثابت ہوتی ہے، قائد اعظم کا حوصلہ تو محاورہ تھا ہی۔اب تو نواز شریف نے بھی با حوصلہ اقدام کرکے اپنے آپ کو تاریخ میں زندہ بنا لیا۔وزیر اعظم کی تقریر جچی تلی تھی،قوم ہمہ تن گوش تھی،دوست اور دشمن یکساں طور پر نواز شریف کے ایک ایک نقطعہ پر زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔
آج اس تاریخی لمحے پر قوم اپنے ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر خاں کے سامنے سلام عقید ت سے مو¿دب جھکی ہوئی ہے،قوم اپنے جوہری سائنس دانو ں کی پوری ٹیم کی ممنون ہے۔ آج کوئی دوست اوردشمن ذوالفقارعلی بھٹو کو بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھلا سکتا۔اس نے بھارت کے نیو کلیئر چیلنج کا جواب دینے کا فیصلہ کیا تھا اوراسی فیصلے کی پاداش میں اسے پھانسی چڑھنا پڑا۔ کوئی دوست اوردشمن آج جنرل ضیاء الحق کو بھولنا چاہے تو نہیں بھلا سکتا کہ اس نے سپر طاقتوں کی رعونت اور دھونس کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی اورایٹمی پروگرام کو اس کی منطقی منزل سے ہمکنار کیا۔اسی کی پاداش میں اسے طیارے میں زندہ جلا دیاگیا۔غلام اسحاق خان اورفاروق لغاری کو بھی ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے مقدس مشن کو برقرار رکھنے کی پاداش میں ایوان صدر سے بے توقیر کرکے رخصت کیا گیا ، آج قوم ان کے لازوال کردار کا بھی اعتراف کرتی ہے۔
آیئے آج کے زندہ لمحے میں جینا سیکھیں ، یہ لمحہ ہمیں حیات جاودانی کی نوید دے رہاہے۔ جن قوموں نے نہ مرنے کی قسم کھائی ہو، وہ مٹ کر بھی نہیں مرتیں۔ ایٹمی دھماکے سے قوم کوالوہی اور والہانہ خوشی ہوئی ، پاکستان کے درودیوار مسرت سے جھوم جھوم اٹھے۔ ان بموں سے پاکستانی قوم کو جو حوصلہ اوراعتماد ملنا چاہئے تھا ،وہ اسے مل گیا ہے۔اب غزنوی ، ابدالی اور شاہین میزائل کے تجربوں نے قوم کی جھولی خوشیوں کی دولت سے مالامال کردی ہے۔
پاکستان ایک ازلی اورابدلی حقیقت ہے۔غوری میزائل اور ایٹم بموں کے پانچ دھماکوں کے بعد ابدالی ، غزنوی،شاہین کے تجربے نے حیات جاوداں اور حیات جاں افزا کے لمحات کو امر بنا دیاہے۔ یہ امر لمحے قوم کو مبارک ، نواز شریف کو مبارک ،فوج اور آرمی چیف کو مبارک اور قوم کے ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر خاں کو مبارک!!!
یوم تکبیر 28مئی کے تاریخی اقدام کے پس منظر میں ہماری قابلِ فخر آئی ایس آئی نے جو کردار ادا کیا ، اسے مو¿رخ کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ آئی ایس آئی کے نڈر اور بے خوف جانبازجوانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا بھر سے جوہری ساز و سامان جمع کرکے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے سپرد کیا۔آئی ایس آئی نے ہمیشہ کہوٹہ سنٹر کو اپنے کڑے حصار میں لئے رکھا۔ کسی چڑیا تک کو وہاں پر مارنے کی اجازت نہ تھی۔ میں پاکستان ائر فورس کے جوانوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے کہوٹہ پر ممکنہ اسرائیلی حملے کے خطرے کا سدباب کیااور ہمارے لڑاکا جہاز چوبیس، چوبیس گھنٹے کہوٹہ کی پاک فضاﺅں میں پرواز کرتے رہے۔ اس طرح اسرائیل کی بدنام زمانہ فضائیہ کو کہوٹہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہوئی۔ ایٹمی پروگرام پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کا ہی ثمر ہے۔ ہمیں اس پر ناز تھا ، ناز ہے اور ناز رہے گا۔
٭٭٭