خبرنامہ

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کی اہمیت

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی، شہد سے میٹھی اور سمندروں سے گہری ہے۔ دونوں ممالک کے مابین تقریباً پون صدی پر محیط دوستانہ تعلقات کی تاریخ انتہائی وسیع اور مستحکم ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی تھا۔میاں نواز شریف اور محمد شہباز شریف دونوں بھائی اپنے ہر دورِ حکومت میں چین کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے خواہاں اور عملی طور پر کوشاں رہے ہیں۔ چین نے بھی مسلم لیگ ن کے ہر دورِ حکومت میں بڑھ چڑھ کر مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی ،جس کا ایک عملی مظہر سی پیک کوریڈور کا عظیم منصوبہ ہے جو پاکستان کے لئے تو زندگی و موت کی حیثیت رکھتا ہی ہے ، وہاں چین کے لئے بھی یہ منصوبہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور دنیا میں معاشی ،تجارتی میدانوں میں سپرپاور بننے کے لئے کوشاں ہے۔ امریکہ اور یورپی و مغربی ممالک چین کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارتی و معاشی قوت سے خائف ہیں اور درون ِ خانہ امریکہ اور چین کے درمیان سردِ جنگ جاری ہے۔
حال ہی میں نئی منتخب حکومت سنبھالتے ہی وزیراعظم شہباز شریف پاکستان کو عمران خان کی حکومت کی تباہ کن معاشی وسیاسی پالیسیوں اورکرپشن سکینڈل کے باعث درپیش موجودہ سنگین معاشی بحران سے نکالنے کیلئے پوری سرکاری مشینری کیساتھ جت گئے ہیں، کبھی ایران ، تو کبھی سعودی عرب اور ترکی اور یواے ای کے طوفانی دورے اور تجارتی وفود کی آمدسے پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر اور سرمایہ کاری بڑھانے کی کوششیں کیجارہی ہیں، اسی سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بڑے تجارتی اوروفاقی وزراء کے وفد کے ہمراہ 4 جون سے 8 جون تک دور ہ چین کے دوران چینی شہربیجنگ کے علاوہ شینزین ، ڑیان نامی شہروں کا دورہ کیا۔ وزیراعظم کے اس اہم دورہ چین کے دوران چین کی جانب سے پاکستان پر واجب الادا پاور سیکٹر کا 15 ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کیے جانے کاقوی امکان ہے۔
سرکاری اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم کے اس 5روزہ دورہ کے دوران پاکستان اور چین کی کمپنیوں کے مابین مختلف شعبوں میں 30ایم او یوز پر دستخط ہو ئے جبکہ ایک لیٹر آف انٹینٹ پر بھی دستخط کیے گئے ‘ جن شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں (ایم او یوز) پر دستخط کیے گئے ہیں ان میں توانائی، ادویات سازی، صحت، ثقافت، زراعت، فوڈ پروسیسنگ، برآمدات، لاجسٹک، آئی ٹی‘کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی منتقلی‘اسمارٹ ڈیوائسزکی تیاری اوردیگر منصوبے شامل ہیں، وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران جن پاکستانی اور چینی کمپنیوں نے معاہدوں پر دستخط کئے،ان میں توانائی کے شعبے میں پاکستان تھر کول گیسی فکیشن کے منصوبے کے لیے ہولو انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور پاکستان کی ایشیا پاک انوسٹمنٹ لمٹیڈ کے مابین ایم او یو ہوا،گرین توانائی ہائیڈروجن پروجیکٹ کیلئے پاکستان کی کمپنی حبیب رفیق انجینئرنگ اور چین کی بیجنگ گلوبل ہائیڈروجن انڈسٹری، پاکستان میں متبادل توانائی کی پیداوار میں تعاون کے فریم ورک کیلئے پی وی سولر پینلز منصوبے کے لیے ایم او یو پر دستخط ہوئے، پنجاب وسندھ گرین ٹرانسپورٹ کوآپریشن فریم ورک کیلئے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے پاور چائنا انٹرنیشنل اور ڈائیو پاکستان کے مابین معاہدہ ہوا، اس کے علاوہ پاکستان میں نیشنل آپٹیکل فائبر پروجیکٹ کے لیے لیٹر آف انٹینٹ پر بھی دستخط ہوئے۔
بلاشبہ یہ دورہ چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں پرامن اور قابلِ عمل ماحول دینے میں اہم کردار ادا کرے گا اور چینی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ وزیرِ اعظم کا دورہ پاک چین اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب تاریخی اور اہم قدم ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف چین میں بڑے پیمانے پر کاروباری شراکت داری کے خواہاں ہیں۔ دریں اثناء وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر سی پیک فیز 2 کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں پہلے نمبر پر ایگری کلچر ،دوسرے نمبر پر ایم ایل ون ایل منصوبہ پر کام شروع کرنیکا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایم ایل ون منصوبہ تقریباً 6.7 بلین ڈالر کا منصوبہ ہے۔ تیسرے بزنس ٹو بزنس ڈیل جبکہ نمبر 4 پر قراقرم ہائی وے کی ری الائنمنٹ شامل ہے۔
پاکستان میں چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے ایک انٹرویو میں اپنے خیالات وجذبات کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کی قیادت کی رہنمائی اور دونوں ممالک کے عوام کی بھرپور حمایت سے شہباز شریف کا دورہ چین مستقبل میں کامیابیوں سے ہمکنار ہوگا اور یہ دورہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں سنگ میل ثابت ہوگا، سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت دونوں ممالک طے پانے والے اہم نکات کوآگے بڑھائیں گے، دونوں ممالک صنعت، زراعت، کان کنی، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو مزید تقویت دیں گے۔انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف نے چین کا یہ سرکاری دورہ وزیراعظم لی کیانگ کی دعوت پر کیا، رواں سال وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا چین کا پہلا اور بہت اہم دورہ ہے۔ چین کے سفیر نے کہا کہ چین اس دورے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارتی ومعاشی تعلقات مزید تیز تر کرنے کے لیے پر عزم ہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان سدا بہار تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری میں مزید پیش رفت ہو۔وزیراعظم شہباز شریف کی اپنے وفد کے ہمراہ چین کے صدر شی جن پنگ، وزیراعظم لی کیانگ اور نیشنل پیپلز کانگریس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ڑا لیجی سے ملاقاتوں اور معاہدوں کے نتیجے میں متعدد شعبوں میں دوطرفہ باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے مشترکہ طور پر ایک خاکہ تیارکرنے میں مدد ملے گی۔چینی سفیر نے بتایا کہ حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک نے اعلی سطح کے وفود کے قریبی تبادلے کیے، چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر نتیجہ خیز تعاون کیاگیا اور بین الاقوامی اور علاقائی معاملات میں مضبوط رابطے اور ہم آہنگی کو برقرار رکھاگیا۔ سی پیک کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ تاریخی بی آر آئی منصوبے سے مجموعی طور پر25 ارب 40کروڑ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری، 236000 ملازمتیں، 510 کلومیٹر ہائی ویز، 8 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی اور 886 کلومیٹر کور ٹرانسمیشن نیٹ ورک بچھایا گیا جس سے پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی کی بنیاد بے حد مضبوط ہوئی۔
رواں سال مئی کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان خلائی تعاون میں مسلسل کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، پاکستان کے ’’آئی کیوب کیو’’نے ایک ہفتے بعدہی چاند کے مدار سے کامیابی کے ساتھ تصاویر منتقل کیں جس نے پاکستان کو ’’ڈیپ سپیس کلب’’کے چند ارکان میں سے ایک بنا دیا ہے۔ 30 مئی کو پاکستان کے کثیر المقاصد کمیونیکیشن سیٹلائٹ ’’پاک سیٹ ایم ایم ون‘‘کو ایک بار پھر چین کے سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا جو پاکستان کے ٹیلی کمیونیکیشن، انٹرنیٹ اور دیگر شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لائے گا۔ زراعت، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسے مزید شعبوں میں تعاون اور علم کی منتقلی میں اضافہ کریں گے۔ چین کے سفیر نے کہا کہ26 مارچ کو داسو دہشت گردانہ حملے کے بعد چین اور پاکستان اور سی پیک کے درمیان عملی تعاون کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم ماحول کی مزید ضرورت ہے۔ 2024ء￿ میں اب تک پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مجموعی طور پر 13135 انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیے ہیں جن میں 249 دہشت گردوں کو ہلاک جبکہ 396 کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے پاکستان میں گزشتہ برسوں میں چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت کے لیے پاکستان کی عظیم کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں جس میں دو افسروں اور 60 سپاہیوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
معذرت: میرے گزشتہ روز کے کالم جرم ضعیفی میں غلطی سے قیوم نظامی صاحب کا نام چھپ گیا ہے۔وہ میرے بڑے بھائیوں کی طرح ہیں۔اللہ تعالی ان کو مزید عمر دے۔آٹھ سال سے میری بینائی ضائع ہو چکی ہے اس لیے میں اپنا کالم گوگل کو لکھواتا ہوں۔ میں نے قیوم اعتصامی مرحوم کا نام لکھوایا مگر شاید یہ نام گوگل کی میموری میں نہیں تھا،اس نے اس کی جگہ قیوم نظامی لکھ ڈالا۔یوں اس غلطی کا ارتکاب ہوا۔میں محترم قیوم نظامی اور ان کے مداحوں سے دلی طور پر معذرت خوا ہوں۔